Type Here to Get Search Results !

داڑھی مبارک کتنی رکھنا سنت اور واجب ہے اور پھر اس پر امام اعظم ابو حنیفہ کا کیا قول ہے؟

 (سوال نمبر 7094)
داڑھی مبارک کتنی رکھنا سنت اور واجب ہے اور پھر اس پر امام اعظم ابو حنیفہ کا کیا قول ہے؟
.................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
علماء کرام اور مفتیان عزام کی بارگاہ میں مسئلہ ہے کہ داڑھی مبارک کتنی رکھنا سنت اور واجب ہے اور پھر اس پر امام اعظم ابو حنیفہ کا کیا قول ہے
سائل:- محمد عمران خان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل

مطلق داڑھی رکھنا واجب ہے ایک مشت قبضہ بھر واجب ہے یا سنت ہے اس میں فقہاء کا اختلاف ہے داڑھی بڑھانا اور مونچھ کتروانا اتنا کہ اوپر کے ہونٹ کا سارا کنارہ کھل جائے سنت مؤکّدہ بلکہ واجب ہے اور اس کی پابندی جنتی ہو حضور کے قرب ملنے کا ذریعہ ہے جیسے کہ ترک سُنت کی عادت حضور علیہ السلام سے دوری کا سبب ہے
ٹھوڑی کے نیچے والے بال ایک مشت کے بعد کٹوائے اور اس کے آس پاس اسی مناسبت سے کہ بالوں کا حلقہ بن جائے جیسا کہ سیدنا ابن عمر کا طریقہ تھا (بخاری شریف)
قرآن حکیم فرماتا ہے
لَاتَاۡخُذْ بِلِحْیَتِیۡ۔معلوم ہوا کہ ایک مشت داڑھی سنت انبیاء یے
حضور کی ڈاڑھی شریف پورا خط گھنے بال تھے۔حق یہ ہے کہ ایک مشت رہتی تھی،ایک مشت سے داڑھی کم کرنا ممنوع ہے مشت سے زیادہ میں بہت اختلاف ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی داڑھی سینہ تک رہتی تھی،حضور غوث پاک کی
داڑھی لمبی تھی،حضرت ابن عمر ایک مشت رکھتے تھے۔
(اشعۃ اللمعات بحواله المرأة ج ٨ ص ٣٨ مكتبة المدينة)
فتاویٰ رضویہ میں ہے 
داڑھی کتروا کر ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہے
(فتاوی رضویہ ج 23 ص 98، رضا فاؤنڈیشن ، لاهور)
وقار الفتاوی میں ہے 
مذہب صحیح پر ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے   منڈوانے والا یا کاٹ کر حد شرعی سے کم کرنے والا فاسق ہے  فاسق کی امامت مکروہ اور اس کو امام بنانا گناہ ہے ۔ اس کے پیچھے جو نمازیں پڑھی جائیں گی ، ان کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔ 
فرض اور تراویح سب کا حکم ایک ہی ہے ۔ جو حفاظ ایسا کرتے ہیں کہ رمضان میں داڑھی رکھتے ہیں اور رمضان کے بعد کٹوا دیتے ہیں ، وہ عوام اور شریعت کو دھوکا دیتے ہیں اور شریعت کو دنیا کمانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، ان لوگوں کے قول وفعل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔(وقارالفتاوی،ج 2 ،ص 223، بزم وقارالدین کراچی)
اب مقدار لحیہ کی مزید وضاحت
ایک مشت سے کم ڈاڑھی رکھنا خلاف سنت ہے اور خلاف سنت صحابہ ہے ۔
مطلق ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور قبضہ بھر رکھنا سنت ہے ۔
مصنف شرح صحیح مسلم مفسر قرآن غلام رسول سعیدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض علماء ڈاڑھی میں قبضہ کو واجب کہتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ وجوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر سے ثابت ہوتا ہے اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپ نے قبضہ تک ڈاڑھی رکھنے کا امر فرمایا ہو۔ بعض علماء وجوب پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائما قبضہ تک ڈاڑھی رکھی اور کبھی اس کا ترک نہیں کیا اور یہ وجوب کی دلیل ہے ہم کہتے ہیں کہ صرف دوام سے و جواب ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے اس فعل کے ترک پر انکار بھی فرمایا ہو جیسا کہ علامہ ابن نجیم نے فرمایا ہے اور علامہ ابن ھمام کی بھی یہی تحقیق ہے ‘ اور کسی حدیث میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے قبضہ سے کم ڈاڑھی رکھنے پر انکار فرمایا ہو ‘ نیز آپ وضوء میں ہمیشہ دائیں جانب سے ابتداء کرتے تھے اور یہ بالاتفاق واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ہمارا موقف یہ ہے کہ نفس ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور منڈانا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ڈاڑھی منڈانے والے مجوسی پر انکار فرمایا (المصنف ج ٨ ص ٣٧٩)
 نیز ڈاڑھی رکھنا اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہے البتہ قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں ہے لیکن ڈاڑھی کی اتنی مقدار رکھنا ضروری ہے جس پر عرف میں ڈاڑھی کا اطلاق آسکے کیونکہ احکام میں عرف کا اعتبار ہے ‘ 
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ امام ابوحنفیہ رحمت اللہ علیہ کا قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کی شرعا مقدار معین نہ ہو اس میں مبتلا بہ کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے۔
 (رد المختار ج ١ ص ١٢٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی بیروت ١٤٠٧ ھ)
خشخشی ڈاڑھی یا فرنچ کٹ ڈاڑھی سے یہ تقاضا پورا نہیں ہوتا یہ ایک فنی بحث ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ لمبی اور دراز ڈاڑھی رکھی جائے جو سینہ کے بالائی حصہ کو بھر لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی لمبی تھی جو سینہ مبارک کو بھر لیتی تھی۔
(تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرةآیت نمبر 116)
میرا موقف یہی جو مذکور ہوا ۔
البتہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے مقدار لحیہ کے باب میں قبضہ کو واجب قرار دیا ہے 
علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی حنفی فرماتے ہیں
أما اللحية فذکر محمد في الآثار عن الامام أن السنة أن يقطع مازاد علی قبضة يده.
’امام محمد رحمہ ﷲ نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ ﷲ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ قبضہ سے زائد داڑھی کاٹنا سنت ہے۔(الطحطاوي، حاشية علی مراقي الفلاح، 1: 342، مصر: المکتبة الکبری الأميرية ببولاق)
(مکروہ قول امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کا ہے)
امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد اور علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
وما وراء ذالک يجب هکذا عن رسول اﷲ أنه کان يأخذ من اللحية من طولها وعرضها.
’قبضہ بھر سے زائد داڑھی کٹوانا واجب ہے، یونہی رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک کو لمبائی وچوڑائی سے کم کیا کرتے تھے۔‘‘
(ابن همام، شرح فتح القدير، 2: 347، بيروت: دار الفکر ابن عابدين، رد المحتار، بيروت: دار الفکر)
فقہاء کرام مزید فرماتے ہیں
بقدر المسنون وهو القبضة : داڑھی میں قدر مسنون قبضہ ہے۔
(مرغيناني، الهداية، 1: 126، بيروت: المکتبة لإسلامية زيلعي، نصب الراية، 2: 457، مصر: دار الحديث ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 302، بيروت، دار المعرفة حصکفي، الدر المختار، 2: 417، بيروت: دار الفکر)
 مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
داڑھی بڑھانا سنن انبیاء سابقین سے ہے۔ مونڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے، ہاں ایک مشت سے زائد ہو جائے تو جتنی زیادہ ہے اس کو کٹوا سکتے ہیں
(بہار شریعت ح 16ص 588 المکتبہ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area