(سوال نمبر 242)
سنی لڑکے کا وہابی لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک لڑکا جو سنی ہے،اور وہابی ہے لڑکی، لڑکا کتا ہے کہ ہم کو شادی اگر اس لڑکی سے نہ ہوگی گی، تو میں شادی کبھی نھیں کرسکتا کسی دوسری لڑکی سے ،اور جان جانے کا بھی ڈر ہے، تو کیا اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے؟
قرآن وحدیث کے روشنی میں جواب عنایت فرمائے۔
سائل:-محمدسرتاج عالم گلاب پور سسوا کٹیا نیپال
_________(💛)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو یہ زید کی پاگل پنتی ہے کہ اس وہابی لڑکی کے سوا سے ہم شادی نہیں کریں گے یا اپنی جان دے دیں گے، یہ سب بکواس ہے۔
ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے اور ایمان، اﷲ و رسول عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر بات پر کامل تیقن اور محبت و تعظیم کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اُسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور ایمان نہیں تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم و مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا ، اس لئے اس وہابی لڑکی کا عقیدہ،کیا ہے؟
پہلے یہ دیکھا جائے
کیونکہ سارے دیوبندی وہابی کافر و مرتد نہیں ہے، جب تک بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے کہ وہ ضروریات دینیہ کا منکر ہے۔ یا نہیں؟
جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔ (فتاویٰ شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
پہلے یہ دیکھا جائے کہ دیوبندی لڑکی کا عقیدہ کیا ہے؟
آیا وہ ضروریات دین کا انکاری ہے یا نہیں ۔اور وہ یہ ہے ۔ توحید، رسالت، آخرت،
جملہ انبیاء و رسل و ملائک، حشر و نشر، جنت و جہنم، ختمِ نبوت، نماز، روزہ حج، زکوٰۃ یا کسی شخصیت میں صفاتِ الوہیت کا قائل ہو، قرآنِ کریم تحريف شدہ مانتا ہو، کسی صحابی کی صحبتِ رسول یا عدالتِ صحابہ کا منکر ہو، امہات المؤمنین میں سے کسی پر تبرا کرے، یا نذر و نیاز‘ مزارات پر حاضری‘ انبیاء و الیاء کا توسل‘ ندائے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ انعقادِ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفر و شرک کہتا ہو تو ایسے مرد یا عورت کے ساتھ کسی مسلمان مرد و عورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو نکاح جائز ہے ۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے دیابنہ و وہابیہ کو پہچاننے کا آسان فارمولہ عطا فرمایا ہے کہ اسے حسام الحرمین کی عبارت دیکھا یا جائے یا پڑھ کر سنا یا جا ئے اگر قبول کر لے فبہا اور اگر قبول نہ کریں پس یہ عقدہ عیاں ہے کہ اصلی ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے ،
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاویٰ رضویہ ج 29 ص 33)
اور احوط یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے ۔۔
برائے زیادتی علم ذیل کی تحریر مطالعہ کریں ۔
موجودہ دور میں وہابی دو طرح کے ہیں
(1) وہابی مقلد (2) اور وہابی غير مقلد اگرچہ تینوں یعنی دیوبندی و وہابی مقلد و غیر مقلد ایک ہی کھیت کی مولی ہے،
(1) وہابی مقلد
یہ ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ ھ میں پیدا ہوا، اِس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی(محمد بن عبد الوھاب بن سلیمان التمیمي النجدي الوہابي الذي تنسب إلیہ الطائفۃ الوھابیۃ،ولد ١١١٥ وتوفي(۱۲۰۶)ہدیۃ العارفین ، ج ۲ص ٢٥٠و الأعلام للزرکلي،ج ۶ص ۲۵۷ و معجم المؤلفین ج ۳ ص ۴۷۲)
تھا، جس نے تمام عرب، خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدید فتنے پھیلائے، علما کو قتل کیا
(في ردالمحتارکتا ب الجھاد، باب البغاۃ، مطلب في أتباع محمد بن عبد الوھاب الخوارج في زماننا، ج ۶ ، ص ۴۰۰( وقع في زماننا في أتباع محمد بن عبد الوھاب الذ ین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانواینتحلون مذ ھب الحنابلۃ، لکنّھم اعتقدوا أنّھم ھم المسلمون وأنّ من خالف اعتقادھم مشرکون، واستباحوا بذ لک قتل أھل السنّۃ وقتل علمائھم)
صحابۂ کرام و ائمہ و علما و شہدا کی قبریں کھود ڈالیں ، روضۂ انور کا نام معاذاﷲ صنمِ اکبررکھا تھا.
قال محمد بن عبدالوھاب نجدی فالقبر المعظّم المقدّس وَثَنٌ وصنمٌ بکل معاني الوثنیّۃ لوکان الناس یعقلون
حاشیہ شرح الصدور بتحریم رفع القبور لمحمد بن عبد الوھاب،ص ۲۵مطبوعہ سعودیہ)
یعنی بڑا بت، اور طرح طرح کے ظلم کیے جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا،
(عن ابن عمر قال ذکر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم
اللّٰھم بارک لنا في شأمنا، اللّٰھم با رک لنا في یمننا، قالوا یا رسول اللّٰہ! وفي نجد نا ؟ قال اللّٰھم بارک لنا في شأمنا، اللّٰھم با رک لنا في یمننا، قالوا یا رسول اللّٰہ! وفي نجدنا ؟ فأظنہ قال في الثالثۃ ھناک الزلازل والفتن، وبھا یطلع قرن الشیطان
صحیح البخاري کتا ب الفتن، الحدیث :۷۰۹۴ ج ۴ ص۴۴۰۔۴۴۱۔)
وہ گروہ بارہ سو برس بعدیہ ظاہر ہوا۔ علامہ شامی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اِسے خارجی بتایا۔
(في ردالمحتار کتاب الجھاد، ج ۶ ، ص ۴۰۰
(ویکفّرون أصحاب نبیّنا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) علمت أنّ ھذا غیر شرط في مسمّی الخوارج، بل ھو بیان لمن خرجوا علی سیدنا علي رضي اللّٰہ عنہ، وإلاّ فیکفي فیھم اعتقادھم کفر من خرجوا علیہ کما وقع في زماننا فيأتباع عبد الوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذ ہب الحنابلۃ ) اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ
(پ ۲۲ ، فاطر ۶ في تفسیر الصاوي ج ۵ ص ۱۶۸۸وقیل
ہذہ الآیۃ نزلت في الخوارج الذین یحرفون تأویل الکتاب والسنۃ ویستحلون بذلک دماء المسلمین وأموالہم لما ھو مشاہد الآن في نظائرہم یحسبون أنّہم علی شيء ألا إنّہم ہم الکاذبون استحوذ علیہم الشیطن فأنساہم ذکر اللّٰہ أولئک حزب الشیطن ہم الخاسرون، نسأل اللّٰہ الکریم أن یقطع دابرہم ۔في شرح النسائی للسیوطی، ج ۱ ص ۳۶۰قولہ. کما یمرق السہم إلخ یرید أنّ دخولہم أي الخوارج في الإسلام ثم خروجھم منہ لم یتمسکوا منہ بشیء کالسہم دخل في الرمیۃ ثم نفذ وخرج منہا ولم یعلق بہ منہا شیء کذا في المجمع ثم لیعلم إنّ الذین یدینون دین ابن عبد الوھاب النجدي یسلکون مسالکہ في الأصول والفروع ویدعون في بلادنا باسم الوھابین وغیر المقلدین ویزعمون أنّ تقلید أحد الأئمۃ الأربعۃ رضوان اللّٰہ علیہم أجمعین شرک وإنّ من خالفہم ہم المشرکون و یستبیحون قتلنا أہل السنۃ وسبي نسائنا وغیر ذلک من العقائد الشنیعۃ التي وصلت إلینا منہم بواسطۃ الثقات وسمعناہا بعضاً منہم أیضاً ہم فرقۃ من الخوارج وقد صرح بہ العلامۃ الشامي في کتابہ ردّ المحتار )
اِس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام
کتاب التوحید (کتاب التوحید لمحمد بن عبد الوہاب بن سلیمان النجدي المتوفی
۱۲۰۶( الأعلام للزرکلي، ج ۶ ص ۲۵۷و معجم المؤلفین ج ۳ ص ۴۷۲۔۴۷۳)
رکھا ، اُس کا ترجمہ ہندوستان میں اسماعیل دہلوی
(اسماعیل بن عبد الغني ابن ولي اللّٰہ بن عبد الرحیم العمري الدھلوي، ولد لاثنتي عشرۃ من ربیع الثانی سنۃ ثلاث وتسعین ومائۃ وألف، وقتل في بالاکوٹ باکستان سنۃ ست وأربعین ومأتین وألف من مصنفاتہ تقویۃ الایمان وغیرہا انظر، نزہۃ الخواطر ج ۷ ، ص ۶۶)
نے کیا، جس کا نام’’تقویۃ الایمان‘‘ رکھا اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی۔اِن وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو اِن کے مذہب پر نہ ہو، وہ کافر مشرک ہے۔
(في الدرر السنیۃ في الأجوبۃ النجدیۃ لعبد الرحمن بن محمد بن قاسم المتوفی
۱۳۹۲ھ ج ۱ ص ۶۷( واعلم أنّ المشرکین في زماننا قد زادوا علی الکفار في زمن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأنّہم یدعون الملائکۃ، والأولیاء، والصالحین ویریدون شفاعتہم والتقرب إلیہم إلخ )وفي ص ۶۹( وعرفت أنّ إقرارہم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلہم في الإسلام، وأن قصدہم الملائکۃ والأنبیاء والأولیاء یریدون شفاعتہم والتقرب إلی اللّٰہ تعالی بہم ہو الذي أحل دمائہم وأموالہم
إلخ )۔ وفي رد المحتار کتاب الجھاد، ج ۶ص۴۰۰:(کنّھم اعتقدوا أنّھم ھم المسلمون وأنّ من خالف اعتقادھم مشرکون )۔
یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمانوں پر حکمِ شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دنیا کو مشرک بتاتے ہیں چنانچہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر کہ آخر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی۔
(ثم یبعث اللّٰہ ریحا طیبۃ، فتوفّی کل من في قلبہ مثقال حبۃ من خردل من إیمان فیبقی من لا خیر فیہ، فیرجعون إلی دین آبائہم
(صحیح مسلم کتاب الفتن ، باب لا تقوم الساعۃ حتی تعبد دوس ذا الخلیصۃ، الحدیث : ۷۲۹۹ ، ص ۱۱۸۲۔)
اس کے بعد صاف لکھ دیا: سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا،
(تقویۃ الإیمان باب أول، فصل۴شرک فی العبادات کی برائی کا بیان، ص ۴۵)
یعنی وہ ہوا چل گئی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہوگیا۔
اِس مذہب کا رکنِ اعظم، اﷲ (عزوجل) کی توہین اور محبوبانِ خدا کی تذلیل ہے، ہر امر میں وہی پہلو اختیار کریں گے جس سے منقصت نکلتی ہو.
(بہار شریعت ح ١ص ٢١٦دعوت اسلامي )
(2) وہابی غیر مقلد
یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے، وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے اﷲ
عزوجل اور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بکی ہیں ،غیر مقلدین سے ثابت نہیں ،باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں، اور اِن حال کے اشد
دیوبندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر اُن قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور اُن کی نسبت حکم ہے کہ جو اُن کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ ایک نمبر اِن کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا، تمام مسلمانوں سے الگ انھوں نے ایک راہ نکالی، کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمۂ دین کو سبّ و شتم سے یاد کرتے ہیں، مگر حقیقۃً تقلید سے خالی نہیں،ائمۂ دین کی تقلید تو نہیں کرتے، مگر شیطانِ لعین کے ضرور مقلّد ہیں،یہ لوگ قیاس کے منکِر ہیں اور قیاس کا مطلقاً اِنکار کفر،
تقلید کے منکر ہیں اور تقلید کا مطلقاً انکار کفر۔
مطلق تقلید فرض ہے، اور تقلیدِ شخصی واجب۔
(بحوالہ بہار شریعت ح ١ص ٢٣٧ دعوت اسلامی)
فی الفتاوی الہندیۃ،الباب التاسع، أحکام المرتدین، ج ۲، ص ۲۷۱،( رجل قال ،قیاس أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی حق نیست یکفرکذا في التتارخانیۃ،
الفتاوی الرضویۃ، کتاب السیر، ج ۱۴،ص ۲۹۲۔
الفتاوی الرضویۃ،کتاب السیر، ج ۱۴،ص،۰۔ الفتاوی الرضویۃ
ج ۱۱،ص۴۰۴،ج ۲۹ ص۳۹۲۔الفتاوی الرضویۃ ،
ج ۶،ص۷۰۳ ،۷۰۴)
والله ورسوله أعلم بالصواب
سنی لڑکے کا وہابی لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک لڑکا جو سنی ہے،اور وہابی ہے لڑکی، لڑکا کتا ہے کہ ہم کو شادی اگر اس لڑکی سے نہ ہوگی گی، تو میں شادی کبھی نھیں کرسکتا کسی دوسری لڑکی سے ،اور جان جانے کا بھی ڈر ہے، تو کیا اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے؟
قرآن وحدیث کے روشنی میں جواب عنایت فرمائے۔
سائل:-محمدسرتاج عالم گلاب پور سسوا کٹیا نیپال
_________(💛)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو یہ زید کی پاگل پنتی ہے کہ اس وہابی لڑکی کے سوا سے ہم شادی نہیں کریں گے یا اپنی جان دے دیں گے، یہ سب بکواس ہے۔
ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے اور ایمان، اﷲ و رسول عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر بات پر کامل تیقن اور محبت و تعظیم کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اُسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور ایمان نہیں تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم و مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا ، اس لئے اس وہابی لڑکی کا عقیدہ،کیا ہے؟
پہلے یہ دیکھا جائے
کیونکہ سارے دیوبندی وہابی کافر و مرتد نہیں ہے، جب تک بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے کہ وہ ضروریات دینیہ کا منکر ہے۔ یا نہیں؟
جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔ (فتاویٰ شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
پہلے یہ دیکھا جائے کہ دیوبندی لڑکی کا عقیدہ کیا ہے؟
آیا وہ ضروریات دین کا انکاری ہے یا نہیں ۔اور وہ یہ ہے ۔ توحید، رسالت، آخرت،
جملہ انبیاء و رسل و ملائک، حشر و نشر، جنت و جہنم، ختمِ نبوت، نماز، روزہ حج، زکوٰۃ یا کسی شخصیت میں صفاتِ الوہیت کا قائل ہو، قرآنِ کریم تحريف شدہ مانتا ہو، کسی صحابی کی صحبتِ رسول یا عدالتِ صحابہ کا منکر ہو، امہات المؤمنین میں سے کسی پر تبرا کرے، یا نذر و نیاز‘ مزارات پر حاضری‘ انبیاء و الیاء کا توسل‘ ندائے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ انعقادِ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفر و شرک کہتا ہو تو ایسے مرد یا عورت کے ساتھ کسی مسلمان مرد و عورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو نکاح جائز ہے ۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے دیابنہ و وہابیہ کو پہچاننے کا آسان فارمولہ عطا فرمایا ہے کہ اسے حسام الحرمین کی عبارت دیکھا یا جائے یا پڑھ کر سنا یا جا ئے اگر قبول کر لے فبہا اور اگر قبول نہ کریں پس یہ عقدہ عیاں ہے کہ اصلی ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے ،
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاویٰ رضویہ ج 29 ص 33)
اور احوط یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے ۔۔
برائے زیادتی علم ذیل کی تحریر مطالعہ کریں ۔
موجودہ دور میں وہابی دو طرح کے ہیں
(1) وہابی مقلد (2) اور وہابی غير مقلد اگرچہ تینوں یعنی دیوبندی و وہابی مقلد و غیر مقلد ایک ہی کھیت کی مولی ہے،
(1) وہابی مقلد
یہ ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ ھ میں پیدا ہوا، اِس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی(محمد بن عبد الوھاب بن سلیمان التمیمي النجدي الوہابي الذي تنسب إلیہ الطائفۃ الوھابیۃ،ولد ١١١٥ وتوفي(۱۲۰۶)ہدیۃ العارفین ، ج ۲ص ٢٥٠و الأعلام للزرکلي،ج ۶ص ۲۵۷ و معجم المؤلفین ج ۳ ص ۴۷۲)
تھا، جس نے تمام عرب، خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدید فتنے پھیلائے، علما کو قتل کیا
(في ردالمحتارکتا ب الجھاد، باب البغاۃ، مطلب في أتباع محمد بن عبد الوھاب الخوارج في زماننا، ج ۶ ، ص ۴۰۰( وقع في زماننا في أتباع محمد بن عبد الوھاب الذ ین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانواینتحلون مذ ھب الحنابلۃ، لکنّھم اعتقدوا أنّھم ھم المسلمون وأنّ من خالف اعتقادھم مشرکون، واستباحوا بذ لک قتل أھل السنّۃ وقتل علمائھم)
صحابۂ کرام و ائمہ و علما و شہدا کی قبریں کھود ڈالیں ، روضۂ انور کا نام معاذاﷲ صنمِ اکبررکھا تھا.
قال محمد بن عبدالوھاب نجدی فالقبر المعظّم المقدّس وَثَنٌ وصنمٌ بکل معاني الوثنیّۃ لوکان الناس یعقلون
حاشیہ شرح الصدور بتحریم رفع القبور لمحمد بن عبد الوھاب،ص ۲۵مطبوعہ سعودیہ)
یعنی بڑا بت، اور طرح طرح کے ظلم کیے جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا،
(عن ابن عمر قال ذکر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم
اللّٰھم بارک لنا في شأمنا، اللّٰھم با رک لنا في یمننا، قالوا یا رسول اللّٰہ! وفي نجد نا ؟ قال اللّٰھم بارک لنا في شأمنا، اللّٰھم با رک لنا في یمننا، قالوا یا رسول اللّٰہ! وفي نجدنا ؟ فأظنہ قال في الثالثۃ ھناک الزلازل والفتن، وبھا یطلع قرن الشیطان
صحیح البخاري کتا ب الفتن، الحدیث :۷۰۹۴ ج ۴ ص۴۴۰۔۴۴۱۔)
وہ گروہ بارہ سو برس بعدیہ ظاہر ہوا۔ علامہ شامی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اِسے خارجی بتایا۔
(في ردالمحتار کتاب الجھاد، ج ۶ ، ص ۴۰۰
(ویکفّرون أصحاب نبیّنا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) علمت أنّ ھذا غیر شرط في مسمّی الخوارج، بل ھو بیان لمن خرجوا علی سیدنا علي رضي اللّٰہ عنہ، وإلاّ فیکفي فیھم اعتقادھم کفر من خرجوا علیہ کما وقع في زماننا فيأتباع عبد الوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذ ہب الحنابلۃ ) اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ
(پ ۲۲ ، فاطر ۶ في تفسیر الصاوي ج ۵ ص ۱۶۸۸وقیل
ہذہ الآیۃ نزلت في الخوارج الذین یحرفون تأویل الکتاب والسنۃ ویستحلون بذلک دماء المسلمین وأموالہم لما ھو مشاہد الآن في نظائرہم یحسبون أنّہم علی شيء ألا إنّہم ہم الکاذبون استحوذ علیہم الشیطن فأنساہم ذکر اللّٰہ أولئک حزب الشیطن ہم الخاسرون، نسأل اللّٰہ الکریم أن یقطع دابرہم ۔في شرح النسائی للسیوطی، ج ۱ ص ۳۶۰قولہ. کما یمرق السہم إلخ یرید أنّ دخولہم أي الخوارج في الإسلام ثم خروجھم منہ لم یتمسکوا منہ بشیء کالسہم دخل في الرمیۃ ثم نفذ وخرج منہا ولم یعلق بہ منہا شیء کذا في المجمع ثم لیعلم إنّ الذین یدینون دین ابن عبد الوھاب النجدي یسلکون مسالکہ في الأصول والفروع ویدعون في بلادنا باسم الوھابین وغیر المقلدین ویزعمون أنّ تقلید أحد الأئمۃ الأربعۃ رضوان اللّٰہ علیہم أجمعین شرک وإنّ من خالفہم ہم المشرکون و یستبیحون قتلنا أہل السنۃ وسبي نسائنا وغیر ذلک من العقائد الشنیعۃ التي وصلت إلینا منہم بواسطۃ الثقات وسمعناہا بعضاً منہم أیضاً ہم فرقۃ من الخوارج وقد صرح بہ العلامۃ الشامي في کتابہ ردّ المحتار )
اِس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام
کتاب التوحید (کتاب التوحید لمحمد بن عبد الوہاب بن سلیمان النجدي المتوفی
۱۲۰۶( الأعلام للزرکلي، ج ۶ ص ۲۵۷و معجم المؤلفین ج ۳ ص ۴۷۲۔۴۷۳)
رکھا ، اُس کا ترجمہ ہندوستان میں اسماعیل دہلوی
(اسماعیل بن عبد الغني ابن ولي اللّٰہ بن عبد الرحیم العمري الدھلوي، ولد لاثنتي عشرۃ من ربیع الثانی سنۃ ثلاث وتسعین ومائۃ وألف، وقتل في بالاکوٹ باکستان سنۃ ست وأربعین ومأتین وألف من مصنفاتہ تقویۃ الایمان وغیرہا انظر، نزہۃ الخواطر ج ۷ ، ص ۶۶)
نے کیا، جس کا نام’’تقویۃ الایمان‘‘ رکھا اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی۔اِن وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو اِن کے مذہب پر نہ ہو، وہ کافر مشرک ہے۔
(في الدرر السنیۃ في الأجوبۃ النجدیۃ لعبد الرحمن بن محمد بن قاسم المتوفی
۱۳۹۲ھ ج ۱ ص ۶۷( واعلم أنّ المشرکین في زماننا قد زادوا علی الکفار في زمن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأنّہم یدعون الملائکۃ، والأولیاء، والصالحین ویریدون شفاعتہم والتقرب إلیہم إلخ )وفي ص ۶۹( وعرفت أنّ إقرارہم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلہم في الإسلام، وأن قصدہم الملائکۃ والأنبیاء والأولیاء یریدون شفاعتہم والتقرب إلی اللّٰہ تعالی بہم ہو الذي أحل دمائہم وأموالہم
إلخ )۔ وفي رد المحتار کتاب الجھاد، ج ۶ص۴۰۰:(کنّھم اعتقدوا أنّھم ھم المسلمون وأنّ من خالف اعتقادھم مشرکون )۔
یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمانوں پر حکمِ شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دنیا کو مشرک بتاتے ہیں چنانچہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر کہ آخر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی۔
(ثم یبعث اللّٰہ ریحا طیبۃ، فتوفّی کل من في قلبہ مثقال حبۃ من خردل من إیمان فیبقی من لا خیر فیہ، فیرجعون إلی دین آبائہم
(صحیح مسلم کتاب الفتن ، باب لا تقوم الساعۃ حتی تعبد دوس ذا الخلیصۃ، الحدیث : ۷۲۹۹ ، ص ۱۱۸۲۔)
اس کے بعد صاف لکھ دیا: سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا،
(تقویۃ الإیمان باب أول، فصل۴شرک فی العبادات کی برائی کا بیان، ص ۴۵)
یعنی وہ ہوا چل گئی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہوگیا۔
اِس مذہب کا رکنِ اعظم، اﷲ (عزوجل) کی توہین اور محبوبانِ خدا کی تذلیل ہے، ہر امر میں وہی پہلو اختیار کریں گے جس سے منقصت نکلتی ہو.
(بہار شریعت ح ١ص ٢١٦دعوت اسلامي )
(2) وہابی غیر مقلد
یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے، وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے اﷲ
عزوجل اور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بکی ہیں ،غیر مقلدین سے ثابت نہیں ،باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں، اور اِن حال کے اشد
دیوبندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر اُن قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور اُن کی نسبت حکم ہے کہ جو اُن کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ ایک نمبر اِن کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا، تمام مسلمانوں سے الگ انھوں نے ایک راہ نکالی، کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمۂ دین کو سبّ و شتم سے یاد کرتے ہیں، مگر حقیقۃً تقلید سے خالی نہیں،ائمۂ دین کی تقلید تو نہیں کرتے، مگر شیطانِ لعین کے ضرور مقلّد ہیں،یہ لوگ قیاس کے منکِر ہیں اور قیاس کا مطلقاً اِنکار کفر،
تقلید کے منکر ہیں اور تقلید کا مطلقاً انکار کفر۔
مطلق تقلید فرض ہے، اور تقلیدِ شخصی واجب۔
(بحوالہ بہار شریعت ح ١ص ٢٣٧ دعوت اسلامی)
فی الفتاوی الہندیۃ،الباب التاسع، أحکام المرتدین، ج ۲، ص ۲۷۱،( رجل قال ،قیاس أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی حق نیست یکفرکذا في التتارخانیۃ،
الفتاوی الرضویۃ، کتاب السیر، ج ۱۴،ص ۲۹۲۔
الفتاوی الرضویۃ،کتاب السیر، ج ۱۴،ص،۰۔ الفتاوی الرضویۃ
ج ۱۱،ص۴۰۴،ج ۲۹ ص۳۹۲۔الفتاوی الرضویۃ ،
ج ۶،ص۷۰۳ ،۷۰۴)
والله ورسوله أعلم بالصواب
_________(💚)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال۔١٠/١٢/٢٠٢٠
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال۔١٠/١٢/٢٠٢٠