نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار کون ہے.امام محلہ یا ولی میت ؟
:---------------------------:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ باپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بیٹا عالم دین یا پھر اگر اتنا علم رکھتا ہے کے باپ کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے تو شریعت کے اعتبار سے نماز جنازہ پڑھا نے کا حقدار اس محلے کے امام کا ہے یا انتقال کر گئے اس شخص کے بیٹے کا ہے جواب عنایت کریں مہربانی ہوگی
سائل:- حضرت علی رضوی ، ہاویری کرناٹک؛
_________(❤️)__________
وعلیکم السلام و رحمة اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
نمازجنازہ ولی میت کا حق ہے ، البتہ کچھ مقامات پر دوسروں کو حق تقدم حاصل ہوتاہے ، جیسے سلطان اسلام یا اس کا نائب وغیرہ ہو تو ولی میت پر انہیں وجوبا حق تقدیم حاصل ہوتاہے کہ انہیں بے اجازت ولی مطلقا پڑھانے کا حق ہے ، اور امام جامع مسجد یا امام محلہ جبکہ ولی سےزیادہ فضل دینی رکھتاہو اور مرنے والا اپنی زندگی ان کے پیچھے نماز بھی پڑھتا تھا تو ایسی صورت میں انہیں ولی استحبابا حق تقدم حاصل ہے ،
امام فخرالدین زیلعی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” نص علیہ ابوحنیفۃ بقولہ الخلیفة اولی ان حضر فان لم یحضر فامام المصر وھو سلطانھا لانہ فی معنی الخلیفة وبعدہ القاضی وبعدہ صاحب الشرطة وبعدہ خلیفةالوالی وبعدہ خلیفةالقاضی وبعد ھؤلاء امام الحی فان لم یحضروا فالاقرب من ذوی قرابتہ “
{تبیین الحقائق ج١ ص٢٣٨ ، مکتبة امدادیة ملتان}
علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” ان تقدیم الولاة واجب “
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” لان فی التقدیم علیہم ازدراء بھم وتعظیم اولی الامر واجب ۔ وصرح فی الولواجیة والایضاح وغیرھما بوجوب تقدیم السلطان “
{ردالمحتار ج٣ص١٢٠ ، دارعالم الکتب ریاض}
اور امام محلہ کے استحباب تقدیم کی وجہ یہ ہےکہ میت اپنی حیات میں اس سےراضی تھاکہ اس کےپیچھے نماز پڑھتاتھا
امام ظہیرالدین ولوالجی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” لانہ مختار فی حال حیاتہ فکذا بعد وفاتہ “
{فتاویٰ ولوالجیہ ج١ص١٥٧ ، دارالکتب العلمیۃ}
یہ استحباب بھی اس وقت ہےجبکہ امام محلہ علم وفضل میں ولی سے زائدہو
امام ابن ساعاتی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” وانما یستحب تقدیم امام مسجد حیة علی الولی اذا کان افضل منہ “
{شرح مجمع البحرین ج٢ص٤٣٣ ، دارالفلاح}
(وھکذا فی المجلدالتاسع من الفتاوی الرضویۃ ص١٧٥ ، رضا فاؤنڈیشن)
صورت مسئولہ میں جبکہ میت کا بیٹا خود عالم دین ہے تو یقینا وہی پڑھانے کا مستحق ہے ، اور اگر عالم دین نہیں بس اتنا علم رکھتاہے کہ نماز جنازہ پڑھا سکے تو عالم دین امام محلہ مستحق ہے ، پھر بھی اگراس استحقاق تقدم امام محلہ کےباوجود میت کا بیٹا ہی پڑھائے تو بھی بلاکراہت ہوجائےگی
واللہ تعالی اعلم بالصواب
ا________(💚)__________
کتبــــہ؛
محمد شکیل اختر قادری برکاتی. شیخ الحدیث بمدرسةالبنات مسلک اعلی حضرت صدر صوفہ ھبلی کرناٹک؛ مورخہ؛4/4/2021)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ باپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بیٹا عالم دین یا پھر اگر اتنا علم رکھتا ہے کے باپ کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے تو شریعت کے اعتبار سے نماز جنازہ پڑھا نے کا حقدار اس محلے کے امام کا ہے یا انتقال کر گئے اس شخص کے بیٹے کا ہے جواب عنایت کریں مہربانی ہوگی
سائل:- حضرت علی رضوی ، ہاویری کرناٹک؛
_________(❤️)__________
وعلیکم السلام و رحمة اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
نمازجنازہ ولی میت کا حق ہے ، البتہ کچھ مقامات پر دوسروں کو حق تقدم حاصل ہوتاہے ، جیسے سلطان اسلام یا اس کا نائب وغیرہ ہو تو ولی میت پر انہیں وجوبا حق تقدیم حاصل ہوتاہے کہ انہیں بے اجازت ولی مطلقا پڑھانے کا حق ہے ، اور امام جامع مسجد یا امام محلہ جبکہ ولی سےزیادہ فضل دینی رکھتاہو اور مرنے والا اپنی زندگی ان کے پیچھے نماز بھی پڑھتا تھا تو ایسی صورت میں انہیں ولی استحبابا حق تقدم حاصل ہے ،
امام فخرالدین زیلعی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” نص علیہ ابوحنیفۃ بقولہ الخلیفة اولی ان حضر فان لم یحضر فامام المصر وھو سلطانھا لانہ فی معنی الخلیفة وبعدہ القاضی وبعدہ صاحب الشرطة وبعدہ خلیفةالوالی وبعدہ خلیفةالقاضی وبعد ھؤلاء امام الحی فان لم یحضروا فالاقرب من ذوی قرابتہ “
{تبیین الحقائق ج١ ص٢٣٨ ، مکتبة امدادیة ملتان}
علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” ان تقدیم الولاة واجب “
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” لان فی التقدیم علیہم ازدراء بھم وتعظیم اولی الامر واجب ۔ وصرح فی الولواجیة والایضاح وغیرھما بوجوب تقدیم السلطان “
{ردالمحتار ج٣ص١٢٠ ، دارعالم الکتب ریاض}
اور امام محلہ کے استحباب تقدیم کی وجہ یہ ہےکہ میت اپنی حیات میں اس سےراضی تھاکہ اس کےپیچھے نماز پڑھتاتھا
امام ظہیرالدین ولوالجی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” لانہ مختار فی حال حیاتہ فکذا بعد وفاتہ “
{فتاویٰ ولوالجیہ ج١ص١٥٧ ، دارالکتب العلمیۃ}
یہ استحباب بھی اس وقت ہےجبکہ امام محلہ علم وفضل میں ولی سے زائدہو
امام ابن ساعاتی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” وانما یستحب تقدیم امام مسجد حیة علی الولی اذا کان افضل منہ “
{شرح مجمع البحرین ج٢ص٤٣٣ ، دارالفلاح}
(وھکذا فی المجلدالتاسع من الفتاوی الرضویۃ ص١٧٥ ، رضا فاؤنڈیشن)
صورت مسئولہ میں جبکہ میت کا بیٹا خود عالم دین ہے تو یقینا وہی پڑھانے کا مستحق ہے ، اور اگر عالم دین نہیں بس اتنا علم رکھتاہے کہ نماز جنازہ پڑھا سکے تو عالم دین امام محلہ مستحق ہے ، پھر بھی اگراس استحقاق تقدم امام محلہ کےباوجود میت کا بیٹا ہی پڑھائے تو بھی بلاکراہت ہوجائےگی
واللہ تعالی اعلم بالصواب
ا________(💚)__________
کتبــــہ؛
محمد شکیل اختر قادری برکاتی. شیخ الحدیث بمدرسةالبنات مسلک اعلی حضرت صدر صوفہ ھبلی کرناٹک؛ مورخہ؛4/4/2021)