(سوال نمبر 7093)
دوران سنت اگر جماعت قائم ہوجائے تو کیا کرے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب اپکی بارگاہ میں میرا یہ سوال ہے کہ اگر فرض نماز کی اقامت (تکبیر) ہوجائے تو سنت نماز پڑھ رہے ہو تو کیا. حکم شریعت ہوگا؟
سائل:- حافظ نسیم رضا کچاکھوہ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اگر عشاء عصر کی سنتیں یا نوافل پڑھ رہیں ہوں اور جماعت قائم ہوجائے تو عصر یا عشاء کی سنتِ غیرمؤکدہ کی دو رکعتیں پوری کرکے جماعت میں شامل ہوجائے گا جبکہ تیسری رکعت کے لئے کھڑا نہ ہوا ہو کیونکہ سنتِ غیر مؤکدہ نفل کے حکم میں ہیں اور نفل میں ہر دو رکعتیں جداگانہ شمار کی جاتی ہیں۔ اگر تیسری کے لئے کھڑا ہوگیا تو پھر چار رکعتیں پوری کرلے۔
تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے
لوكان فی النفل لايقطع مطلقاوإنمايتمه ركعتين۔
اگرنفل نمازپڑھتاہو،توان کومطلقاًنہیں توڑسکتا اوراس کی دورکعتیں پوری کرے گا۔(تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق ج 2،ص 76،دارالكتاب الإسلامی ،بیروت)
فتاویٰ رضویہ میں
ایک سوال ہوا علماء شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے چار رکعت نماز سنت یا نفل کی نیت کرکے شروع کی،ابھی دوسری رکعت کی طرف اٹھا تھا کہ نماز فرض کی جماعت کے لیے تکبیر ہوگئی، نفل و سنت ادا کرنے والا چار رکعت پوری کرے یا دو پر اکتفاء کرلے باقی دو رکعات ادا کرے یا نہ؟ بینوا تواجروا‘
اس کے جواب میں ارشادفرمایا مصلی نفل از آغا ز ثنا تا انجام تشھد در ھر چہ کہ باشد چوں ہنوز در شفع اول ست وبہر شفع دوم یعنی رکعت ثالثہ قیام نکر دہ کہ جماعت فرض قائم شد لاجرم بر ہمیں دو رکعات پیشیں اکتفا نماید و بجماعت در آید۔
نفل ادا کرنے والا نمازی ثنا سے تشہد کے آخر تک جو پہلی دو رکعت میں ہے، ابھی تیسری رکعت کی طرف اس نے قیام نہیں کیا تھا کہ جماعت فرض کھڑی ہو گئی، تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ انہیں دو رکعات پر اکتفا کرے اور جماعت میں شریک ہو جائے۔
فی الدرالمختار الشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین
:درمختار میں ہے
نوافل میں شروع ہونے والا انہیں مطلقاً قطع نہیں کرسکتا ،بلکہ دو رکعات پوری کرے۔و دو رکعت کہ باقی ماند قضائے آنہا برزمہ اش نیست زیر اکہ ہر شفع نفل نماز جدا گانہ است تا در شفع دوم آغاز تکرد واجب نشد و چوں واجب نشد قضا نیامد۔
اور جو دو رکعات باقی تھیں ان کی قضا اس کے ذمہ نہیں، کیونکہ نوافل کی ہر دو رکعت الگ نماز ہے، جب تک دوسرے شفع کا آغاز نہیں کیا جاتا ،وہ لازم نہیں ہوگا۔۔۔۔و ہمیں سب حکم سنن غیر راتبہ مانند چار رکعت قبلیہ عصر و عشاء کہ آنہم نافلہ بیش نیست۔
اور غیر مؤکدہ سنن کا حکم بھی یہی ہے، مثلاً :عصر اور عشا کی پہلی سنتیں، ان کا درجہ بھی نوافل کا ہے۔(فتاویٰ رضویہ ج 8،ص 12 ،130،رضافاؤنڈیشن، لاھور)
درمختار باب ادراک الفریضۃ میں ہے
والشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین
نفل نماز میں شروع ہونے والا مطلقا نماز نہیں توڑے گااور دورکعتیں پوری کرے گا۔
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:
من النوافل کل شفع صلاۃ فالقیام الی الثالثۃ کالتحریمۃ المبتداۃ ،واذا کان اول ماتحرم یتم شفعا فکذا ھنا“ترجمہ: نوافل کا ہرشفع مکمل نماز ہے، پس تیسری رکعت میں کھڑا ہوجانا ابتدائی تحریمہ کی طرح ہے، جب پہلی تحریمہ کی صورت میں پورا شفع کرنا ہے، تو تیسری کی صورت میں بھی شفع پورا کرنا ہوگا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الصلوۃ ج 2 ص 611،612 ، دارالفکر،بیروت)
لیکن وہ چار سنن موکدہ جو مثلًا ظہر اور جمعہ سے پہلے ہیں تو ان کا حکم نوافل سے فائق ہوتا ہے اس جگہ علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے-
(فتاویٰ رضویہ ج 8،ص 129- رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے
نفل شروع کيے تھے اور جماعت قائم ہوئی، تو قطع نہ کرے ،بلکہ دو رکعت پوری کر لے، اگرچہ پہلی کا سجدہ بھی نہ کیا ہو اور تیسری پڑھتا ہو تو چار پوری کرلے۔(بھار شریعت، ج 4، ص 696، مکتبۃ المدینہ)
اور ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنت سنتِ مؤکدہ ہے اس لیے اگر ظہر کی سنتوں کی ادائیگی کے دوران فرض نماز شروع ہوجائے تو بہتر یہ ہے کہ چار رکعت سنتیں مکمل کرکے فرض نماز میں شامل ہو،تاہم اگر دورکعت پر سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ اس صورت میں فرض کی ادائیگی کے بعد مذکورہ سنتوں کی ادائیگی کرنا ہوگی کیوں کہ ظہر کی چارسنتیں ایک سلام کے ساتھ مسنون ہیں اگر کسی وجہ سے وہ نماز سے پہلے رہ جائیں تو نماز کے بعد ان کی قضا کی جا سکتی ہے۔لہذا ایسے وقت میں یعنی جب جماعت شروع میں ہونے میں کچھ وقت باقی ہو ان سنتوں کی جو مسنون تعداد ہے، اسی کے مطابق نماز شروع کرلینی چاہیے، پھر اگر درمیان میں اقامت شروع ہوجائے تو مذکورہ بالا تفصیل پر عمل کیا جائے اور اگر نماز کھڑی ہونے والی ہو تو فجر کے علاوہ دیگر سنتیں شروع نہیں کرنا چاہیے۔
الفتاوى الهندية میں ہے
و لو شرع في التطوع ثم أقيمت المكتوبة أتم الشفع الذي فيه و لايزيد عليه، كذا في محيط السرخسي.
ولو كان في السنة قبل الظهر والجمعة فأقيم أو خطب يقطع على رأس الركعتين يروى ذلك عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وقد قيل: يتمها، كذا في الهداية وهو الأصح، كذا في محيط السرخسي وهو الصحيح، هكذا في السراج الوهاج.(الفتاوى الهندية (1/ 120)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(والشارع في نفل لا يقطع مطلقا) ويتمه ركعتين (وكذا سنة الظهر و) سنة (الجمعة إذا أقيمت أو خطب الإمام) يتمها أربعا (على) القول (الراجح) لأنها صلاة واحدة، وليس القطع للإكمال بل للإبطال خلافًا لما رجحه الكمال.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 53)
والله ورسوله اعلم بالصواب
دوران سنت اگر جماعت قائم ہوجائے تو کیا کرے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب اپکی بارگاہ میں میرا یہ سوال ہے کہ اگر فرض نماز کی اقامت (تکبیر) ہوجائے تو سنت نماز پڑھ رہے ہو تو کیا. حکم شریعت ہوگا؟
سائل:- حافظ نسیم رضا کچاکھوہ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اگر عشاء عصر کی سنتیں یا نوافل پڑھ رہیں ہوں اور جماعت قائم ہوجائے تو عصر یا عشاء کی سنتِ غیرمؤکدہ کی دو رکعتیں پوری کرکے جماعت میں شامل ہوجائے گا جبکہ تیسری رکعت کے لئے کھڑا نہ ہوا ہو کیونکہ سنتِ غیر مؤکدہ نفل کے حکم میں ہیں اور نفل میں ہر دو رکعتیں جداگانہ شمار کی جاتی ہیں۔ اگر تیسری کے لئے کھڑا ہوگیا تو پھر چار رکعتیں پوری کرلے۔
تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے
لوكان فی النفل لايقطع مطلقاوإنمايتمه ركعتين۔
اگرنفل نمازپڑھتاہو،توان کومطلقاًنہیں توڑسکتا اوراس کی دورکعتیں پوری کرے گا۔(تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق ج 2،ص 76،دارالكتاب الإسلامی ،بیروت)
فتاویٰ رضویہ میں
ایک سوال ہوا علماء شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے چار رکعت نماز سنت یا نفل کی نیت کرکے شروع کی،ابھی دوسری رکعت کی طرف اٹھا تھا کہ نماز فرض کی جماعت کے لیے تکبیر ہوگئی، نفل و سنت ادا کرنے والا چار رکعت پوری کرے یا دو پر اکتفاء کرلے باقی دو رکعات ادا کرے یا نہ؟ بینوا تواجروا‘
اس کے جواب میں ارشادفرمایا مصلی نفل از آغا ز ثنا تا انجام تشھد در ھر چہ کہ باشد چوں ہنوز در شفع اول ست وبہر شفع دوم یعنی رکعت ثالثہ قیام نکر دہ کہ جماعت فرض قائم شد لاجرم بر ہمیں دو رکعات پیشیں اکتفا نماید و بجماعت در آید۔
نفل ادا کرنے والا نمازی ثنا سے تشہد کے آخر تک جو پہلی دو رکعت میں ہے، ابھی تیسری رکعت کی طرف اس نے قیام نہیں کیا تھا کہ جماعت فرض کھڑی ہو گئی، تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ انہیں دو رکعات پر اکتفا کرے اور جماعت میں شریک ہو جائے۔
فی الدرالمختار الشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین
:درمختار میں ہے
نوافل میں شروع ہونے والا انہیں مطلقاً قطع نہیں کرسکتا ،بلکہ دو رکعات پوری کرے۔و دو رکعت کہ باقی ماند قضائے آنہا برزمہ اش نیست زیر اکہ ہر شفع نفل نماز جدا گانہ است تا در شفع دوم آغاز تکرد واجب نشد و چوں واجب نشد قضا نیامد۔
اور جو دو رکعات باقی تھیں ان کی قضا اس کے ذمہ نہیں، کیونکہ نوافل کی ہر دو رکعت الگ نماز ہے، جب تک دوسرے شفع کا آغاز نہیں کیا جاتا ،وہ لازم نہیں ہوگا۔۔۔۔و ہمیں سب حکم سنن غیر راتبہ مانند چار رکعت قبلیہ عصر و عشاء کہ آنہم نافلہ بیش نیست۔
اور غیر مؤکدہ سنن کا حکم بھی یہی ہے، مثلاً :عصر اور عشا کی پہلی سنتیں، ان کا درجہ بھی نوافل کا ہے۔(فتاویٰ رضویہ ج 8،ص 12 ،130،رضافاؤنڈیشن، لاھور)
درمختار باب ادراک الفریضۃ میں ہے
والشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین
نفل نماز میں شروع ہونے والا مطلقا نماز نہیں توڑے گااور دورکعتیں پوری کرے گا۔
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:
من النوافل کل شفع صلاۃ فالقیام الی الثالثۃ کالتحریمۃ المبتداۃ ،واذا کان اول ماتحرم یتم شفعا فکذا ھنا“ترجمہ: نوافل کا ہرشفع مکمل نماز ہے، پس تیسری رکعت میں کھڑا ہوجانا ابتدائی تحریمہ کی طرح ہے، جب پہلی تحریمہ کی صورت میں پورا شفع کرنا ہے، تو تیسری کی صورت میں بھی شفع پورا کرنا ہوگا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الصلوۃ ج 2 ص 611،612 ، دارالفکر،بیروت)
لیکن وہ چار سنن موکدہ جو مثلًا ظہر اور جمعہ سے پہلے ہیں تو ان کا حکم نوافل سے فائق ہوتا ہے اس جگہ علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے-
(فتاویٰ رضویہ ج 8،ص 129- رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے
نفل شروع کيے تھے اور جماعت قائم ہوئی، تو قطع نہ کرے ،بلکہ دو رکعت پوری کر لے، اگرچہ پہلی کا سجدہ بھی نہ کیا ہو اور تیسری پڑھتا ہو تو چار پوری کرلے۔(بھار شریعت، ج 4، ص 696، مکتبۃ المدینہ)
اور ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنت سنتِ مؤکدہ ہے اس لیے اگر ظہر کی سنتوں کی ادائیگی کے دوران فرض نماز شروع ہوجائے تو بہتر یہ ہے کہ چار رکعت سنتیں مکمل کرکے فرض نماز میں شامل ہو،تاہم اگر دورکعت پر سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ اس صورت میں فرض کی ادائیگی کے بعد مذکورہ سنتوں کی ادائیگی کرنا ہوگی کیوں کہ ظہر کی چارسنتیں ایک سلام کے ساتھ مسنون ہیں اگر کسی وجہ سے وہ نماز سے پہلے رہ جائیں تو نماز کے بعد ان کی قضا کی جا سکتی ہے۔لہذا ایسے وقت میں یعنی جب جماعت شروع میں ہونے میں کچھ وقت باقی ہو ان سنتوں کی جو مسنون تعداد ہے، اسی کے مطابق نماز شروع کرلینی چاہیے، پھر اگر درمیان میں اقامت شروع ہوجائے تو مذکورہ بالا تفصیل پر عمل کیا جائے اور اگر نماز کھڑی ہونے والی ہو تو فجر کے علاوہ دیگر سنتیں شروع نہیں کرنا چاہیے۔
الفتاوى الهندية میں ہے
و لو شرع في التطوع ثم أقيمت المكتوبة أتم الشفع الذي فيه و لايزيد عليه، كذا في محيط السرخسي.
ولو كان في السنة قبل الظهر والجمعة فأقيم أو خطب يقطع على رأس الركعتين يروى ذلك عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وقد قيل: يتمها، كذا في الهداية وهو الأصح، كذا في محيط السرخسي وهو الصحيح، هكذا في السراج الوهاج.(الفتاوى الهندية (1/ 120)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(والشارع في نفل لا يقطع مطلقا) ويتمه ركعتين (وكذا سنة الظهر و) سنة (الجمعة إذا أقيمت أو خطب الإمام) يتمها أربعا (على) القول (الراجح) لأنها صلاة واحدة، وليس القطع للإكمال بل للإبطال خلافًا لما رجحه الكمال.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 53)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/08/2023
16/08/2023