کفر و شرک کی آندھیاں اورشمعِ ایمان
_________(❤️)_________
حضر ت سید نا اسد بن حارثہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دس صحابہ کرام علیہم الرضوان پر مشتمل ایک قافلہ کسی محاذ پر روانہ فرمایا اور حضرت سید نا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیر مقرر فرمایا، جب یہ حضرات عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان واقع ایک وادی میں پہنچے تو قبیلہ ہذیل کے کچھ لوگوں کو ان کی خبر ملی ،لہٰذا سوتیر اندازوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا، ایک جگہ صحابہ کرام علیہم الر ضوان کا یہ قافلہ کھانے کے لئے ٹھہرا اور وہاں کھجوریں وغیرہ تناول فرمائیں ،پھر آگے روانہ ہو گئے۔ جب یہ لوگ پیچھا کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے اور وہاں کھجوروں کی گٹھلیاں دیکھیں تو آپس میں کہنے لگے :’’ یہ تو مکۂ مکرمہ کی کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں ،انہیں ڈھونڈو، وہ ضرور کہیں آس پاس ہی موجود ہوں گے،جب حضرت سیدنا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس فرمایاکہ ہمارا پیچھا کیاجارہاہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کولے کر ایک میدان میں آگئے جیسے ہی یہ میدان میں آئے تو دشمنو ں نے انہیں گھیر لیا اور کہا : ’’تم سب اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔‘‘حضرت سیدنا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:’’ میں ہرگز کسی کافر کے وعدہ کا اعتبار نہیں کروں گا،ہم اپنے آپ کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔‘‘ جب دشمنوں نے یہ سنا تو ان پر تیروں کی بارش کر دی۔ حضرت سیدنا عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور عرض کی:’’ اے میرے پروردگار عزوجل !ہماری اس حالت کی خبر رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعا لیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوپہنچا دے۔ ابھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصروفِ دعا ہی تھے کہ ان ظالموں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیر مار مار کر شہید کر دیااور اسی طرح اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی شہید کرتے رہے جب آخر میں صرف حضرت سید نا خبیب ، حضرت سید نا زید بن ثابت اور ایک اور صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہم باقی رہ گئے، تو انہوں نے اپنے آپ کوان کے حوالے کر دیا۔کفار نے یہ دیکھ کر فوراً ان سے تلواریں چھین لیں اور انہیں گھیرے میں لے لیااور زدوکوب کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:’’خدا عزوجل کی قسم! یہ تمہاری پہلی بد عہدی ہے، اب میں ہر گز تمہارے وعدے پر اعتبار نہ کروں گااور تمہارے ساتھ نہ جاؤں گا،یہ سن کر کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کر دیا انہوں نے مزاحمت کی اور ان کے ساتھ جانے سے انکار کیاتو ظالموں نے انہیں بھی شہید کر دیا، پھر وہ حضرت سید نا خبیب اور حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مکہ مکر مہ لے گئے اورانہیں وہا ں فروخت کر دیا۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر کے بعد پیش آیا۔غزوہ بدر میں حضرت سیدنا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث بن عامر کوقتل کیا تھا،چنانچہ بنو حارث نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خرید لیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے کے لئے ایک دن مقرر کیا تا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر کے حارث بن عامر کے قتل کابدلہ لے سکیں۔پھر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو قید میں ڈال دیا گیا ۔ ایک دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث کی لڑکی سے استرا مانگا تاکہ بال وغیرہ کاٹنے کے لئے اسے تیز کریں۔لڑکی نے استرا دے دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس لڑکی کاایک چھوٹا سا بچہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں بیٹھ گیا،اس لڑکی کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ جب وہ دوبارہ اس طرف آئی اور اس نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں استرا ہے اور بچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے تو وہ بہت خوفزدہ ہوئی کہ کہیں یہ میرے بچے کوقتل نہ کر دے ،جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے خوفزدہ دیکھا تو فرمایا،کیاتو اس بات سے خوفزدہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟اس نے کہا:’’ہاں۔‘‘آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’خدا عزو جل کی قسم! میں ہرگز ایسانہیں کر وں گا،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچے کواس کی طرف بھیج دیا۔‘‘ وہ لڑکی کہا کرتی تھی:’’ خدا عز وجل کی قسم! میں نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔‘‘میں نے ایک دن دیکھا:’’ حضرت سید نا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں انگور کاایک خوشہ تھااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں سے تناول فرمارہے تھے حالانکہ ان دنوں مکۂ مکرمہ میں کہیں بھی انگور نہ تھے، یہ رزق اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا،اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کوایسی ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جہاں کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔جب حضرت سید نا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوشہید کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہر لایاگیا تو اس مرد مجاہد کو کفار مکہ نے چاروں طرف سے گھیر لیااور تماشائی بن کر ایک سچے عاشق رسول اور ربُّ العٰلَمِین کی وحدانیت کا علی الاعلان اظہار کرنے والے مردِ مومن کے گرد جمع ہوگئے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالکل نہ گھبرائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پایۂ استقلال میں ذر ہ برابر بھی کمی نہ آئی بلکہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں جلتی ہوئی ایمان کی شمع مزید روشن ہوگئی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کفارِ بد اطوار سے فرمایا: ’’مجھے دورکعت اداکر لینے دو تاکہ میں اپنے اس ر بِّ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں آخری بار سجدہ ریز وسکوں جس کے نام پر مجھے شہادت مل رہی ہے ،انہوں نے اجازت دے دی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیڑیاں کھول دیں ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبلہ رو ہو کر نماز شروع فرمادی۔
_________(❤️)_________
کتبہ:- محمد مفید عالم قادری صمدی