(سوال نمبر 7048)
ساس سے جماع ہونے پر بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی کیا اب ساس سے نکاح جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں ایک مرد نے اپنی بیوہ ساس سے ہمبستری کی اور بعد میں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی تو وہ کسی مولانا سے مسئلہ پوچھنے گیا تو مولانا نے کہا کہ اپ کی بیوی تو ہمیشہ کے لیے اپ پر حرام ہو گئی کیونکہ اپ نے ساس سے ہمبستری کر لی لہذا اب اپ کے لیے دونوں غیر محرم ہو گئی ہیں اب اپ چاہو تو اس بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہو جو کہ اپ کی بیوی کی ماں ہے کیونکہ بیوی تو ہمیشہ کے لیے اپ پر حرام ہو گئی اس سے نکاح نہیں ہو سکتا کسی صورت میں براہ کرم اس مسئلے میں روشنی ڈال کر نوازش فرمائیں
سائل:- محمد رمضان جلالی ضلع بکھر ڈاک خانہ بے حل پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ مسئلہ کسی نے غلط بتایا ہے آپ کو۔۔۔۔ غالبا اہل حدیث کے یہاں یہ مسئلہ ہے۔
ساس تو پہلے سے محرم یے اور جیسے بیوی کی ماں ہے ویسے داماد کے لئے بھی ماں داخل ہے جس سے کبھی بھی نکاح جائز نہیں ہے چاہے بیوی مرجائے یا حرمت مصاہرت سے حرام ہوجایے کسی صورت ساس سے نکاح جائز نہیں ہے۔کہ وہ ہمیشہ کے لیے محرم ہے۔
مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت سے نکاح تو نہیں ٹوٹتا بس بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی وہ شوہر کے گھر ہی رہے گی جب تک طلاق نہ مل جائے اور ساس تو پہلے سے محرم ہے دونوں میں سے کسی سے نکاح زید کے لئے جائز نہیں ہے۔
اب اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔ اگر نہیں چھوڑے گا تو گنہگار ہوگا اور بیوی کے حق میں بھی گرفتار ہوگا۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے
فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (سورة البقرة آیت٢٢٩)
واذ قد فاته الامساك بالمعروف لزمه التسریح باحسان
بھلائی سے پاس رکھو یا یا اچھے انداز میں اس کو آزاد کر دو، اس صورت میں پاس رکھنا ممکن نہیں رہا لہٰذا اسے خود چاہئے کہ چھوڑ دے ۔ جب تک وہ (شوہر) ترک نہ کرے یا حاکم شرح تفریق نہ کر دے نکاح بے شک باقی ہے۔ دوسری جگہ ہر گز اس لڑکی یعنی اس کی بیوی کا نکاح جائز نہیں۔ ہاں بعد متارکہ یا تفریق حاکم شرح پدر دختر یعنی اس لڑکی کا باپ کو اختیار ہوگا کہ اس لڑکے کے سوا جس سے چاہے نکاح کردے۔
در مختار میں ہے
بحرمة المصاھرة لا یرتفع النکاح حتی لایحل لھا التزوج باخر الابعد المتارکة وانقضاء العدة والوطء بھا لایکون زنا ١ھ (در مختار فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی جلد اول صفحہ ١٨٨)
ردالمحتار میں ہے
ای وان مضی علیھا سنون کما فی البزازیة و عبارة الحاوی الا بعد تفریق القاضی اوبعد المتارکة اھ (ردالمحتار فصل فی المحرمات دار احیاء التراث العربی بیروت ج دوم ص ٢٨٣)
ایسا ہی فتاوی رضویہ مترجم جلد یازدہم ٣٢١ تا ٣٢٤ پر ہے مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی ساس سے زنا کر لے تو اس کی بیوی اس کے نکاح سے نہیں نکلتی البتہ اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب نکاح سے نہیں نکلی ہے تو لڑکی اپنے شوہر کے پاس ہی رہے گی جب تک طلاق نہ دے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
ساس سے جماع ہونے پر بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی کیا اب ساس سے نکاح جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں ایک مرد نے اپنی بیوہ ساس سے ہمبستری کی اور بعد میں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی تو وہ کسی مولانا سے مسئلہ پوچھنے گیا تو مولانا نے کہا کہ اپ کی بیوی تو ہمیشہ کے لیے اپ پر حرام ہو گئی کیونکہ اپ نے ساس سے ہمبستری کر لی لہذا اب اپ کے لیے دونوں غیر محرم ہو گئی ہیں اب اپ چاہو تو اس بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہو جو کہ اپ کی بیوی کی ماں ہے کیونکہ بیوی تو ہمیشہ کے لیے اپ پر حرام ہو گئی اس سے نکاح نہیں ہو سکتا کسی صورت میں براہ کرم اس مسئلے میں روشنی ڈال کر نوازش فرمائیں
سائل:- محمد رمضان جلالی ضلع بکھر ڈاک خانہ بے حل پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ مسئلہ کسی نے غلط بتایا ہے آپ کو۔۔۔۔ غالبا اہل حدیث کے یہاں یہ مسئلہ ہے۔
ساس تو پہلے سے محرم یے اور جیسے بیوی کی ماں ہے ویسے داماد کے لئے بھی ماں داخل ہے جس سے کبھی بھی نکاح جائز نہیں ہے چاہے بیوی مرجائے یا حرمت مصاہرت سے حرام ہوجایے کسی صورت ساس سے نکاح جائز نہیں ہے۔کہ وہ ہمیشہ کے لیے محرم ہے۔
مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت سے نکاح تو نہیں ٹوٹتا بس بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی وہ شوہر کے گھر ہی رہے گی جب تک طلاق نہ مل جائے اور ساس تو پہلے سے محرم ہے دونوں میں سے کسی سے نکاح زید کے لئے جائز نہیں ہے۔
اب اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔ اگر نہیں چھوڑے گا تو گنہگار ہوگا اور بیوی کے حق میں بھی گرفتار ہوگا۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے
فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (سورة البقرة آیت٢٢٩)
واذ قد فاته الامساك بالمعروف لزمه التسریح باحسان
بھلائی سے پاس رکھو یا یا اچھے انداز میں اس کو آزاد کر دو، اس صورت میں پاس رکھنا ممکن نہیں رہا لہٰذا اسے خود چاہئے کہ چھوڑ دے ۔ جب تک وہ (شوہر) ترک نہ کرے یا حاکم شرح تفریق نہ کر دے نکاح بے شک باقی ہے۔ دوسری جگہ ہر گز اس لڑکی یعنی اس کی بیوی کا نکاح جائز نہیں۔ ہاں بعد متارکہ یا تفریق حاکم شرح پدر دختر یعنی اس لڑکی کا باپ کو اختیار ہوگا کہ اس لڑکے کے سوا جس سے چاہے نکاح کردے۔
در مختار میں ہے
بحرمة المصاھرة لا یرتفع النکاح حتی لایحل لھا التزوج باخر الابعد المتارکة وانقضاء العدة والوطء بھا لایکون زنا ١ھ (در مختار فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی جلد اول صفحہ ١٨٨)
ردالمحتار میں ہے
ای وان مضی علیھا سنون کما فی البزازیة و عبارة الحاوی الا بعد تفریق القاضی اوبعد المتارکة اھ (ردالمحتار فصل فی المحرمات دار احیاء التراث العربی بیروت ج دوم ص ٢٨٣)
ایسا ہی فتاوی رضویہ مترجم جلد یازدہم ٣٢١ تا ٣٢٤ پر ہے مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی ساس سے زنا کر لے تو اس کی بیوی اس کے نکاح سے نہیں نکلتی البتہ اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب نکاح سے نہیں نکلی ہے تو لڑکی اپنے شوہر کے پاس ہی رہے گی جب تک طلاق نہ دے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
12/08/2023