Type Here to Get Search Results !

سلام پھیرنے کے بعد امام کس طرح بیٹھے "دائیں ''بائیں "یا قبلہ رخ؟

 (سوال نمبر 2127)
سلام پھیرنے کے بعد امام کس طرح بیٹھے "دائیں ''بائیں "یا قبلہ رخ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمةالله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان اسلام  مسلۂ ذیل میں زید ایک عالم صاحب ہیں جومسجد میں بحیثیت امام ہیں جب وہ سلام پھیرتے ہیں تو  کبھی دائیں کبھی بائیں کبھی مقتدی  کی جانب گھوم کر دعا مانگتے ہیں   کیا امام صاحب کو اس طرح دعا مانگنا جائز ہے بکر ایک حافظ قرآن ہے جن کا کہنا ہے کہ صرف روضۂ رسول کی جانب ہی دعا مانگنی چاہیئےاس کے علاوہ یعنی بائیں اور مقتدی کی جانب گھومنا وہابیوں کا طریقہ ہے  جبکہ زید کا کہنا ہے کہ یہ حضور سرکار دوجہا ںﷺ کا طریقہ  حدیث کا حوالہ دے رہے ہیں جیساکہ بخاری شریف اور مسلم شریف وفتاوى رضویہ وغیرہ۔ میں موجود ہے حضور والا، کے بارگاہ میں عرض ہے کہ اس کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں
سائل: المستفتی غلام حضور تاج الشریعہ محمد حشمت رضا نظامی سیتامڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
مذکورہ سوال میں زید امام صاحب کا طریقہ 'طریق سنت ہے حافظ صاحب خاطی ہیں 
جب امام صاحب صحیحین اور فتاوی کا حوالہ دے رہیں ہیں تو حافظ صاحب کو  اپنی ہٹ دھرمی دیکھا نا جائز نہیں ہے حب رسول میں روضہ رسول والی بات قابل قبول نہیں ہے حافظ صاحب پر لازم ہے کہ اپنے قول سے رجوع کریں اور کبار فقہاء نے اس باب میں جو فتوی صادر فرمائے ہیں وہ مان لیں یا اپنی بات دلائل و براہین سے ثابت کریں قول حافظ یہ وہابیوں کا طریقہ ہے من گھڑت ہے بلکہ یہ سنت رسول ہے یعنی تینوں طرح بیٹھنا درست ہے دائیں بائیں اور رخ ماموم ، البتہ دائیں طرف متوجہ ہونا اولیٰ ہے
بایں طور کہ امام کا فرض نماز میں سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رو بیٹھا رہنا مکروہ ہے بلکہ دائیں بائیں پھرجانا یا مقتدیوں کی طرف مُنہ کر لینا سنَّت ہے مگر مقتدیوں کی طرف مُنہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے  کہ کس مسبوق کی طرف مُنہ نہ ہو جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے ک
یکرہ المکث علی هیئته مستقبل القبلة " اھ
(بدائع الصنائع ج 1 ص 393 : کتاب الصلاۃ، فصل في بیان ما یستحب للإمام )
اور مراقی الفلاح مع طحطاوی میں ہے کہ  و عقب الفرض إن لم یکن بعده نافلة یستقبل ( الناس ) إن شاء إن لم یکن في مقابلة مصل ؛ لما في الصحیحین " کان النبي ﷺ إذا صلی أقبل علینا بوجهه وإن شاء الإمام انحرف عن یساره جعل القبلة عن یمینه و إن شاء انحرف عن یمینه وجعل القبلة عن یساره ، و هذا أولی ؛ لما في مسلم : کنا إذا صلّینا خلف رسول ﷲ ﷺ أحببنا أن نکون عن یمینه حتی یقبل علینا بوجهه…..... الخ " اھ
( مراقی الفلاح مع طحطاوی ص 171 )
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
( امام کے لئے ) بعدِ سلام قبلہ رُو بیٹھا رہنا ہر نماز میں مکروہ ہے وہ شمال و جنوب و مشرق میں مختار ہے مگر جب کوئی مسبوق اس کے محاذات میں (یعنی سامنے ) اگر چہ اَخیر صف میں نماز پڑھ رہا ہو تو مشرق یعنی جانبِ مقتدیان مُنہ نہ کرے ۔ بہر حال پھرنا مطلوب ہے اگر نہ پھرا اور قبلہ رُو بیٹھا رہا تو مبتلائے کراہت و تارکِ سنّت ہوگا اھ
( فتاوی رضویہ ج 6 ص 205 : رضا  فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور )
 مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 
 سلام کے بعد سُنّت یہ ہے کہ امام دہنے بائیں  کو انحراف کرے اور داہنی طرف افضل ہے اور مقتدیوں کی طرف بھی مونھ کر کے بیٹھ سکتا ہے ، جب کہ کوئی مقتدی اس کے سامنے نماز میں نہ ہو ، اگرچہ کسی پچھلی صف میں وہ نماز پڑھتا ہو اھ
(بہار شریعت ج 1 ص 537  درود شریف کے فضائل ومسائل)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و
26/3/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area