اہل حَمص کی چارشکایات
_________(❤️)_________
پورا واقعہ پڑھ کر ایمان تازہ کیجئے
حضرت سید نا خالد بن معدان علیہ رحمۃ اللہ المنَّا ن فرماتے ہیں :’’حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا سعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حمص کا عامل مقرر فرمایا پھر جب حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص تشریف لے گئے تو آپ نے اہل حمص سے دریافت فرمایا:’’تم نے اپنے عامل کو کیسا پایا؟‘‘تو انہوں نے حضرت سید نا سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف شکایات کیں۔ (گورنروں اور عاملوں کی بکثرت شکایات کرنے کی وجہ سے حمص کو کوفۂ صغرٰی کہاجاتاہے) انہوں نے حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی:
ہمیں اپنےامیرسے چار شکایات ہیں
(۱) یہ ہمارے پاس دن چڑھے بہت دیر سے تشریف لاتے ہیں
(۲) یہ رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔
(۳)مہینے میں ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ اس دن یہ ہمارے پاس تشریف ہی نہیں لاتے۔
(۴) کبھی کبھی ان پر بہت زیادہ رنج و غم کی کیفیت طا ر ی ہو جاتی ہے اور یہ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا سعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور تمام لوگوں کو جمع کیا،پھر دعا فرمائی : ’’ اے میرے پروردگار عزوجل ! آج اس معاملے میں میرے فیصلے کو کمزور نہ کرنا(یعنی مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمانا)۔‘‘پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:’’تمہیں ان کے بارے میں کیا شکایات ہیں ؟‘‘ لوگوں نے عرض کی: ’’یہ ہمارے پاس دن چڑ ھے بہت دیر سے تشریف لاتے ہیں۔‘‘ حضرت سیدنا سعید بن حذیم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جب یہ شکایت سنی تو ارشاد فرمایا:’’مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں کیوں دیر سے آتا ہوں ، خدا عزوجل کی قسم! میرے پاس کوئی خادم نہیں ،میں خود آٹا پیستا ہوں ،پھر اسے گوندھ کر روٹی پکاتا ہوں ، اس کے بعد وضو کر کے ان کے پاس آ جاتا ہوں۔ میرے دیر سے آنے کی یہی وجہ ہے۔‘‘ حضرت سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے لوگوں سے پوچھا :’’اور کیا شکایت ہے ؟‘‘کہنے لگے:’’ یہ رات کو ہمارے مسائل نہیں سنتے ۔‘‘حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:’’ اے سعید! تمہارے پاس اس شکایت کا کیا جواب ہے؟‘‘ انہوں نے کہا :’’میں نے دن مخلوق کے لئے خاص کررکھاہے اور رات کواپنے رب عزوجل کی عبادت میں مصروف ہوتا ہوں۔‘‘پھر انہوں نے تیسری شکایت کرتے ہوئے کہا:’’ ہر مہینے ایک دن ایسا بھی ہو تاہے کہ یہ ہمارے پاس تشریف ہی نہیں لاتے ۔‘‘ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’اے سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم کیا کہتے ہو؟‘‘ عرض کی:’’ حضور! میرے پاس کوئی خادم نہیں ، مہینے میں ایک مرتبہ میں اپنے کپڑے دھوتا ہوں۔میرے پاس کوئی دوسرا لباس نہیں ہوتا جسے پہن کر ان کے پاس آؤں ۔ پھر جب و ہ کپڑے سوکھ جاتے ہیں تو انہیں پہن کر ان کے پا س آ جاتا ہوں۔‘‘چوتھی شکایت کرتے ہوئے وہ لوگ کہنے لگے:’’انہیں کبھی کبھی شدید دورہ پڑتاہے او ر یہ بیہوش ہو جاتے ہیں حضرت سید ناعمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:’’اے سعید رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اس شکایت کاجواب دو۔‘‘آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’اسلام کی دولت حاصل ہونے سے پہلے میں نے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ایک صحابی حضرت سیدنا خبیب الانصاری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کوایک میدان میں دیکھا تھا جنہیں کفارِ قریش نے کھجور کے درخت سے باندھ رکھا تھا اور تیروں سے ان کا جسم چھلنی کر رہے تھے،میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا۔ پھر قریش ان سے پوچھنے لگے :’’کیا توا س بات کو پسند کرتاہے کہ تیری جگہ محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کویہ سزا دی جائے ؟‘‘یہ سن کر ان صحابی ٔرسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:’’خدا عزوجل کی قسم! میں تو اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ میں گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہوں اور میر ے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو کوئی کانٹا بھی چبھے، میرے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر میری ہزاروں جانیں قربان:
ترے نام پر سر کو قربان کر کے ترے سر سے صدقے اتارا کروں میں
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں ترے نام پر سب کو وارا کروں میں
(سامانِ بخشش)
اس کے بعد اس صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا، اور یامحمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) یامحمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کی صدائیں بلند کیں۔ افسوس ! وہا ں ہوتے ہوئے بھی میں ان کی کچھ مدد نہ کر سکا (کیونکہ آپ اس وقت مسلمان نہ تھے)شاید میرا یہ گناہ کبھی بھی معاف نہ کیاجائے۔ بس یہ خیال آتے ہی میری حالت خراب ہوجاتی ہے،اور مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔‘‘ حضر ت سید نا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ اس نے میری فراست کو ضائع نہیں کیا اور مجھے ایسی عظیم ہستیاں عطا فرمائیں۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہزار دینار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرلینا ۔‘‘جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دینار دیکھے، تو کہنے لگی :’’اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں غنی کر دیا۔‘‘ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:’’ہمارے لئے زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ ہم یہ تمام دولت ان لوگوں کودے دیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں ، کیاتو اس بات پر راضی ہے ؟‘‘وہ صبر وش کر کی پیکر بولی :’’ میں راضی ہوں۔‘‘ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام دینار تھیلیوں میں بھرے اور اپنے گھر کے سب سے امین شخص کو بلایا اور فرمایا:’’ یہ تھیلی فلاں خاندان کی بیواؤں کودے دو،یہ فلاں خاندان کے یتیم کو،یہ فلاں خاندان کے مسکین کو اور یہ فلاں خاندان کے حاجت مند کودے دو۔‘‘ اس طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری رقم تقسیم فرمادی صرف کچھ دینار باقی بچے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر تشریف لائے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے پوچھا:’’کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مار ے لئے غلام نہیں خریدیں گے ؟جو مال بچا ہے اس سے غلام خرید لینا چاہئے۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’اگر ہم سے زیادہ کوئی محتاج آ گیا تو ہم یہ مال اس کو دے دیں گے۔
{اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو۔اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم}
_________(❤️)_________
کتبہ:- محمد مفید عالم قادری صمدی
اتردیناجپور ویسٹ بنگال۔