•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4249)
وکیل کو وکالت کے پیشے میں رشوت دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک پشاور وکیل ہے جو اسے زیادہ تر کام کروانے پر رشوت دینا پڑتا ہے کبھی کبھی مجبوری میں رشوت دینا پڑتا ہے کیا زید مجبوری کے وقت رشوت دے سکتا ہے یا نہیں اگر دےگا تو کون گنہگار ہوگا با حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- رئیس احمد انصاری شراوستی یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے
بغیر شدید مجبوی کے رشوت دینا بھی گناہ اور موجب لعنت ہے اور کام جلدی کروانے کے لیے رشوت دینے سے دوسرے کی حق تلفی لازم نہ آتی ہو اور کام جلد نہ ہونے کی وجہ سے حرج عظیم کا سامنا ہو اورکام ایسا ہو کہ اس کو وصول کرنا ضروری ہو تو ایسی مجبوری میں رشوت دینے کی گنجائش ہے
ورنہ وکیل جس درجہ میں اس طرح کے حرام وناجائز امور کا مرتکب ہوگا اسی درجہ میں اس کا پیشہ ناجائز وحرام ہوگا اور آمدنی بھی اسی درجہ میں کراہت یا حرمت پر مشتمل ہوگی۔
وکالت کے جواز کے متعلق صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طبائع عطا کیے ہیں، کوئی قوی ہے اور کوئی کمزور، بعض کم سمجھ ہیں اور بعض عقلمند، ہر شخص میں خود ہی اپنے معاملات کو انجام دینے کی قابلیت نہیں، نہ ہر شخص اپنے ہاتھ سے اپنے سب کام کرنے کیلئے تیار، لہٰذا انسانی حاجت کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ دوسروں سے اپنا کام کرائے حقوق العبد جو شبہہ سے ساقط نہیں ہوتے، ان سب میں وکیل بالخصومۃ بنانا درست ہے، وہ حق از قبیل دین ہو یا عین (بہار شریعت ج2 ص977 تا 973)
والله ورسوله اعلم بالصواب
وکیل کو وکالت کے پیشے میں رشوت دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک پشاور وکیل ہے جو اسے زیادہ تر کام کروانے پر رشوت دینا پڑتا ہے کبھی کبھی مجبوری میں رشوت دینا پڑتا ہے کیا زید مجبوری کے وقت رشوت دے سکتا ہے یا نہیں اگر دےگا تو کون گنہگار ہوگا با حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- رئیس احمد انصاری شراوستی یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے
بغیر شدید مجبوی کے رشوت دینا بھی گناہ اور موجب لعنت ہے اور کام جلدی کروانے کے لیے رشوت دینے سے دوسرے کی حق تلفی لازم نہ آتی ہو اور کام جلد نہ ہونے کی وجہ سے حرج عظیم کا سامنا ہو اورکام ایسا ہو کہ اس کو وصول کرنا ضروری ہو تو ایسی مجبوری میں رشوت دینے کی گنجائش ہے
ورنہ وکیل جس درجہ میں اس طرح کے حرام وناجائز امور کا مرتکب ہوگا اسی درجہ میں اس کا پیشہ ناجائز وحرام ہوگا اور آمدنی بھی اسی درجہ میں کراہت یا حرمت پر مشتمل ہوگی۔
وکالت کے جواز کے متعلق صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طبائع عطا کیے ہیں، کوئی قوی ہے اور کوئی کمزور، بعض کم سمجھ ہیں اور بعض عقلمند، ہر شخص میں خود ہی اپنے معاملات کو انجام دینے کی قابلیت نہیں، نہ ہر شخص اپنے ہاتھ سے اپنے سب کام کرنے کیلئے تیار، لہٰذا انسانی حاجت کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ دوسروں سے اپنا کام کرائے حقوق العبد جو شبہہ سے ساقط نہیں ہوتے، ان سب میں وکیل بالخصومۃ بنانا درست ہے، وہ حق از قبیل دین ہو یا عین (بہار شریعت ج2 ص977 تا 973)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
31/08/2023