(سوال نمبر 4107)
کیا نابالغ بچوں سے کام کروانا گناہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ماں باپ کے علاوہ کسی اور کا نابالغ بچوں سے کام کروانا کیسا۔۔عام طور پر گھر میں نابالغ بچوں سے سب کام کروا رہے ہوتے ہیں ایسا کرنا کوئی گناہ ہے ۔جائز ہے ۔کیا ہے۔
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالٰی عزوجل
ہمارے یہاں عرف عام میں نابالغ بچوں سے جو چھوٹے موٹے کام کرواتے رہتے ہیں جیسے چچا دادا دادی چاچی اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ نابالغ بچوں سے پانی بھروا کر اسعتمال میں لانے کی تو والدین یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں جیسا کہ علامہ صد الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعا اس کی ملک ہو جائے، اسے پینا یا وضو یا غسل یا کسی کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے، اگر وضو کر لیا تو وضو ہو جائے گا اور گنہگار ہو گا، یہاں سے معلمین کو سبق لینا چاہیے کہ اکثر وہ نابالغ بچوں سے پانی بھروا کر اپنے کام میں لایا کرتے ہیں۔(بہار شریعت ح۲پانی کا بیان)
اگرچہ پانی یمارے یہاں سستا ہے مگر در اصل یہ مال ہے اس لئے دوسروں کے نابالغ بچے خواہ طلبہ ہوں یا طالبات، ان کاکوئیں یا نل سے بھرا ہوا پانی بلا معاوضہ مدرس اور مصلی حضرات کو وضو، غسل اور طہارت وغیرہ کسی کام میں لانا جائز نہیں۔
بہار شریعت میں ہے
بعض لوگ دوسرے کے بچہ سے پانی بھروا کر پیتے یا وضو کرتے ہیں یا دوسری طرح استعمال کرتے ہیں یہ ناجائز ہے(بہار شریعت، ج:1 ، ص: 82، مکتبۃالمدینہ)
اور در مختار مع شامی میں ہے
لا تصح هبة صغير. (الدر المختار و رد المحتار، ج: 5، ص: 687، دار الفكر، بيروت)
البتہ اپنے نابالغ لڑکے یا دوسرے کے بالغ لڑکا لڑکی کا بھرا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے (ماخوذ از فتاویٰ فیض الرسول، ج:1، ص:164)
ہینڈ پائپ دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ذاتی کسی کی ملک جس میں یہ اجازت نہیں ہوتی کہ جس کا جی چاہے پانی بھر کے لےجائے۔ دوسرے وہ جو بازاروں اور مساجد وغیرہ میں لگے ہوئے ہیں جس میں اذن عام ہوتا ہے جس کا جی چاہے پانی بھرے۔ اس دوسرے قسم کے ہینڈ پائپ سے اگر نابالغ بچہ پانی بھرے گا اور کسی برتن میں جمع کر لے گا تو وہ اس کی ملک ہو جائے گا۔ اس پانی کو وہ والدین کے علاوہ کسی کو بلا قیمت نہیں دے سکتا۔ بھرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ پانی برتن میں جمع کر دے اور اگر وہ ہینڈ پائپ چلا رہا ہے اور دوسرے نے اپنے برتن میں لے لیا تو وہ نابالغ کی ملک نہ ہوا۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج ۵،(فتاوی شارح بخاری)
حاصل کلام یہ ہے کہ فیملی میں نابالغ بچے سے چھوٹے موتے کام کروانے میں حرج نہیں ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا نابالغ بچوں سے کام کروانا گناہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ماں باپ کے علاوہ کسی اور کا نابالغ بچوں سے کام کروانا کیسا۔۔عام طور پر گھر میں نابالغ بچوں سے سب کام کروا رہے ہوتے ہیں ایسا کرنا کوئی گناہ ہے ۔جائز ہے ۔کیا ہے۔
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالٰی عزوجل
ہمارے یہاں عرف عام میں نابالغ بچوں سے جو چھوٹے موٹے کام کرواتے رہتے ہیں جیسے چچا دادا دادی چاچی اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ نابالغ بچوں سے پانی بھروا کر اسعتمال میں لانے کی تو والدین یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں جیسا کہ علامہ صد الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعا اس کی ملک ہو جائے، اسے پینا یا وضو یا غسل یا کسی کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے، اگر وضو کر لیا تو وضو ہو جائے گا اور گنہگار ہو گا، یہاں سے معلمین کو سبق لینا چاہیے کہ اکثر وہ نابالغ بچوں سے پانی بھروا کر اپنے کام میں لایا کرتے ہیں۔(بہار شریعت ح۲پانی کا بیان)
اگرچہ پانی یمارے یہاں سستا ہے مگر در اصل یہ مال ہے اس لئے دوسروں کے نابالغ بچے خواہ طلبہ ہوں یا طالبات، ان کاکوئیں یا نل سے بھرا ہوا پانی بلا معاوضہ مدرس اور مصلی حضرات کو وضو، غسل اور طہارت وغیرہ کسی کام میں لانا جائز نہیں۔
بہار شریعت میں ہے
بعض لوگ دوسرے کے بچہ سے پانی بھروا کر پیتے یا وضو کرتے ہیں یا دوسری طرح استعمال کرتے ہیں یہ ناجائز ہے(بہار شریعت، ج:1 ، ص: 82، مکتبۃالمدینہ)
اور در مختار مع شامی میں ہے
لا تصح هبة صغير. (الدر المختار و رد المحتار، ج: 5، ص: 687، دار الفكر، بيروت)
البتہ اپنے نابالغ لڑکے یا دوسرے کے بالغ لڑکا لڑکی کا بھرا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے (ماخوذ از فتاویٰ فیض الرسول، ج:1، ص:164)
ہینڈ پائپ دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ذاتی کسی کی ملک جس میں یہ اجازت نہیں ہوتی کہ جس کا جی چاہے پانی بھر کے لےجائے۔ دوسرے وہ جو بازاروں اور مساجد وغیرہ میں لگے ہوئے ہیں جس میں اذن عام ہوتا ہے جس کا جی چاہے پانی بھرے۔ اس دوسرے قسم کے ہینڈ پائپ سے اگر نابالغ بچہ پانی بھرے گا اور کسی برتن میں جمع کر لے گا تو وہ اس کی ملک ہو جائے گا۔ اس پانی کو وہ والدین کے علاوہ کسی کو بلا قیمت نہیں دے سکتا۔ بھرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ پانی برتن میں جمع کر دے اور اگر وہ ہینڈ پائپ چلا رہا ہے اور دوسرے نے اپنے برتن میں لے لیا تو وہ نابالغ کی ملک نہ ہوا۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج ۵،(فتاوی شارح بخاری)
حاصل کلام یہ ہے کہ فیملی میں نابالغ بچے سے چھوٹے موتے کام کروانے میں حرج نہیں ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
19/08/2023
19/08/2023