Type Here to Get Search Results !

سیرت مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ علیہ

 

 حضور مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ  کا مزار مبارک 

                                        شمس سمناں
              اشرفی ناز کر تو اشرف پر۔            
              کون پاتا ہے خاندان ایسا۔             
کوئی اشرفی سے پوچھے کہ شاہ اشرف کی شان کیا ہے 
کہوں گا وہم گماں سے میرے بلند تر ہے مقام اشرف ۔
_________(❤️)_________
تارک السلطنت غوث العالم مخدوم الملک محبوب یزدانی میر کبیر سلطان سید اوحد الدین قدوة الکبری مجدد اعظم سبعہ صدی مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ 
سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی اور جنکے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمة اللہ علیہ کی ذات بابرکت ہے
حضرت سید اشرف جہانگير سمنانی رضی اللہ عنہ ان نفوس قدسیہ میں سے ہیں جن ذات ستودہ صفات باشندگان ھند و پاک کے لۓ منارئی ہدایت رہی لاکھوں گم گشتگان راہ آپ کی بدولت نور ہدایت سے ہم کنار ہوۓ اشاعت اسلام کے سلسلہ میں وہی سارے مسائل آپ کے سامنے پیش آۓ جو عطا ۓ رسول خواجۂ خواجگان قبلۂ چشتیاں مرکز عاشقاں مطلع سالکاں مقطعہ عارفاں سرتاج ولایت عطا ۓ میر حجاز سراپا سوز گداز سلطان الھند معین الملت والدین خواجہ غریب نواز معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری قدس سرہ النورانی در پيش ہوۓ جس طرح خواجہ غریب نواز نے بڑے بڑے پنڈتوں جوگیوں سے مقابلہ کرکے ان کی تمام تر جارحانہ تدابير اور بلند بانگ دعووں کو ملیا میٹ کرکے اسلام کی حقانیت کو ایسا واضح کیا کہ وہ اسلام کے متوالے ہوگۓ کفر کی تاریکیاں کافور ہوئی شمع اسلام فروزاں ہوئی اسی طرح غوث العالم سلطان سید اشرف جہانگير سمنانی نور اللہ مرقدہ نے بھی کی پنڈتوں جوگیوں جادوگروں سے مقابلہ کیا اور انھیں شکت فاش دی وہ اسلام کے قریب ہوۓ لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا 
غوث_العالم_سیدمخدوم_اشرف_جہانگیرسمنانی_کاخاندان 
قدوۃ الکبرا غوث العالم سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی سامانی نوربخشی قدس سرہ العزیز کا خاندانِ عالی شان صاحبِ علم و حکمت اور مالکِ سلطنت و حکومت رہا ہے. حضور سید اشرف جہانگیر سمنانی کے آباء و اجداد میں ایک سے بڑھ کر ایک بزرگ ہستی اور ذی قدر و منزلت تھے. حضرت سید ابو المظفر علی اکبر بلبل علیہ الرحمۃ و الرضوان جو کہ سامانی بادشاہ اسماعیل سامانی کے داماد تھے ،ان کی اولاد میں ایک نام نقیب النقباء حضرت سید شمس الدین محمود نور بخش علیہ الرحمۃ ہے جن کی رفعت و بلندی اور تقرب الی اللہ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسماعیل سامانی بادشاہ جب بھی کسی مہم کو سر کرنے جاتے تھے تو اپنے نواسے سے فتح و نصرت کی دعا کرواتے تھے اور ان کو اس مہم میں فتح حاصل ہوتی تھی. شاید اسی وجہ سے حضرت سید علی اکبر کی کنیت "ابو المظفر " پڑگئی. حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کو "سامانی" اور "نوربخشی" انہیں دونوں بزرگ کی نسبت سے کہا جاتا ہے. 
اسماعیل سامانی کو اپنے اس نواسے پر فخر و ناز تھا. یہی وجہ ہے کہ اسماعیل سامانی کے بعد جب ان کا بیٹا احمد بادشاہ بنے تو سید محمود نوربخش کے صاحبزادے سید محمد تاج الدین بہلول کو اپنی کابینہ کا وزیر بنایا. چند سال بعد سید تاج الدین بہلول خود مختار حکومت کا بادشاہ بن گئے ، اپنے نام کا خطبہ اور سکہ رائج کیا. ان کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت سید ظہیر الدین تختِ حکومت پر متمکن ہوئے. پھر ان کے صاحبزادے حضرت سید نظام الدین علی شیر نور بخشی ،ان کے بعد سید عماد الدین نور بخشی سامانی پھر ابو السلاطین سید شاہ ابراہیم علیہم الرحمۃ تخت تاج کے وارث ہوے. سلطان سید ابراہیم کے بعدآپ کے صاحبزادے قدوۃ الکبریٰ محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی حکومتِ سمنان کے خود مختار بادشاہ بنے. 
مذکورہ بادشاہوں میں ایک بات جو سب میں یکساں پائی جاتی تھی کہ سب علماء نواز ،بزرگ شناس ، رعایا پرور اور عدل و انصاف کے خوگر تھے. حتی کہ کچھ بادشاہوں کے عہد ایسے بھی گزرے ہیں کہ علماء و مصنفین ان کے دربارِ شاہی میں ہمیشہ حاضر باش رہا کرتے تھے. مکتوبات اشرفی میں ہے کہ ان بادشاہوں کی فیاضی اور سخاوت کی وجہ سے علما و فضلا فارغ البال اور مرفہ الحال ہوکر زندگی گزارتے تھے اور وہ علما و فضلا اپنی تصنیفات کو انہیں بادشاہوں کے نام معنون کیا کرتے تھے. ہم شبیہ غوث جیلاں حضور اشرفی میاں نے لکھا ہے کہ حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے والد ابو السلاطین سید شاہ ابراہیم علیہ کے زمانے میں ہزاروں علما ان کی زیر کفالت تھے اور تقریبا بیس ہزار مدارس میں دولاکھ طالبان علوم نبویہ تحصیل علم میں لگے ہوئے تھے. 
دوسری خوبی اور خصوصیت ان میں یہ تھی کہ یہ راہِ سلوک کے امام ہمام تسلیم کے گئے کہ جن کی بھی رہنمائی کی انہیں منزل مقصود تک پہنچا دیا. سلطان اسماعیل سامانی جو کہ نقیب النقبا مستجاب الدعوات حضرت سید شاہ شمس الدین محمود نور بخش کے نانا ہیں ، غزنوی بادشاہ الپتگین اور سبکتگین ان کے غلام رہے ہیں. اور سلطان محمود غزنوی ، الپتگین کے بیٹے تھے. محمود غزنوی کے بھانجے سید شاہ مسعود غازی بہرائچ رحمۃ اللہ علیہ تھے. 
اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو مخدوم پاک کے آباء و اجداد ہی نہیں بلکہ آباء و اجداد کے غلام اور غلام زادوں نے حکومت و سلطنت کی ہے. اسی لیے اشرف الفواد میں درج مخدوم پاک کا یہ قول صدفی صد مبنی بر صداقت ہے کہ 
" میرے خاندان کی عظمت اور شانِ بلند و شرفِ عالی یہاں سے تصور کرنا چاہیے کہ غزنوی جیسے بادشاہ ہمارے بزرگوں کے غلام زادوں نے سلطنت و بادشاہت کی ہے. فقیر کا نسب مادری سلطان اسماعیل سامانی سے منسوب ہے 
ولادت باسعادت 
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت بھی اپنی جگہ ایک کرامت ہے چنانچہ حضرت سلطان السلاطین سید ابراہیم سمنانی رضی اللہ عنہ کے ایام سلطنت رانی کے یہاں چند لڑکیاں پیدا ہوئی مگر کوئی بیٹا پیدا نہ ہوا تقریبا دس سال یا بارہ سال تک سلسلۂ پیدائش بند رہا حضرت سلطان السلاطین علیہ الرحمہ کو فرزند ارجمند کی دلی آرزو حد سے زیارت تھی ہر درویش و لی کی طرف بغرض دعا حاضر باش ہوتے سال اسی فکر تردد میں گزرا ایک رات قسمت کا ستارہ چمکا خواب میں دیکھا ایک نورانی شکل کائنات عالم کے انسان کامل صاحب جمال و کمال یعنی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اپنے چہرہ انور کی ضوباریاں و درخشانیاں تابنیاں ضو فگن کرتے ہوۓ رونق افروز ہوۓ سلطان السلاطین فورا تعظم کے لۓ کھڑے ہوگۓ اور نہایت ہی اعزاز و اکرام احترام سے پیشوائی کرتے ہوۓ قدم بوسی سے مشرف ہوۓ اپنا سر قدم نازنین پر رکھ دیا دل کو کمال بشاشت ہوئی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا اے فرزند ابراہیم تم کو متردد دیکھتا ہوں کیا اولاد کی خواہش رکھتے ہو 
سید ابراہیم رونے لگے اور باکمال عجزو انکساری یوں عرض کرنے لگے کہ بارہ برس سے آرزو ۓ فرزند وارث تخت و تاج سلطنت کی دل میں رکھتا ہوں اگر حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ابر باران نبوت اور نسیم گلستان رسالت سے میرے باغ خزاں رسیدہ کو سرسبزی حاصل ہو اور فرزند عطا فرمائیں تو کمال عنایت ہوگی 
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا حق تعالی ﷻ تم کو دو بیٹے عطا فرمائے گا ایک کا نام اشرف اور دوسرے کا نام اعرف رکھنا لیکن پہلا فرزند تمہارا صاحب سلطنت ظاہری و باطنی ہوگا 
نسیم لطف الہی جو چلی اور شمیم خوشی اور شادمانی جو پھیلی تاریخ اشرف میں اشرف الملت والدین یعنی سلطان سید اشرف جہانگير سمنانی پیدا ہوۓ 
(صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ 60 تا 61 مطبوعہ دار العلوم مُحَمَّد یہ ممبئی)
شاہی محل میں ایک ولی کامل کی آمد 
شہر سمنان میں ایک صاحب حال مجذوب شیخ ابراھیم علیہ الرحمہ نامی رہا کرتے تھے
ایک روز سلطان سید ابراھیم اور انکی بیگم شاہی محل میں مصلے پر بیٹھے ہوۓ وظیفے میں مشغول تھے
 کہ اچانک شیخ ابراھیم مجذوب سامنے نمودار ہوۓ بادشاہ اور بیگم دونوں متعجب ہوۓ کہ شاہی محل میں جہاں ہر وقت پہرے دار پہرہ دے رہے ہیں ان کو کس نے یہاں آنے دیا جب معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ کشف و کرامت سے اندر آۓ ہیں بادشاہ نے جیسا ہی مجذوب کو دیکھا پیشوائی کے لۓ چند قدم بڑھکر ان کو لاۓ اور تخت شاہی پر لاکر بیٹھا دیا حد درجہ تعظیم اور خود ان کے سامنے ادب سے کھڑے ہوگۓ، ایک لخطہ مجذوب صاحب خاموش بیٹھے رہے پھر مجذوب صاحب نے سلطان سے پوچھا
تم کو اپنی طرف متوجہ پاتا ہوں کیا اولاد کی خواہش رکھتے ہو سلطان نے با ادب عرض کی آپ حاکم ہیں اگر عنایت فرما دیں
مجذوب صاحب نے کہا اسکی قیمت زیادہ ہے کہ پسر عجوبہ روزگار تم کو دوں گا 
عرض کی جو کچھ حکم ہو حاضر ہوں 
فرمایا ایک ہزار سکہ شاہی چاہیۓ 
بادشاہ نے ایک ہزار سکے مجذوب صاحب کے دامن میں ڈال دیۓ 
مجذوب بزرگ خوش ہوکر اٹھ کھڑے ہوۓ اور کہنے لگے کہ ابراہیم کو تم نے جل دے دیا اور مفت میں بیٹا لے لیا 
جب آپ جانے لگے تو بادشاہ بتعظیم آپ کے پیچھے چل دیا چند قدم ہی چلے تھے کہ مجذوب صاحب نے مڑکر دیکھا اور کہا اب کیا چاہتے ہو اپنا لڑکا تم نے لے لیا اور کیا مبارک پسر سبحان الله کہ تمام عالم اسکے نقش مقدس سے فیضیاب ہوگا 
(مرجع سابق صفحہ 63)
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت سے تین ماہ قبل اھل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کی گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں صدا لگا رہا تھا” ” باادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں “ اس آواز سے شہر سمنان کے در و دیوار گونج رہے تھے، لوگ حیران تھے کہ یہ دیوانہ کون ہے اور کس کے آنے کی خبر دے رہا ہے، یہ وہی شخص ابراھیم مجذوب تھے جنہوں نے سلطان سید ابراھیم کو فرزند سعید کی بشارت دی تھی۔ آخر مجذوب کی دعا ٕ اور حضور پر نور ﷺ کی بشارت پوری ہوئی اور 708/ ھجری کو ولادت باسعادت ہوئی 
رسم بسم اللہ خوانی و تحصل علوم و فنون :-
تارک السلطنت سلطان سید اشرف جہانگير سمنانی کی جب عمر شریف چار سال چار ماہ چار دن کی ہوٸی تو نہایت تزک و احتشام سے آپکی بسم اللہ خوانی ہوئی محض ایک سے کم عرصہ میں ساتوں قرأت کے ساتھ قرآن کریم حفظ فرمایا اور فقط سات سال کی عمر میں اصلاحات علوم عربیہ پر دسترس حاصل کی فقط چودہ سال کی عمر میں تمام علوم و فنون مہارت تامہ حاصل تھی 
علم القرآن۔علم قرأت۔علم تجوید۔علم تفسیر۔
علم حدیث۔علم تخریج۔علم فقہ ۔علم جرح و تعدیل 
علم الکلام۔علم العقائد۔علم البیان ۔علم المعانی
 علم المناظرہ۔ علم فتویٰ نویسی ۔علم سیرت نگاری
علم فلسفہ منطق۔علم فضائل و مناقب۔ علم ادب 
علم شاعری۔علم نثر نگاری ۔علم حاشیہ نگاری
علم اسماء الرجال۔علم الاخلاق ۔علم روحانیت 
علم تصوف ۔علم سلوک۔علم تاریخ و سیر
علم صرف ۔علم نحو ۔علم بدیع 
علم الانساب ۔علم الفرائض ۔علم پندو نصائح 
 علم مکتوبات۔علم ملفوظات ۔علم خطبات 
علم جغرافیہ ۔علم اقتصادیات علم معاشرت ۔علم طبعیات 
علم معاشیات ۔ علم معدنیات ۔علم فلکیات ۔علم نجوم ۔علم جفر 
علم ارضیات۔ علم الحساب ۔علم طب ۔علم ریاضی 
علم الاوقات ۔علم الادیان۔ علم الایام ۔علم عروض 
علم البر والبحر ۔علم الاوزان ۔علم المناظر ۔علم الاموال
علم الاحکام ۔ علم رمل ۔علم لغت  ۔علم ہیت ۔علم توقیت  
وغيرہا حاصل فرماکر عالم کے سلطان العلوم والفنون ہوۓ 
تصانیف:- 
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رشحات قلم سے اسکی مختصر فہرست درج ذیل ہے 
مختصر فی النحو 
مختصر فی اصول الفقہ 
تعلیقات علی ہدایة الفقہ والفصول 
شرح عوارف المعارف 
شرح فصول الحکم 
اشرف الانساب 
مختصر بحر الانساب 
قواعد العقاٸد 
بحر الاذکار 
فوائد الاشرف 
تنبیہ الاخوان
فتاوی اشرفیہ 
بشارة الذاکرین 
حجة الذاکرین 
تفسیر القرآن المسمی بالنور بخشیہ 
اشرف البیان فی ترجمة القرآن 
مرأة الحقاٸق و کنز الدقاٸق 
رسالہ فی جواز اللعن علی یزید 
بشارة المریدین 
ملفوظات لطاٸف اشرفی 
اوراد الاشرفیہ 
رسالہ فی جواز سماع الغنا 
ارشاد الاخوان 
طلب معرفت کا طبعی میلان 
دل طلب معرفت کا جذبہ پہلے ہی سے موجود تھا اور صغر سنی ہی سے درویشوں اور عارفوں کی خدمت میں حاضری اور حصول فیض کا شوق تھا تمام علوم فنون کے بعد اس شوق و ذوق اور بڑھ گیا تھا 
والد ماجد کا انتقال پر ملال اور تخت نشینی 
جب آپ کی عمر 14 سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد وصال ہو گیا ارکان دولت اور اعیان سلطنت نے آپکو تخت حکومت پر بٹھایا اس طرح اس کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپ کے کندھوں پر آگیا ، لیکن آپ نے اپنی خدا داد صلاحیت کو بروۓ کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گۓ تخت نشینی پر جلوہ فگن ہوتے ہی رعایا پروری اور عدل و انصاف کی ایسی نظیر قائم کی جسکی نظر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے 
آپ نے اپنے 723 ھجری سے 733ھجری تک دس سال نہایت عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی ، اسی دوران حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ترک سلطنت 
 آخر وہ وقت آگیا جب آپ کو دنیا کی حکومت سے دستبردار ہوکر روحانیت کی بادشاہت پر سرفراز ہونا تھا 733ھجری 27 رمضان المبارک کی شب تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاۓ اور فرمایا “ حجاب تخت و تاج دور کرکے لذت وصل الہی کیلۓ تیار ہو جاٶ“ حضرت علا ٕ الدین گنج نبات تمہارے منتظر ہیں۔ صبح ہوتے ہی آپ نے اپنے چھوٹے بھاٸ سید اعرف کی تخت نشینی کا اعلان فرمایا اور خود ہمیشہ کیلۓ تخت و تاج سے دستبردار ہو گۓ۔ اس وقت آپ پچیس سال کے تھے۔ اپنی والدہ ماجدہ سے سفر کی اجازت لی اور چل پڑے۔ بزرگان دین کی خانقاہوں پر حاضری دیتے ہوۓ ہندوستان پہنچے ، اور ہندوستان کے قصبہ بہار میں اس وقت پہنچے جب مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین یحی منیری رحمة اللہ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم بہاری نے وصیت فرماٸ تھی کہ ان کی نماز جنازہ وہی شخص پڑھاٸیگا جو صحیح النسب سید ہو ، تارک السلطنت ہو اور سات قرأت کا قاری ہو ، وہ مغرب کی طرف سے کالا کمبل اوڑھے نمودار ہوگا اسی سے میری نماز جنازہ پڑھوانا۔ یہ سب شرطیں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی میں موجود تھیں۔ اس لۓ انہوں نے ہی حضرت مخدوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی اور تجھیز و تکفین کے بعد مزار کے پاس مراقبہ کیا تو ان کو اپنے سامنے پایا، انہوں نے روحانی طور پر آپ کو تمام نعمتوں سے نوازا اور فرمایا ” فرزند اشرف“ کاش تم میرے حصے میں آۓ ہوتے۔ لیکن تمہیں بھائی علا ٕ الدین آواز دے رہے ہیں۔ اب تمہیں نہیں روک سکتا، جاؤ یہ سفر تمہیں مبارک ہو۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ یہاں سے روانہ ہوۓ ، دشت بیاباں کو ناپتے ، ندی نالوں کو پھلانگتے ، پہاڑوں کو چیرتے ہوۓ آگے بڑھ رہے تھے۔ جنگلوں کے پر خطر راستوں اور پہاڑوں کی ھیبت ناک وادیوں کو پیچھے چھوڑ کر سیکڑوں میل کی دشوار گذار راہیں طے کرکے سرزمین بنگال میں قدم رکھا اور پنڈوہ شریف کے قریب پہنچ گۓ، جہاں شیخ علا ٕ الدین علا ٕ الحق گنج نبات رحمة اللہ علیہ رشد و ھدایت کے جوھر لٹا رہے تھے۔ جس وقت آپ پنڈوہ شریف کے قریب پہنچے تو حضرت اپنے مریدین کو طریقت کی تعلیم دے رہے تھے۔ اچانک انہوں نے اہل محفل سے فرمایا ” بوۓ یار می آید “ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے ، جس کا دو سال سے ہم انتظار کر رہے ہیں۔ بہر حال حضرت اپنے مریدوں کے ساتھ باہر آۓ اور سید اشرف جہانگیر سمنانی کا استقبال فرمایا۔ اپنے ساتھ پالکی میں بٹھا کر خانقاہ میں لاۓ ، بیعت کیا اپنی تمام روحانی نعمتیں عطا کیں اور خرقہ و خلافت سے نوازا۔ بارہ سال تک اپنے مرشد کی خدمت میں رہے پھر مرشد کے حکم سے تبلیغ دین کیلۓ روانہ ہوگۓ ، آپ نے لاکھوں انسانوں کو ھدایت کی راہ دکھائی اور اپنی آخری آرام گاہ کچھوچھہ مقدسہ کو بنایا۔ کچھوچھہ وہ سرزمین تھی جہاں دور دور تک جنگل ہی جنگل تھا اور جادوگروں کا مسکن تھا، آپ کے قدموں کی برکت سے جادوگروں نے اسلام قبول کیا اور کچھوچھہ جنگل سے منگل بن گیا ، وہاں ایک بڑا شہر آباد ہوگیا ہے، جہاں صبح و شام انوار و تجلیات کی برسات ہوتی ہے یہاں لوگ فیضان مخدوم سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ آفات رسیدہ آسیب زدہ لوگ یہاں سے شفایاب ہو کر لوٹتے ہیں ۔ انکے روضے پر ہمیشہ ھزاروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ وہاں آل رسول لیٹے ہیں
مرید کے لۓ بشارت 
سوال کیا فرماتے ہیں علما کرام کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی کیا کوئی بشارت ایسی ہے کہ سلسلہ اشرفیہ میں داخل ہونے والے کو بخشش و مغفرت کی بشارت ہو 
 آپ کی قبر انور پر آنے والے کی کوئی نہ کوئی حاجت پوری ہونے کا تذکرہ ہو کتب معتبر اگر ہو سکے تو خود مخدوم پاک کی کتابوں سے یا آپ کے خلفا کی کتابوں سے حوالہ کے ساتھ دونوں سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں عین نوازش و کرم ہوگا تاکہ کچھ لوگوں کا عتراض رفع ہو۔
المستفتی خادم الاسلام اشرفی مغربی بنگال 
الجواب بعون الملک الوھاب
دونوں سوالات کے جوابات بالترتیب حاضر ہیں 
 (1) بلا شک شبہ و لاریب قیامت تک سلسلہ اشرفیہ میں داخل ہونے والوں کے ل یہ گڈ نیوز و خوشخبری و بشارت اور مژدہ جانفزا ہے کہ باری نے ان کی پیشانی پر عفو و درگزر کا قلم پھیر دیا ہے حتی کہ جو آپ کی قبر شریف پر خلوص دل سے آئے اسے بھی مغفرت و بخشش کی بشارت ہے۔ چنانچہ تارک السلطنت غوث العالم مخدوم الملک اوحد الدین سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ نے یہ بشارت اپنے چاہنے منانے اور آپ کے سلسلہ میں داخل ہونے والوں کو اپنے وصال سے پہلے خود تحریر فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں جتنی دیر میں قبر کے اندر رہا فقیر پر ستر ہزار تجلیات جمال الہٰی کا نزول ہوا اور مقربان بارگاہ الوہیت (فرشتوں) نے جس قدر اکرام و نوازش اس فقیر کو مرحمت کی وہ تحریر میں نہیں آ سکتی حضرت رب ذوالجلال وقادر در با کمال کی طرف سے منادی نے عالم ملکوت میں یہ ندا سنائی۔ اشرف ہمارا محبوب ہے اس کے تمام مریدین کی پیشانی پر عفو و کرم کا قلم پھیرتا ہوں اور اس کو اپنی مغفرت و بخشش سے نوازتا ہوں۔ الحمد للہ علی ذالک یہ میرے احباب و رفقا کے لیے مژدہ جانفزا ہے۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ و ان مُحَمَّدا عبدہ و رسولہ والصلوۃ والسلام منی ومن اھل الایمان علی مُحَمَّد وعلی الہ و اصحابہ وسلم کثیرا کثیرا۔
(حجۃ الذاکرین مع رسالہ قبر یہ صفحہ 26 مطبوعہ السید محمود اشرف دار التحقیق والتصنیف کچھوچھ مقدسہ)
(2)بیشک جو شخص آپ کی قبر شریف پر صدق نیت اور خلوص کے ساتھ آئے اس کی حاجات ضرور پوری ہوں گی۔ 
محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دھلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں آپ کی قبر بڑا فیض کا مقام ہے اور ایک حوض کے درمیان میں ہے اس علاقہ میں جنات کو دور کرنے کے لیے آپ کا نام لے دینا بڑا تیر بہدف نسخہ ہے۔(اخبار الاخیار قسط نمبر 3 صفحہ 84 مطبوعہ دھلی)
آپنے اپنے وصال سے دو روز قبل ایک رسالہ قبر شریف کے اندر بیٹھ کر تحریر فرمایاہے آپ خود رقم کرتے ہیں کہ ارباب علم دانش اور اصحاب طریقت و حقیقت کو معلوم ہو کہ جب ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (پارہ 30 سورہ فجر آیت 14)
(اے نفس مطمنّہ راضی و مقبول ہو کر اپنے رب کے پاس آجا) 
کا حکم آیا تو اس فقیر کو اسی ہزار مقرب فرشتوں کے ہمراہ بارگاہ صمدیت میں لایا گیا پھر سدرۃ المنتہی کی نیچے پہونچایا گیا اور ندا آئی تجھے دنیا میں چند دنوں کے لیے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا تھا اب وقت آگیا ہے کہ
 حب الوطن من الایمان
 (وطن کی محبت نصف ایمان ہے)
کے بموجب اپنے وطن اصلی کی طرف واپس لوٹ آ? فقیر نے اس نعمت پر باوجود کمزوری و ضعف کے رب تعالی کی یوں تعریف کی لا حصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک (اے اللہ میں تیری تعریف نہیں کر سکتا جیسی تونے خود اپنی تعریف کی ہے)
اس کے بعد حکم الہی ہوا کہ تجھے اسی ہزار فرشتے نیز تیس ہزار حرمین شریفین مکہ مکرمہ مدینہ منورہ اور بیت المقدس (کوہ لبنان) کے خاص بندگان حق ایک ہزار ابدال مغرب سے ایک ہزار رجال الغیب سر اندیپ سے اور ایک ہزار مردان غیب یمن کی جانب سے آکر تجھے غسل دیں گے پھر آسمان پر لے جائیں گے۔ پھر بیت اللہ شریف کے سامنے تیری نماز جنازہ پڑھی جائیں گی اور بندوں کے منافع کے لیے تجھے زمین میں دفن کیا جائے گا تاکہ جو تیری قبر پر آئے اس کی حاجات پوری ہوں اور اسے مغفرت و بخشش کی نوید حاصل ہو۔
(حجۃ الذاکرین مع بشارۃ المریدین صفحہ 27 مطبوعہ السید محمود اشرف دار التحقیق کچھوچھ مقدسہ)
الحاصل مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں جو شخص صدق دل سے حسن نیت کے ساتھ آئے گا اس کی حاجت ضرور پوری ہوگی
 واللہ تعالی اعلم و صلی اللہ تعالی علی حبیبہ الف الف مرۃ و الہ و ازواجہ و اھلبتہ و بارک وسلم


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area