Type Here to Get Search Results !

راستے میں اگر پیسے مل جائے تو اسے خود استعمال کر سکتے ہیں؟

 (سوال نمبر 7019)
راستے میں اگر پیسے مل جائے تو اسے خود استعمال کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ راستے میں اگر کوئی چیز یا پھر پیسہ وغیرہ مل جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے کیا اسے اپنے استعمال میں لاسکتے ہے؟ بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں شکریہ جزاک اللہ خیرا 
سائل:- محمد آصف رضا مہاراشٹر ناسک انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل 

ایسی لاوارث پڑیں ہوئی چیز کو لقطہ کہتے ہیں۔
لقطہ پڑی ہوئی چیز فی الحال جس کا کوئی مالک نظر نہ ائے اگر ہلکی پھلکی چیز ہے جیسے کاغذ قلم یا بسکٹ کھانے پینے والی چیز تو اسے استعمال کر سکتے ہیں رہی مہگی چیز تو اسے خود استعمال نہیں کرسکتے مذکورہ صورت میں زید پر لازم ہے کہ بازاروں شارعِ عام اور لوگوں کے مجمعوں وغیرہ میں اتنے دنوں تک اعلان کرے کہ  غالب گمان  ہو جائے کہ اب اس کا  مالک اسے  تلاش  نہ کرتا ہو گا۔ فقۂ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب 
عالمگیری میں ہے 
ملتقط گری پڑی چیز اٹھانے والے پر بازاروں اور شارعِ عام ميں اتنے زمانے  تک تشہیر لازم ہے کہ ظنِّ غالب ہو جائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اُسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر صدقہ کردے۔یاد رہے کہ مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں بھی صَرف ہوسکتاہے
اور اٹھانے والافقیر ہے تو مذکورہ مدت تک اعلان کے بعدخوداپنے استعمال میں بھی لا سکتا ہے
اگر صدقہ کرنے کے بعد یا فقیر اپنے استعمال میں لانے کے بعد اگر اس کا  مالک 
آجائے تواسے صدقے  کو جائز رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے  اگر جائز رکھے گا تو ثواب پائے گا اور جائز  نہ رکھے  تو اگر وہ چیزموجود ہے اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہو تو اسے اختیار ہے کہ ملتقط سے تاوان لے یا مسکین سے، جس سے بھی لے گا وہ دوسرے سے رجوع نہیں کرسکتا۔ یعنی مالک کے حوالے کرنا پڑے گا ۔
کما فی ملتقي الأبحر
وللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو  فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر۔ (ملتقي الأبحر ١/ ٥٢٩-٥٣١)
صاحب مرآة رحمة الله عليه فرماتے ہیں لقطہ پڑی ہوئی چیز اگر معمولی ہوجس کی تلاش مالک نہ کرے گا نہ اس کے مالک کو ڈھونا ضروری ہے نہ اس کے سنبھالنے اور اعلان کرنے کی ضرورت ہے بلکہ فورًا اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔لقطہ کی احادیث قیمتی چیز کے متعلق ہیں (المرات ج 3ص 49 مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09_08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area