Type Here to Get Search Results !

حضور امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مختصر سوانح حیات


حضور امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 
________(❤️)_________
ولادت –– تعلیم
یہ وہ ماحول تھا کہ ۱۰ / شوال ۱۴ / جون ۱۲۷۲ھ / ۱۸۵۶ء کو بریلی شریف ، یوپی ، انڈیا میں امام احمدرضا قادری بریلوی پیدا ہوئے ، آپ کے والد ماجد غزالیِ زماں مولانا نقی علی خاں اور جدِّامجد مولانا رضا علی خاں قدس سرہما اپنے دور کے اکابر علماء اور اولیاء میں سے تھے ، آپ کے آباء واجداد قندھار ، افغانستان سے ہجرت کرکے پہلے لاہور پھر بریلی میں قیام پذیر ہوگئے۔
فاضل بریلوی قدس سرہ نے تمام مروّجہ علوم وفنون اپنے والد ماجد سے پڑھ کر تقریبًا چودہ ۱۴سال کی عمر میں سندِ فضیلت حاصل کی اور مسندِ تدریس وافتاء کو زینت بخشی ، والد ماجد کے علاوہ حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی ، علامہ احمد بن زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ ، علامہ عبدالرحمن مکی ، علامہ حسین بن صالح مکی اور حضرت مولانا شاہ ابوالحسین احمدنوری رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی سے بھی استفادہ کیا ، امام احمدرضا بریلوی نے کچھ علوم تواپنے زمانے کے متبحر علماء سے پڑھے ، باقی علوم خداداد قابلیت کی بناپر مطالعہ کے ذریعے حل کئے اور نہ صرف پچاس سے زیادہ علوم وفنون میں محیرالعقول مہارت حاصل کی بلکہ ہرفن میں تصانیف بھی یادگارچھوڑیں۔
امام احمدرضا بریلوی ۱۴ / رمضان المبارك ۱۲۸۶ھ / ۱۸۷۰ء کو پونے چودہ سال کی عمر میں علومِ دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہوئے ، اسی دن رضاعت کے ایك مسئلے کاجواب لکھ کر والدماجد کی خدمت میں پیش کیا جو بالکل صحیح تھا ، اسی دن سے فتوٰی نویسی کاکام آپ کے سپردکردیاگیا۔محمدصابرنسیم بستوی ، مولانا : اعلٰی حضرت بریلوی(مکتبہ نبویہ ، لاہورص ۳،۲۲)
۔ اس دن سے آخر عمر تك مسلسل فتوٰی نویسی کافریضہ انجام دیتے رہے ، اور فتاوٰی رضویہ کی ضخیم بارہ جلد وں کاگراں قدرسرمایہ اُمتِ مسلمہ کو دے گئے۔ ردالمحتار علامہ شامی پر پانچ جلدوں میں حاشیہ لکھا ، قرآن پاك کا مقبول انام ترجمہ لکھا جو کنزالایمان کے نام سے معروف ومشہورہے۔ 
امام احمدرضا بریلوی نے الله تعالٰی کی عظمت و جلالت کے خلاف لب کشائی کرنے پر بھرپور تنقید کی ، سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح (الله تعالٰی جھوٹ ایسے قبیح عیب سے پاك ہے)کے علاوہ امکان کذب کے رد پر پانچ رسالے لکھے ، الله تعالٰی کو جسم ماننے والوں کے رد میں رسالہ مبارکہ قوارع القہار علی المجسمۃ الفجارتحریر کیا ، دین اسلام کے مخالف ، قدیم فلاسفہ کے عقائد پر ردکرتے ہوئے مبسوط رسالہ الکلمۃ الملہمۃ رقم فرمایا۔ رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم، صحابہ کرام ، اہل بیتِ عظام ، آئمہ مجتہدین اور اولیاء کاملین کی شان میں گستاخی کرنے والوں کاسخت محاسبہ کیا ، قادیان میں انگریز کے کاشتہ پودے کی بیخ کنی کی اور اس کے خلاف متعدد رسائل لکھے ، مثلاً
۱__ جزاء اللّٰہ عدوّہ لابائہ ختم النبوۃ
۲__قھرالدیان علی مرتد بقادیان
۳__المبین معنی ختم النبیین
۴__السوء والعقاب علی المسیح الکذاب
۵__الجراز الدیانی علی المرتدالقادیانی
امام احمدرضا نے اس دور میں پائی جانے والی بدعتوں کے خلاف جہاد کیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے تاروپود بکھیرکررکھ دئیے۔ مختصریہ کہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر ہرمحاذ پرجہاد کیا اور تمام عمر اس کام میں صرف کردی۔
امام احمدرضا بریلوی مروّجہ علوم دینیہ مثلاً تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، تصوف ، تاریخ ، سیرت ، معانی ، بیان ، بدیع ، عروض ، ریاضی ، توقیت ، منطق ، فلسفہ ، وغیرہ کے یکتائے زمانہ فاضل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ طب ، علمِ جفر ، تکسیر ، جبرو مقابلہ ، لوگارثم ، جیومیٹری ، مثلث کروی وغیرہ علوم میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ یہ وہ علوم ہیں جن سے عام طور پر علماء تعلق ہی نہیں رکھتے۔ انہوں نے پچاس سے زیادہ علوم وفنون میں تصانیف کاذخیرہ یادگارچھوڑا اور ہرفن میں قیمتی تحقیقات کااضافہ کیا ، غرض یہ کہ ایك فقیہ کے لئے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب امام احمدرضا بریلوی کو حاصل تھے۔
عبقری فقیہ :-
امام احمدرضا بریلوی مروّجہ علوم دینیہ مثلاً تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، تصوف ، تاریخ ، سیرت ، معانی ، بیان ، بدیع ، عروض ، ریاضی ، توقیت ، منطق ، فلسفہ ، وغیرہ کے یکتائے زمانہ فاضل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ طب ، علمِ جفر ، تکسیر ، جبرومقابلہ ، لوگارثم ، جیومیٹری ، مثلث کروی وغیرہ علوم میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ یہ وہ علوم ہیں جن سے عام طور پر علماء تعلق ہی نہیں رکھتے۔ انہوں نے پچاس سے زیادہ علوم وفنون میں تصانیف کاذخیرہ یادگارچھوڑا اور ہرفن میں قیمتی تحقیقات کااضافہ کیا ، غرض یہ کہ ایك فقیہ کے لئے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب امام احمدرضابریلوی کو حاصل تھے۔
علومِ قرآن :-
انہوں نے قرآن کریم کابہت گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ، قرآن فہمی کے لئے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے ان پر انہیں گہرا عبور حاصل تھا ، شانِ نزول ، ناسخ ومنسوخ ، تفسیر بالحدیث ، تفسیرِ صحابہ اور استنباطِ احکام کے اصول سے پوری طرح باخبرتھے۔ یہی سبب ہے کہ اگر قرآنِ پاك کے مختلف تراجم کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیاجائے
توہرانصاف پسند کوتسلیم کرناپڑے گا کہ امام احمدرضاکاترجمہ کنزالایمان ، سب سے بہترترجمہ ہے جس میں شان الوہیّت کااحترام بھی ملحوظ ہے اور عظمت نبوت ورسالت کاتقدس بھی پیش نظر ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے مقلد ہونے کے باوجود عموماً مسائل پرمجتہدانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ پہلے قرآن کریم سے ، پھر حدیث شریف سے ، پھرسلف صالحین اور اس کے بعد فقہائے متاخرین کے ارشادات سے استدلال اور استناد کرتے ہیں۔
قرآن کریم سے اچھوتا استدلال :-
حضرت علامہ مولانا محمدوصی احمد محدّث سورتی نے ایك استفتاء بھجوایا جس میں سوال یہ تھا کہ کیامشرقی افق سے سیاہی نمودار ہوتے ہی مغرب کاوقت ہوجاتاہے ، یاسیاہی کے بلند ہونے پر مغرب کاوقت ہوگا؟ امام احمد رضانے جواب دیا کہ سورج کی ٹکیہ کے شرعی غروب سے بہت پہلے ہی سیاہی مشرقی افق سے کئی گزبلند ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “ اس پرعیان وبیان وبرہان سب شاہد عدل ہیں.....الحمدلله! عجائبِ قرآن منتہی نہیں... ایك ذراغور سے نظرکیجئے توآیہ کریمہ “ تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ٘
“ مطالعِ رفیعہ سے اس مطلب کی شعاعیں چمك رہی ہیں۔ رات یعنی سایہ زمین کی سیاہی کوحکیم قدیر عزوجل الہ دن میں داخل فرماتاہے ، ہنوز دن باقی ہے کہ سیاہی اٹھائی ، اور دن کو سوادِ مذکور میں لاتا ہے ، ابھی ظلمتِ شبینہ موجود ہے کہ عروس خاور نے نقاب اٹھائی “ ۔ (مام احمدرضا بریلوی  امام : فتاوٰی رضویہ(طبع مرادآباد)ج۲ص۴۔ ۲۶۳)
تحریك پاکستان کے قافلہ سالار محدّث اعظم ہند مولانا سیّدمحمدمحدّث کچھوچھوی فرماتے ہیں :
 “ علمِ قرآن کا اندازہ صرف اعلٰی حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جواکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں اور نہ اردو میں ، اور جس کا ایك ایك لفظ اپنے مقام پرایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جاسکتا ، جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگردرحقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں(روح)قرآن ہے۔(عبدالنبی کوکب ، مولانا : مقالاتِ یومِ رضا ج۱ص۴۱)
علوم حدیث :-
امام احمدرضا بریلوی علمِ حدیث اور اس کے متعلقات پروسیع اور گہری نظررکھتے تھے۔ طرقِ حدیث ، مشکلاتِ حدیث ، ناسخ و منسوخ ، راجح ومرجوح ، طُرقِ تطبیق ، وجوہِ استدلال اور اسماءِ رجال یہ سب امور انہیں مستحضر رہتے تھے۔ محدّث کچھوچھوی فرماتے ہیں :
 “ علم الحدیث کااندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی مأخذ ہیں ، ہروقت پیشِ نظر ، اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پربظاہر زدپڑتی ہے اس کی روایت ودرایت کی خامیاں ہروقت ازبر ، علم الحدیث میں سب سے نازك شعبہ علم اسماء الرجال کاہے اعلٰی حضرت کے سامنے کوئی سندپڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیاجاتا توہرراوی کی جرح وتعدیل کے جو الفاظ فرمادیتے تھے اٹھاکر دیکھاجاتا توتقریب وتہذہب اور تذہیب میں وہی لفظ مل جاتاتھا ، اس کو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت ۔ (عبدالنبی کوکب ، مولانا : ، مقالاتِ یومِ رضا ج۱ ، ص۴۱)
امام احمدرضا بریلوی جس موضوع پرقلم اٹھاتے ہیں دلائل وبراہین کے انبار لگادیتے ہیں ، وہ کسی بھی مسئلے پر طائرانہ نظرڈالنے کی بجائے بحث وتحقیق کی انتہا کو پہنچتے ہیں۔ مسائل کی تنقیح اور تفصیل پرآتے ہیں تودریا کی روانی اور سمندر کی وسعت کانقشہ نظرآتاہے ، متقدمین فقہاء کے اقوال مختلفہ میں تطبیق دیتے ہیں تویوں محسوس ہوتاہے کہ اختلاف تھا ہی نہیں۔
طُرقِ حدیث :-
بنگال سے ایك سوال آیا کہ ہمارے علاقے میں ہیضہ ، چیچک ، قحط سالی وغیرہ آجائے تولوگ بلاکے دفع کے لئے چاول ، گیہوں وغیرہ جمع کرکے پکاتے ہیں ، علماء کو بلاکر کھلاتے ہیں اور خود محلّے والے بھی کھاتے ہیں ، کیایہ طعام ان کے لئے کھاناجائز ہے؟
امام احمدرضا بریلوی نے جواب دیا کہ یہ طریقہ اور اہلِ دعوت کے لئے اس طعام کاکھانا جائز ہے ، شریعتِ مطہرہ میں اس کی ہرگز ممانعت نہیں ہے۔ اس دعوے پرساٹھ حدیثیں بطور دلیل پیش کیں ، یہ حدیث بھی پیش کی :
الدرجات افشاء السلام و اطعام الطعام و الصلوۃ باللیل و الناس
الله تعالٰی کے ہاں درجہ بلند کرنے والے امور ہیں سلام کاپھیلانا اور ہرطرح کے لوگوں کو نیامٌ۔ کھانا کھلانا اور رات کا نماز پڑھنا جب کہ لوگ سورہے ہوں۔
پھر جو اس کی تخریج کی طرف توجہ ہوئی توفرمایا کہ یہ حدیث مشہور ومستفیض کاایك حصہ ہے جس میں بیان کیاگیا ہے کہ نبی
اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکوالله تعالٰی کی زیارت ہوئی اور الله تعالٰی نے اپنادستِ قدرت اپنی شان کے مطابق آپ کے کندھوں کے درمیان رکھا ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں :
فَتَجَلّٰی لِیْ کُلُّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ۔
ہرچیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے پہچان لی۔
اب اس حدیث کے حوالے ملاحظہ ہوں :
O رواہ امام الائمۃ ابوحنیفۃ والامام احمدوعبدالرزاق فی مصنفہ والترمذی والطبرانی عن ابن عباس۔  
O واحمد والطبرانی وابن مردویہ عن معاذ بن جبل۔
وابن خزیمۃ والدارمی والبغوی وابن السکن و ابونعیم وابن بسطۃ عن عبدالرحمن بن عایش والطبرانی عنہ عن صحابی۔
O والبزار عن ابن عمر وعن صحابی
O والطبرانی عن ابی امامۃ۔
Oوابن قانع عن ابی عبیدۃ بن الجراح۔
O والدارقطنی و ابوبکرالنیسابوری فی الزیادات عن انس۔
O وابوالفرج تعلیقا عن ابی ھریرۃ۔
O وابن ابی شیبۃ مرسلا عن عبدالرحمن بن سابط۔ (رضی اللّٰہ تعالی عنہم)
آخر میں فرماتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے طرق کی تفصیلات اور کلمات کااختلاف اپنی بابرکت کتاب سلطنۃ المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی میں بیان کیا ہے۔

 قلم برداشتہ کسی حدیث کے اتنے مآخذ کابیان کردینا معمولی بات نہیں۔
امام احمد رضابریلوی نے یہ فتوٰی رادّ القحط والوباء بدعوۃ الجیران ومواساۃ الفقراء کے نام سے ماہ ربیع الآخر ۱۳۱۲ھ میں مکمل کیا۔
احمدرضابریلوی نے تخریج احادیث کے آداب پرایك رسالہ لکھا جس کانام ہے : الروض البھیج فی آداب التخریج۔ مولوی رحمن علی اس رسالہ مبارکہ کے بارے میں لکھتے ہیں : “ اگراس سے قبل اس فن میں کوئی کتاب نہیں ملتی تومصنف کو اس فن کاموجد کہہ سکتے ہیں۔ “ [2]
فن اسماء الرجال
ایك سوال پیش ہوا کہ سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے یانہیں؟ چونکہ اس موضوع پر غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیرحسین دہلوی ، معیارالحق میں کلام کرچکے تھے ، اس لئے امام احمدرضا بریلوی نے اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی اور ۱۳۴ صفحات پرمشتمل رسالہ حاجز البحرین تصنیف فرمایا۔ رسالہ کیا ہے علمِ حدیث اور علمِ اسماء الرجال کابحرِ مواج ہے ، اس کامطالعہ کرتے وقت غیرمقلدین کے شیخ الکل علم حدیث میں طفلِ مکتب نظر آتے ہیں ، آج تك غیرمقلدین کوعلمِ حدیث کے مدعی ہونے کے باوجود اس کاجواب دینے کی جرأت نہیں ہوسکی۔
امام نسائی حضرت نافع سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایك سفر میں حضرت ابن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے ساتھ تھا وہ تیزی کے ساتھ سفرکررہے تھے ، شفق غروب ہونے والی تھی کہ اترکر نمازِ مغرب ادا کی پھر عشاء کی تکبیر اس وقت کہی جب شفق غروب ہوچکی تھی۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ ابن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے دونمازیں ایك وقت میں جمع نہیں کیں ، بلکہ صورۃً اور عملاً جمع کیں۔ یہ بات میاں صاحب کے موقف کے خلاف تھی انہوں نے اس پر اعتراض کیا کہ امام نسائی کی روایت میں ایك راوی ولیدبن قاسم ہیں اور ان سے روایت میں خطا ہوتی تھی تقریب میں ہے : صَدُوْقٌ یُّخْطِیئُ۔
اس اعتراض پر امام احمدرضابریلوی نے متعدد وجوہ سے گرفت فرمائی :
۱۔ یہ تحریف ہے ، امام نسائی نے ولید کافقط نام ذکرکیاتھا ، میاں صاحب نے ازراہِ چالاکی اسی نام اور اسی طبقے کاایك راوی متعین کرلیا جو امام نسائی کے راویوں میں سے ہے اور جس پر کسی قدر تنقید بھی کی گئی ہے حالانکہ یہ راوی ولیدبن قاسم نہیں بلکہ ولیدبن مسلم ہیں جو صحیح مسلم کے رجال اور ائمہ ثقات اور حفاظ اعلام میں سے ہیں ، ہاں وہ تدلیس کرتے ہیں ، لیکن اس کاکیانقصان کہ اس جگہ وہ صاف حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ فرمارہے ہیں۔
۲۔ اگرتسلیم بھی کرلیاجائے کہ وہ ابن قاسم ہی ہیں تاہم وہ مستحقِ رَد نہیں امام احمد نے ان کی توثیق کی ہے ، ان سے روایت کی ، محدثین کو ان سے حدیث لکھنے کاحکم دیا۔ ابن عدی نے کہا جب وہ کسی ثقہ سے روایت کریں تو ان میں کوئی عیب نہیں ہے۔
۳۔ صحیح بخاری و مسلم میں کتنے راوی وہ ہیں جن کے بارے میں تقریب میں فرمایا صَدُوْق یُّخْطِئُ ، کیا آپ قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ صحیحین کی روایات کو بھی رد کردوگے؟
پھرامام احمدرضا بریلوی نے حاشیہ میں قلم برداشتہ صحیحین کے ۳۱ ایسے راویوں کے نام گنوادئیے
پہلے حسان بصری کو صدوق یخطئ کے باوجود واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ ضعیف نہیں ہیں۔
مطالبِ حدیث :-
مرزائیوں نے حدیث شریف لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ سے حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلامکی وفات پراس طرح استدلال کیا کہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ یہودونصارٰی نے اپنے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنایا ، اس سے ظاہر ہوا کہ نبی یہود حضرت موسی اور نبی نصارٰی حضرت عیسی عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قبریں تھیں جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ امام احمدرضابریلوی حدیث مذکور سے استدلال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
۱۔ اَنْبِیَائِھِمْ میں اضافت استغراق کے لئے نہیں ہے حتی کہ اس کا یہ معنی ہو ، کہ حضرت موسی سے یحیی عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامتك ہر نبی کی قبر کو تمام یہود ونصاری نے مسجد بنا لیا ہو ، یہ یقینا غلط ہے ، اورجب استغراق مراد نہیں توبعض میں حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلامکوداخل کرلینا باطل اور مردود ہے۔ یہود و نصارٰی کا بعض انبیاء کی قبور کریمہ کو مسجد بنالینا صدقِ حدیث کے لئے کافی ہے۔
علّامہ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ سوال اٹھایا کہ نصارٰی کے انبیاء کہاں ہیں؟ ان کے نبی توصرف حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلامتھے ، ان کی قبر نہیں ہے۔ اس سوال کاایك جواب یہ دیا :
 “ انبیاء کی قبروں کومسجد بنانا عام ہے کہ ابتداءً ہو یاکسی کی پیروی میں ، یہودیوں نے ابتداء کی اور عیسائیوں نے ان کی پیروی کی اور اس میں شك نہیں کہ نصارٰی بہت سے ان انبیاء کی قبور کی تعظیم کرتے ہیں جن کی یہودی تعظیم کرتے ہیں۔ “ (ترجمہ)
۲۔ حافظ ابن حجرعسقلانی نے دوسراجواب یہ دیا کہ اس حدیث میں اقتصار واقع ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہود اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بناتے تھے اورنصارٰی اپنے صالحین کی قبروں کو۔ صحیح بخاری ، حدیث ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیں قبورِ انبیاء کے بارے میں صرف یہودیوں کاذکر ہے اوران کے ساتھ ان کے انبیاء کاذکر ہے۔ رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا : قَاتَلَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ۔ الله تعالٰی یہودیوں کوہلاك فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کوسجدہ گاہیں بنالیا۔
صحیح بخاری ، حدیث حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَامیں صرف نصارٰی کاذکر تھا ان کے ساتھ صرف صالحین کا ذکر ہے ، انبیاء کرام کاذکر نہیں ہے۔ چنانچہ رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکاارشاد ہے کہ : اُولٰئِكَ قَوْم اِذَا مَاتَ فِیْھِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا وَّصَوَّرُوْا فِیْہِ تِلْكَ الصُّوَرَ۔ نصارٰی وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیك آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں وہ تصویریں بنالیتے۔ اور صحیح مسلم حضرت جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی حدیث میں یہود ونصارٰی دونوں کاذکر تھا اس میں انبیاء اور صالحین دونوں کاذکر فرمایا ، چنانچہ ارشاد فرمایا : اَلَاوَمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ وَصَالِحِیْھِمْ مَسَاجِدَ۔
خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیتے تھے ۔ اسی حدیث کامطلب اسی وقت واضح ہوتاہے جب اس کے متعدد طرق کوجمع کرلیاجائے۔ [1]
دین کے اصول وقواعد :-
ایك متبحرفقیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ دین کے اصول وقواعد کاوسیع علم رکھتاہو تاکہ کسی نئے مسئلے کاحکم پورے وثوق کے ساتھ بیان کرسکے ، امام احمدرضابریلوی سے سوال کیاگیا کہ روسر [2] کی شکر ہڈیوں سے صاف کی جاتی ہے اور صاف کرنے والے اس بات کی احتیاط نہیں کرتے کہ وہ ہڈیاں پاك ہیں یاناپاک ، حلا ل جانور کی یاحرام کی۔ اس شکرکاکیاحکم ہے؟ امام احمدرضابریلوی نے جواب سے پہلے دس مقامات بیان کئے جن میں شرعی اصول وضوابط پیش کئے ، ان ہی مقدمات میں ایك ضابطہ کلیہ واجبۃ الحفظ بیان فرمایا :
 “ فعلِ فرائض وترك محرمات کوارضائے خلق پرمقدم رکھے اور ان امور میں کسی کی مطلقًا پروانہ کرے اور اتیانِ مستحب وترك غیراولیٰ پرمداراتِ خلق ومُراعاتِ قلوب کواہم جانے اورفتنہ ، ونفرت وایذا و وحشت کاباعث ہونے سے بہت بچے۔
اسی طرح جوعادات ورسوم خلق میں جاری ہوں اور شرع مطہر سے ان کی حرمت وشناعت نہ ثابت ہو ان میں اپنے ترفع وتنزُّہ کے لئے خلاف وجدائی نہ کرے کہ یہ سب امور ایتلاف وموانست کے معارض اور مراد ومحبوب شارع کے مناقض ہیں۔
ہاں وہاں !ہوشیاوگوش دار! کہ ہ وہ نکتہ جمیلہ وحکمت جلیلہ وکوچہ سلامت وجادہ کرامت ہے جس سے بہت زاہدان خشك واہل تقشف غافل وجاہل ہوتے ہیں وہ اپنے زعم میں محتاط ودین پروربنتے ہیں اور فی الواقع مغزحکمت ومقصودِ شریعت سے دورپڑتے ہیں ، خبردار ومحکم گیر ، یہ چندسطروں میں علم غزیر وبالله التوفیق والیہ المصیر ۔
عربی لغات :-
علامہ شامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے لفظ طَفَّ بَہ پڑنے کے معنی میں استعمال کیا اور فرمایا : حَتی طَفَّ مِنْ جَوَانِبِہَا۔ اس پر امام احمدرضابریلوی نے فرمایا : “ مجھے یہ فعل اور اس کامصدر ۱صحاح ، ۲صراح ، ۳مختار ، ۴قاموس ، ۵تاج العروس ، ۶مفردات ، ۷نہایہ ، ۸درنثیر ، ۹مجمع البحار اور۱۰مصباح میں نہیں ملا ، ہاں قاموس میں صرف اتنا ہے کہ طف المکوك والاناء وطففہ و طِفافہ وہ چیز جو اس برتن کے کناروں کو بھردے  “ ۔
امام احمدرضابریلوی کو عربی زبان پراس قدر عبورتھا کہ ایك نامانوس لفظ دیکھتے ہی اسے غریب سمجھا اور اس کی غرابت پرلغات کی دس مستند کتابوں کاحوالہ پیش کیا ، ان مآخذمیں عربی لغات بھی ہیں اور لغاتِ حدیث بھی۔
امام احمدرضابریلوی اپنی اکثروبیشترتصنیفات کے خطبوں میں الله تعالٰی کی حمد وثنا اور درود شریف کے ساتھ ساتھ وہ مسئلہ بھی بیان فرمادیتے ہیں جسے بعد ازاں تفصیلی دلائل کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اکثررسائل وتصنیفات کاایساحسین نام تجویز فرماتے ہیں جس سے نہ صرف واضح طور پر موضوع کی نشاندہی ہوتی ہے بلالکہ حروف ابجد کے حساب سے سالِ تصنیف بھی معلوم کیاجاسکتاہے۔
علّامہ ابن کمال باشا نے فقہاکے سات طبقے بیان کئے جن میں سے تیسرا طبقہ مجتہدین فی المسائل کاہے ، یہ وہ فقہاء ہیں جو اصول وفروع میں اپنے امام کے پابندہیں اور امام کے غیرمنصوص احکام کااستنباط کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ، امام احمدرضابریلوی کے فتاوٰی اور تحقیقات جلیلہ کامطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ وہ مجتہدین کے اسی طبقے میں شامل ہیں ، چنانچہ آپ نے نوٹ کے احکام پرمبسوط رسالہ کفل الفقیہ الفاھم میں لکھ کرعرب وعجم کے علماء کوخوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ اسی طرح انگریزوں کی ایك کمپنی روسرجانوروں کی ہڈیاں جلاکر ان کی راکھ سے شکر صاف کرتی تھی ، یہ ایك نیامسئلہ تھا جسے آپ نے اصول دینیہ کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ، اسی طرح جنسِ ارض کی تہتّر قسمیں علماء متقدمین نے بیان کی تھیں جن میں آپ نے ایك سو سات ۱۰۷ چیزوں کااضافہ کیا ، اور جن چیزوں سے تیمم نہیں ہوسکتافقہاء متقدمین نے سینتالیس چیزیں گنوائی تھیں جبکہ آپ نے ان میں تہتّر چیزوں کااضافہ کیا ، فتاوٰی رضویہ جلد اوّل کے بارے میں خود فرماتے ہیں :
 “ بظاہر اس(پہلی جلد)میں ۱۱۴فتوے اور ۲۸رسالے ہیں مگربحمدالله تعالٰی ہزارہا مسائل پرمشتمل ہے جن میں صدہا وہ ہیں کہ اس کتاب کے سوا کہیں نہ ملیں گے۔ “ 
حکیم محمدسعیددہلوی ، چیئرمین ہمدردٹرسٹ ، پاکستان رقمطراز ہیں : “ میرے نزدیك ان کے فتاوٰی کی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ وہ کثیر درکثیر فقہی جزئیات کے مجموعے ہیں بلکہ ان کاخاص امتیاز یہ ہے کہ ان میں تحقیق کاوہ اسلوب ومعیار نظرآتاہے جس کی جھلکیاں ہمیں صرف قدیم فقہاء میں نظرآتی ہیں ، میرامطلب ہے کہ قرآنی نصوص اور سننِ نبویہ کی تشریح وتعبیر اور ان سے احکام کے استنباط کے لئے قدیم فقہاءجملہ علوم ووسائل سے کام لیتے تھے اور یہ خصوصیت مولانا کے فتاوٰی میں موجود ہے۔ “
علمِ طب :-
امام احمدرضا بریلوی وہ بالغ نظر مفتی ہیں جو احکامِ شرعیہ معلوم کرنے کے لئے تمام امکانی مآخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں ، ایك ماہر طبیب جب فتاوٰی رضویہ کامطالعہ کرتاہے توبیش بہاطبی معلومات دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ہے اور وہ یہ سوچنے پرمجبور ہوجاتاہے کہ وہ کسی مفتی کی تصنیف پڑھ رہاہے یا ماہر طبیب کی ، چنانچہ جناب حکیم سعیدتدہلوی لکھتے ہیں : “ فاضل بریلوی کے فتاوٰی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ احکام کی گہرائیوں تك پہنچنے کے لئے سائنس اور طب کے تمام
وسائل سے کام لیتے ہیں اور اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ کس لفظ کی معنویت کی تحقیق کے لئے کن علمی مصادر کی طرف رجوع کرناچاہئے ، اس لئے ان کے فتاوٰی میں بہت سے علوم کے نکات ملتے ہیں ، مگر طب اور اس علم کے دیگر شعبے مثلاً کیمیا اور علم الاحجار کو تقدم حاصل ہے اور جس وسعت کے ساتھ اس علم کے حوالے ان کے ہاں ملتے ہیں اس سے ان کی دقّتِ نظر اور طبّی بصیرت کااندازہ ہوتاہے ، وہ اپنی تحریروں میں صرف ایك مفتی نہیں بلکہ محقق طبیب بھی معلوم ہوتے ہیں ، ان کے تحقیقی اسلوب ومعیار سے دین وطب کے باہمی تعلق کی بھی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے۔ “ 
مرجع العلما :-
یہ پہلوبھی لائق توجہ ہے کہ عام طورپر مفتیان کرام کی طرف عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور احکام شرعیہ دریافت کرتے ہیں ، فتاوٰی رضویہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ امام احمدرضا بریلوی کی طرف رجوع کرنے والوں میں بڑی تعداد اُن حضرات کی ہے جو بجائے خود مفتی تھے ، مصنّف تھے ، جج تھے یا وکیل تھے ، مولانا خادم حسین فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور نے ایك مقالہ لکھا ہے جس کاعنوان ہے :
 “ امام احمدرضا بریلوی بحیثیت مرجع العلماء “
اس مقالہ میں انہوں نے فتاوٰی رضویہ کی نو جلدوں(پہلی سے ساتویں اور دسویں گیارہویں جلد)کامطالعہ پیش کیا ہے ، ان کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق ان جلدوں میں چار ہزار پچانوے(۴۰۹۵) استفتا ہیں ، جن میں سے تین ہزار چونتیس(۳۰۳۴)عوام الناس کے استفتاء ہیں اور ایك ہزار اکسٹھ(۱۰۶۱)استفتاء علماء اور دانشوروں کے پیش کردہ ہیں۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ استفتاء کرنے والوں میں ایك چوتھائی تعداد علماء اور دانشوروں کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ عموماً امام احمدرضا بریلوی جواب دیتے وقت ہاں یانہیں میں نہیں کرتے بلکہ دلائل و براہین کے انبار لگادیتے ہیں۔ مولانا خادم حسین کایہ مقالہ فتاوٰی رضویہ کی پیشِ نظر جلد ثانی میں شائع کیاجارہاہے۔
امام احمدرضا بریلوی کی جلالت علمی کایہ عالم تھا کہ انہیں جو عالم بھی ملاعقیدت واحترام سے ملااور ہمیشہ کے لئے ان کامدّاح بن گیا ، حضرت علامہ مولاناوصی احمدمحدث سورتی ، عظیم محدث اور عمرمیں بڑے ہونے کے باوجود امام احمدرضا بریلوی سے اس قدروالہانہ تعلق رکھتے تھے کہ دیکھنے والوں کوحیرت ہوتی تھی۔ حضرت علامہ مولانا سراج احمدخانپوری اپنے دور کے جلیل القدر فاضل تھے اور علم میراث میں توانہیں تخصّص حاصل تھا ، الزبدۃ السراجیہ لکھتے وقت ذوی الارحام کی صنف رابع کے بارے میں مفتٰی بہ قول دریافت کرنے کے لئے دیوبند ، سہارنپور اور دیگر علمی مراکز کی طرف رجوع کیا ، کہیں سے تسلی بخش جواب نہ آیا ، پھرانہوں نے وہی سوال بریلوی بھجوادیا ، ایك ہفتے میں انہیں جواب موصول ہوگیا جسے دیکھ کر ان کادماغ روشن ہوگیا اور وہ تازیست امام احمدرضا بریلوی کے فضل وکمال اور تبحرعلمی کے گن گاتے رہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امام احمدرضا بریلوی سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی انکی فقاہت اور تبحرعلمی کے قائل ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ امام احمدرضا بریلوی نے ندوۃ العلماء کی صلح کلیت کاسخت تعاقب اور رد کیاتھا ، اس کے باوجود ندوہ کے ناظم اعلٰی علامہ ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں؛
 “ ان کے زمانے میں فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر آگاہی میں شاید ہی کوئی ان کاہم پلہ ہو ، اس حقیقت پران کا فتاوٰی اور ان کی کتاب کفل الفقیہ شاہد ہے جوانہوں نے ۱۳۲۳ھ میں مکہ معظمہ میں لکھی۔ “( ابوالحسن علی ندوی : نزہۃ الخواطر,نورمحمدکراچی,ج۸،ص۴۱)
گزشتہ سال مولانا کوثرنیازی ہندوستان گئے تو ندوۃ العلماء لکھنؤبھی گئے واپسی پر انہوں نے اپنے تاثرات میں ندوہ کے بارے میں لکھا کہ اس کے ہال میں ہندوستان کے ممتازعلماء کا امتیازی مقام واضح کرنے کے لئے چارٹس آویزاں کئے گئے تھے ، چنانچہ علمِ فقہ میں ممتازشخصیت کی حیثیت سے حضرت مولانا احمد رضا خاں کانام لکھا ہواتھا۔( کوثرنیازی : مشاہدات وتاثرات ، روزنامہ جنگ ، لاہور ، ۱۱ دسمبر۱۹۸۹ء)

 تذکرہ وتاریخ کی کتابوں کامطالعہ کئے بغیر یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ اس دور میں بڑے بڑے فقہاء ہوگزرے ہیں ان سب میں ممتازی فقیہ کے طور پر امام احمدرضا بریلوی کانام منتخب کرنا اور وہ بھی ان کے مخالفین کی طرف سے ، ان کے فضل وکمال کی بہت بڑی دلیل ہے۔ ع  
اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ
(فضیلت وہ ہے جس کی گواہی مخالفین بھی دیں)
امام احمدرضابریلوی میں بہت سی مجتہدانہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کے بیان واستدلال میں واضح طور پراجتہاد کی جھلك دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود وہ تکبّراور عُجب کی زد میں نہیں آتے ، وہ یہ دعوٰی نہیں کرتے کہ میں مجتہد ہوں اور براہ راست کتاب وسنت سے استدلال کرتاہوں ، بکلکہ وہ امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے مقلد کی حیثیت سے فتوٰی دیتے ہیں اور مذہب حنفی کی تائید وحمایت میں ہی دلائل فراہم کرتے ہیں۔ ذراملاحظہ فرمائیں وہ اپنے فتاوٰی کی حیثیت کاتعین کس انداز میں کرتے ہیں ، فرماتے ہیں :
 “ فتوے کی دو قسمیں ہیں(۱)حقیقیہ(۲)عرفیہ ، فتوائے حقیقیہ تویہ ہے کہ تفصیلی دلیل کی معرفت کی بناپر فتوٰی دیاجائے ، ایسے حضرات کو اصحابِ فتوٰی کہاجاتاہے ، چنانچہ کہاجاتاہے فقیہ ابوجعفر اور فقیہ ابواللیث اور ان جیسے دیگرفقہاء رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰینے یہ فتاوٰی دیا ، فتوائے عرفیہ یہ ہے کہ ایك عالم امام کی تقلید کرتے ہوئے اس کے اقوال بیان کرے اور اسے تفصیلی دلیل کاعلم نہ ہو ، جیسے کہ کہاجاتاہے ابن نجیم ، غزی ، طوری کے فتاوٰی اور فتاوٰی خیریہ ، اسی طرح زمانے اور مرتبے میں مؤخرفتاوٰی کو فتاوٰی رضویہ تك گنتے چلے جائیے ، الله تعالٰی اس فتاوٰی کو باعثِ خوشنودی اور پسندیدہ بنائے۔ آمین۔(احمدرضا بریلوی امام : فتاوٰی رضویہ ،ج۱ ص۳۸۵،رضااکیڈمی بمبیئ)
انہوں نے کثیرمقامات میں اکابرفقہاء متقدمین سے اختلاف کیاہے لیکن کیامجال ہے کہ ان کی شان میں بے ادبی کاکوئی کلمہ کہہ دیں یاایساکلمہ کہہ دیں جوان کے شایان شان نہ ہو ، وہ اپنی تنقید اور گرفت کومعروضہ یاتطفّل(بچپنے)سے تعبیر کرتے ہیں ، آج بعض علماء کو الله تعالٰی نے وسعتِ علمی عطافرمائی ہے تووہ بزرگوں کے بارے میں ایسا لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں جیسے کسی طفلِ مکتب سے ہم کلام ہوں ، یہ رویہ کسی طرح بھی قابل ذکر تحسین نہیں ہے۔
ذوقِ شعروسخن :-
تحقیقات علمیہ میں امام احمدرضابریلوی کا بلندترین مقام تواہل علم کے نزدیك مسلّم ہی ہے شعروادب میں بھی وہ قادرالکلام اساتذہ کی صف میں شامل ہیں۔ جامعہ ازہرمصر کے ڈاکٹرمحی الدین الوائی نے اس امر پرحیرت کااظہار کیا ہے کہ علمی موشگافیاں کرنے والا محقق نازك خیال ادیب اور شاعر بھی ہوسکتاہے!
متنبی ادب عربی کامسلّم اور نامور شاعر ہے ، وہ کہتاہے : ؎
اَزُوْرُھُمْ وَسَوَادُ اللَّیْلِ یَشْفَعُ لِیْ وَاَنْثَنِیْ وَبَیَاضُ الصُّبْحِ یُغْرِیْ بِیْ
(میں اس حال میں محبوبوں کی زیارت کرتاہوں کہ رات کی سیاہی میری سفارش کرتی ہے اور اس حال میں لوٹتاہوں کہ صبح کی سفیدی میرے خلاف برانگیختہ کرتی ہے۔ )
کہتے ہیں کہ یہ شعرمتنبی کے اشعار کاامیر ہے کیونکہ اس کے پہلے مصرعے میں پانچ چیزوں کاذکر ہے اور دوسرے مصرعے میں ان کے مقابل پانچ چیزوں کااسی ترتیب سے ذکر ہے۔
پہلامصرع : ۱۔ زیارت۲۔ سیاہی ۳۔ رات ۴۔ سفارش کرنا ۵۔ لِی(میرے حق میں)
دوسرامصرع : ۱۔ واپسی ۲۔ سفیدی ۳۔ صبح ۴۔ برانگیخۃ کرنا ۵۔ بِیْ(میرے خلاف)
رضابریلوی کاشعر ملاحظہ ہو ، معنوی بلندی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ شاعرانہ نقطہ نظر سے کتنازوردار ہے!
پہلے مصرعے میں بجائے پانچ کے چھ چیزوں کاذکر ہے اور ان کے مقابل دوسرے مصرعے میں بھی چھ چیزیں ہی مذکور ہیں اور لطف یہ ہے کہ غزل نہیں بلکہ نعت ہے جہاں قدم قدم پراحتیاط لازم ہے ؎
حُسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سرکٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
مصرع۱ : ۱۔ حسن ۲۔ انگشت ۳۔ کٹیں(غیراختیاری عمل تھا)۴۔ عورتیں ۵۔ مصر ۶۔ “ کٹیں “ سے ایك بار کاپتاچلتاہے۔
مصرع۲ : ۱۔ نام ۲۔ سر ۳۔ کٹاتے(اختیاری عمل ہے)۴۔ مرد ۵۔ عرب ۶۔ “ کٹاتے ہیں “ سے استمرار معلوم ہوتاہے۔
امام احمدرضابریلوی نے اصناف شعروسخن میں سے حمدباری تعالٰی ، نعت اور منقبت کومنتخب کیا ، قصیدہ معراجیہ ، قصیدہ نور اور مقبولیتِ عامہ حاصل کرنے والا سلام ع مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام ایسے ادب پارے پیش کئے۔ ان کی تمام تصانیف کی بنیاد اسلام اور داعیِ اسلام سیدالانام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے گہری وابستگی پرہے ، اسلامیانِ پاك وہند کے دلوں میں رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی عقیدت ومحبت تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ بسانے میں انہوں نے اہم کردار اداکیا۔
دو قومی نظریہ :-
۲۰۔ ۱۹۱۹ء میں تحریك خلافت اور تحریك ترك موالات شروع ہوئی پہلی تحریك کا مقصد سلطنت عثمانیہ ترکی کی حفاظت اور امداد تھا جبکہ دوسری تحریك کامقصد ہندوستان کی آزادی کے لئے بائیکاٹ کے ذریعے حکومت برطانیہ پر دباؤ ڈالنا بتایا گیا ، مسٹر گاندھی کمالِ عیاری سے دونوں تحریکوں کا قائد اور امام بن گیا ، حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ قریب تھا کہ مسلمان اپنا ملی تشخص کھو کر ہندو مت میں مدغم ہو جاتے ، اس ماحول میں امام احمد رضا بریلوی نے المحجۃ المؤتمنہ اور انفس الفکر ایسے رسائل لکھ کر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیا اور دلائل سے ثابت کیا کہ ہندو نہ تو مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور نہ ہی وہ مسلمانوں کا امام بن سکتا ہے ، ان کی دوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مسلمان انگریزوں کے چنگل سے رہا ہوکر ہندؤوں کے محکوم اور غلام بن کر رہ جائیں گے ، اس لئے مسلمانوں کو وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دونوں سے گلو خلاصی کرائے۔ یہی وہ دو قومی نظریہ تھا جس کی بناء پر پاکستان کاقیام عمل میں آیا ، امام احمد رضا بریلوی کے تلامذہ ، خلفاء اور تمام ہم مسلك علماء و مشائخ نے نظریہ پاکستان کی حمایت کی اور ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس ، بنارس کے اجلاس میں متفقہ طور پر قیامِ پاکستان کے حق میں قراردادیں پاس کی گئیں اور اپیل کی گئی کہ اپنے اپنے علاقوں میں مسلم لیگ کے نمائندوں کو کامیاب کرایاجائے حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ حضرات حمایت نہ کرتے تو پاکستان کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا تھا۔
امام احمد رضا کی سیاسی فکر کی بنیاد قرآن وحدیث پر تھی ، ان کے نزدیك کسی بھی کافر سے محبت کی گنجائش نہیں ہے خواہ وہ ہندو ہو یا انگریز۔ چنانچہ فرماتے ہیں : “ قرآن عظیم نے بکثرت آیتوں میں تمام کفار سے موالات قطعاً حرام فرمائی ، مجوس ہوں خواہ یہود ونصارٰی ہوں ، خواہ ہنود اور سب سے بدتر مرتدان ہنود ۔ “
پٹنہ ، عظیم آباد کی ۱۳۱۸ھ / ۱۹۰۰ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ارشادفرمایا :
 “ سب کلمہ گوحق پر ہیں ، خدا سب سے راضی ہے ، سب کو ایك نظر سے دیکھتا ہے ، گورنمنٹ انگریز کامعاملہ خدا کے معاملوں کا پورا نمونہ ہے ، اس کے معاملے کو دیکھ کر خدا کی رضا و ناراضی کاحال کھل سکتا ہے.....یہ کلمات اور ان کے امثال خرافات کو اہل ندوہ کی جو روداد ہے ، جو مقال ہے ایسی باتوں سے مالامال ہے ، سب صریح وشدید نقال وعظیم وبال موجب غضب ذی الجلال ہیں۔ “
اسرارِ شریعت وطریقت کااُجالا پھیلاکر ۲۵صفر۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء بروزجمعہ عین اس وقت عبقریِ اسلام امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی جب مؤذن اذانِ جمعہ میں کہہ رہا تھا حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ ـــــــــــــــ رحمہ اللّٰہ تعالٰی رحمۃ واسعۃ واسکنہ فی اعلٰی علیین ونفعنا وجمیع المسلمین بعلومہ ومعارفہ
________________


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area