(سوال نمبر 7050)
کتاب و سنت میں کوئی ایسی قطعی صراحت موجود نہیں کہ زمین ساکن ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کتاب و سنت میں کوئی ایسی قطعی صراحت موجود نہیں کہ زمین ساکن ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ قطع نظر سائنسی دلائل کے, کیا ھمارے پاس زمین کے ساکن ھونے پر قرآن, حدیث,اقوالِ صحابہ و بزرگانِ دین سے مضبوط دلائل موجود ہیں؟
اگر ہیں تو جواب میں تمام وہ دلائل ارشاد فرما دیں جو ایک مسلمان کو بحیثیتِ مسلمان بتلائیں تو وہ مان جاۓ کہ زمین ساکن ھے۔۔۔۔ یقینًا اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ نے اس موضوع پر دو رسالے تحریری فرماۓ ایک سائنسی دلائل اور دوسرا مسلمانوں کی تسکین کیلۓ لیکن بجاۓ اس کے کہ ھم خود پڑھیں اور کچھ سمجھ بھی نہ سکیں ,کیوں نہ ھم اُن علماء سے پوچھیں جنہوں نے یہ کتابیں پڑھ رکھی ہیں تاکہ وہ ھمیں عام فہم انداز میں سمجھا سکیں بے شک اعلیٰ حضرت کو سمجھنا غیر عالِم کے بس میں کہاں!!! اسی لیۓ آپ کی بارگاہ میں سوال عرض کیا تاکہ آپ قرآن و حدیث و اقوالِ صحابہ و بزرگانِ دین سے دلائل عطا فرمائیں اس پر کہ زمین ساکن ہے
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ راولپنڈی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
زمین ساکن یا متحرک اس میں علماء کے مابین اختلاف ہے اور یہ مسئلہ عقائد میں سے نہیں جسے جاننا ضروری ہو ستارے سورج چاند گردش میں ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ہاں اعلی حضرت کا قول یہی ہے کہ زمین ساکن ہے پر دیگر اکابرین فرماتے ہیں سورج چاند ستارے کی طرح اپنی محور میں زمین بھی متحرک ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
جس نے تمہارے نفع حاصل کرنے کے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرہ : ٢٢)
زمین کا گول ہونا اور اس کا گردش کرنا اس کے فرش ہونے کے منافی نہیں ہے
پانی کی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مٹی کے اوپر ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین کے بعض حصوں کو پانی سے الگ کردیا اور زمین کو سختی اور نرمی کے درمیان متوسط رکھا تاکہ وہ فرش کی طرح ہوجائے اور لوگوں کا اس پر بیٹھنا اور لیٹنا ممکن ہو اور زمین کا فرش ہونا اس کے گول ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ جو بہت عظیم اور جسیم کرہ ہو وہ بہ ظاہر ایک مسطح جسم معلوم ہوتا ہے اسی طرح زمین کا گردش کرنا بھی اس کے فرش ہونے کے خلاف نہیں ہے جیسے لوگ بحری جہاز میں سفر کرتے ہیں جہاز حرکت کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس پر بستر بچھا کر سوجاتے ہیں قرآن مجید میں ہے
ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا (الفاطر ٤١)
اگر ہیں تو جواب میں تمام وہ دلائل ارشاد فرما دیں جو ایک مسلمان کو بحیثیتِ مسلمان بتلائیں تو وہ مان جاۓ کہ زمین ساکن ھے۔۔۔۔ یقینًا اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ نے اس موضوع پر دو رسالے تحریری فرماۓ ایک سائنسی دلائل اور دوسرا مسلمانوں کی تسکین کیلۓ لیکن بجاۓ اس کے کہ ھم خود پڑھیں اور کچھ سمجھ بھی نہ سکیں ,کیوں نہ ھم اُن علماء سے پوچھیں جنہوں نے یہ کتابیں پڑھ رکھی ہیں تاکہ وہ ھمیں عام فہم انداز میں سمجھا سکیں بے شک اعلیٰ حضرت کو سمجھنا غیر عالِم کے بس میں کہاں!!! اسی لیۓ آپ کی بارگاہ میں سوال عرض کیا تاکہ آپ قرآن و حدیث و اقوالِ صحابہ و بزرگانِ دین سے دلائل عطا فرمائیں اس پر کہ زمین ساکن ہے
سائل:- محمد عمر عبد المصطفیٰ راولپنڈی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
زمین ساکن یا متحرک اس میں علماء کے مابین اختلاف ہے اور یہ مسئلہ عقائد میں سے نہیں جسے جاننا ضروری ہو ستارے سورج چاند گردش میں ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ہاں اعلی حضرت کا قول یہی ہے کہ زمین ساکن ہے پر دیگر اکابرین فرماتے ہیں سورج چاند ستارے کی طرح اپنی محور میں زمین بھی متحرک ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
جس نے تمہارے نفع حاصل کرنے کے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرہ : ٢٢)
زمین کا گول ہونا اور اس کا گردش کرنا اس کے فرش ہونے کے منافی نہیں ہے
پانی کی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مٹی کے اوپر ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین کے بعض حصوں کو پانی سے الگ کردیا اور زمین کو سختی اور نرمی کے درمیان متوسط رکھا تاکہ وہ فرش کی طرح ہوجائے اور لوگوں کا اس پر بیٹھنا اور لیٹنا ممکن ہو اور زمین کا فرش ہونا اس کے گول ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ جو بہت عظیم اور جسیم کرہ ہو وہ بہ ظاہر ایک مسطح جسم معلوم ہوتا ہے اسی طرح زمین کا گردش کرنا بھی اس کے فرش ہونے کے خلاف نہیں ہے جیسے لوگ بحری جہاز میں سفر کرتے ہیں جہاز حرکت کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس پر بستر بچھا کر سوجاتے ہیں قرآن مجید میں ہے
ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا (الفاطر ٤١)
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ (محور) سے ہٹنے سے روکتا ہے۔
بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مطلب نکالا ہے کہ زمین ساکن ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو روکا ہوا ہے اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اپنے محور پر گردش کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے محور سے ہٹنے نہیں دیتا اب جبکہ سائنٹفک طریقہ سے زمین کی گردش ثابت ہوچکی ہے تو علم اور سائنس کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر کرنے سے خدشہ ہے کہ سائنس کے طلباء اور ماہرین قرآن مجید کا انکار کردیں اور اس ترقی یافتہ دور میں پرانی لکیروں کو پیٹتے رہنے میں دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
آسمان کیا ہے ؟ اس کی حقیقت ہمیں معلوم ‘ سانئس دان ابھی چاند تک ہی پہنچ پائے ہیں چاند زمین سے پونے دو لاکھ میل کی مسافت پر ہے آسمان تو چاند سورج اور سیاروں سے بہت دور ہے قدیم یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ چاند پہلے آسمان میں مرکوز ہے لیکن تحقیق اور مشاہدہ سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے قرآن مجید نے آسمان کی حقیقت اور ماہیت کے متعلق کوئی چیز انہیں بتائی اور نہی یہ قرآن کا موضوع ہے قرآن مجید عقائد اور اعمال کی اصلاح کے لیے رشد و ہدایت کی کتاب ہے اشیاء کی حقیقت اور ماہیت اور اس کے طبعی خواص بیان کرنا قرآن مجید کا موضوع نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور آسمان سے پانی نازل کیا اور پانی سے تمہارے رزق کے لیے کچھ پھل پیدا کئے۔ (البقرہ : ٢٢) تفسیر تبیان القران سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 21)
الله کا فرمان ہے
اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ زمین تمہارے ساتھ (ایک طرف) جھک نہ جائے اور اس نے دریا اور راستے بنائے تاکہ تم سفر کرسکو۔
بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مطلب نکالا ہے کہ زمین ساکن ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو روکا ہوا ہے اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اپنے محور پر گردش کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے محور سے ہٹنے نہیں دیتا اب جبکہ سائنٹفک طریقہ سے زمین کی گردش ثابت ہوچکی ہے تو علم اور سائنس کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر کرنے سے خدشہ ہے کہ سائنس کے طلباء اور ماہرین قرآن مجید کا انکار کردیں اور اس ترقی یافتہ دور میں پرانی لکیروں کو پیٹتے رہنے میں دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
آسمان کیا ہے ؟ اس کی حقیقت ہمیں معلوم ‘ سانئس دان ابھی چاند تک ہی پہنچ پائے ہیں چاند زمین سے پونے دو لاکھ میل کی مسافت پر ہے آسمان تو چاند سورج اور سیاروں سے بہت دور ہے قدیم یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ چاند پہلے آسمان میں مرکوز ہے لیکن تحقیق اور مشاہدہ سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے قرآن مجید نے آسمان کی حقیقت اور ماہیت کے متعلق کوئی چیز انہیں بتائی اور نہی یہ قرآن کا موضوع ہے قرآن مجید عقائد اور اعمال کی اصلاح کے لیے رشد و ہدایت کی کتاب ہے اشیاء کی حقیقت اور ماہیت اور اس کے طبعی خواص بیان کرنا قرآن مجید کا موضوع نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور آسمان سے پانی نازل کیا اور پانی سے تمہارے رزق کے لیے کچھ پھل پیدا کئے۔ (البقرہ : ٢٢) تفسیر تبیان القران سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 21)
الله کا فرمان ہے
اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ زمین تمہارے ساتھ (ایک طرف) جھک نہ جائے اور اس نے دریا اور راستے بنائے تاکہ تم سفر کرسکو۔
(سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 15)
زمین چاند اور سورج کی حرکت کے حساب سے سائنس دان یہ متعین کرتے ہیں کہ چاند گرہن کب ہوگا اور سورج کو گرہن کب لگے گا اور ان کا حساب اس قدر صحیح ہوتا ہے کہ وہ کئی مئی مہینے اور بعض اوقات کئی کئی سال پہلے بتا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بج کر اتنے منٹ پر سورج یا چاند گرہن ہوگا اور اتنی دیر تک گرہن لگا رہے گا، اور فلاں ملک میں یہ گرہن اتنے وقت پر دکھائی دے گا اور فلاں ملک میں یہ گرہن اتنے وقت پر دکھائی گے گا، اور ان کا یہ حساب اتنا حتمی اور درست ہوتا ہے کہ آج تک اس میں ایک سکینڈ کا بھی فرق نہیں پڑا۔ سورج گرہن کا معنی ہے زمین اور سورج کے درمیان چاند کے حائل ہوجانے سے سورج کا جزوی یا کلی طور پر تاریک نظر آنا، عربی میں اس کو کسوف شمس کہتے ہیں۔ (اردو لغت ج 12، ص 155)
سائنس دان نہ جادوگر ہیں نہ غیب دان ہیں ان کی یہ پیش گوئی ان کے حساب پر مبنی ہے، وہ زمین، چاند اور سورج کی حرکات کا مکمل حساب رکھتے ہیں اور ان کی رفتار کا بھی صحیح حساب رکھتے ہیں، اس لیے ان کو معلوم ہوتا ہے کہ چاند کس تاریخ کو اور کس وقت زمین اور سورج کے درمیان حائل ہوگا اور کتنی دیر حائل رہے گا اور انہیں تمام دنیا کے نظام الاوقات کا بھی علم ہوتا ہے اس لیے وہ بہت پہلے اپنے حساب سے بتا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے سورج کو گرہن لگے گا اور اتنی دیر رہے گا، اسی طرح چاند گرہن کا معنی ہے کہ چاند اور سورج کے درمیان زمین حائل ہوجائے جس کی وجہ سے چاند جزوی یا کلی طور پر تاریک ہوجائے ابھی چند ہفتے پہلے چاند کو گرہن لگا اور پاکستان میں رات کو دس بجے چاند مکمل طور پر تاریک ہوگیا تھا، اور سائنس دانوں نے کافی پہلے بتادیا تھا کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے چاند گرہن لگے گا اور فلاں فلاں ملک میں اتنے اتنے بجے نظر آئے گا اور اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو زمین کی حرکت اور اس کی رفتار کا علم ہوتا ہے اور وہ اس حساب سے جان لیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے زمین چاند اور سورج کے درمیان حائل ہوجائے گا اور اتنی دیر تک حائل رہے گی، اور تدریجا حائل ہوگی اور کس وقت مکمل حائل ہوجائے گی۔ قدیم خیال کے علما جو زمین کو ساکن مانتے ہیں اور اس کی حرکت کے قائل نہیں ہیں اور وہ یہ نہیں مانتے کہ زمین اور چاند کی حرکت اور اس کی رفتار کا سائنس دان حساب رکھتے ہیں وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ سائنس دان ہفتوں اور مہینوں پہلے سورج اور چاند کے گرہن ہونے اور ان کے نظام لاوقات کی بالکل ٹھیک پیش گوئی کرتے ہیں اور آج تک ان کی پیش گوئی غلط نہیں ہوئی، کیا وہ سائنس دانوں کو جادوگر یا غیب داں گردانتے ہیں۔
اس دور میں سائنس کی جتنی ایجادات ہیں ہمارے علما ان سے استفادہ کرتے ہیں، گھڑیوں کے اوقات سے نماز پڑھاتے ہیں، مسجدوں اور گھروں میں بجلی کی روشنی اور برقی پنکھے لگواتے ہیں، ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں، لاؤڈ اسپیکر پر تقریریں کرتے ہیں اور نمازیں پڑھاتے ہیں، کاروں، ٹرینوں اور طیاروں میں سفر کرتے ہیں اس کے باوجودوہ سائنسی علوم کی مذمت کرتے ہیں
واضح رہے کہ سائنس کا علم کسی فکر اور نظریہ سے مستفاد نہیں ہوتا، سائنس کا علم مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل ہوتا ہے، یہ تمام ایجادات مشاہدہ اور تجربہ سے وجود میں آئی ہیں، اسی طرح زمین اور چاند کی حرکت اور ان کی رفتار کا تعین بھی انہوں نے رصد گاہوں میں مشاہدات اور آلات کے ذریعہ کیا ہے، قدیم فلسفہ کی طرح یہ صرف فکر اور نظریہ کا معاملہ نہیں ہے، قرآن مجید رشد و ہدیات کی کتاب ہے، فلسفہ اور سائنس کی کتاب نہیں ہے، قرآن کریم نے اس سے بحث نہیں کی کہ زمین ساکن ہے یا متحرک ہے کیونکہ دنیا میں صالح حیات اور خروی فلاح کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے یا حرکت نہیں کرتی، اس لیے علما کو چاہیے کہ زمین کی حرکت اور سکون کو دین اور اعتقاد کا مسئلہ نہ بنائیں۔ بعض قدیم الخیال علما یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ قرآن اور حدیث میں ہے کہ زمین ساکن ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں اور ترقی یافتہ اقوام پر اس سے اسلام کے متعلق منفی اثر پڑتا ہے، ایسا کہنا کوئی اسلام کی خدمت اور دین کی تبلیغ نہیں ہے بلکہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا ذریعہ ہے اور دوسری اقوام کو اسلام پر ہنسنے کا موقع فراہم کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے، بہرحال اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ وہ اپنے مدار سے ادھر ادھر نہ ہو، یہ آیت زمین کی گردش کے منافی نہیں ہے اور نہ زمین کے سکون کو مستلزم ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
١/ زمین اگر متحرک ہوتی تو ہمیں حرکت کرتی معلوم ہوتی اور پانی تو زمین سے بھی لطیف تر ہے تو اس کے اجزاء میں تلاطم و اضطراب اور سخت ہوتا۔
٢/ آدمی جب تیز ہوا میں اس کے سامنے آئے گا تو ہوا کو اپنی مدافعت کرتا پائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
٣/ بھاری پتھر اوپر پھینکیں سیدھا وہیں گرتا ہے اگر زمین مشرق کو متحرک ہو تو وہ مغرب میں گرتا کہ جتنی دیر پتھر اوپر گیا اور آیا اتنی دیر میں وہ زمین کی حرکت کے سبب مشرق کو چلی گئی۔ تو ماننا پڑے گا کہ زمین متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔
زمین چاند اور سورج کی حرکت کے حساب سے سائنس دان یہ متعین کرتے ہیں کہ چاند گرہن کب ہوگا اور سورج کو گرہن کب لگے گا اور ان کا حساب اس قدر صحیح ہوتا ہے کہ وہ کئی مئی مہینے اور بعض اوقات کئی کئی سال پہلے بتا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بج کر اتنے منٹ پر سورج یا چاند گرہن ہوگا اور اتنی دیر تک گرہن لگا رہے گا، اور فلاں ملک میں یہ گرہن اتنے وقت پر دکھائی دے گا اور فلاں ملک میں یہ گرہن اتنے وقت پر دکھائی گے گا، اور ان کا یہ حساب اتنا حتمی اور درست ہوتا ہے کہ آج تک اس میں ایک سکینڈ کا بھی فرق نہیں پڑا۔ سورج گرہن کا معنی ہے زمین اور سورج کے درمیان چاند کے حائل ہوجانے سے سورج کا جزوی یا کلی طور پر تاریک نظر آنا، عربی میں اس کو کسوف شمس کہتے ہیں۔ (اردو لغت ج 12، ص 155)
سائنس دان نہ جادوگر ہیں نہ غیب دان ہیں ان کی یہ پیش گوئی ان کے حساب پر مبنی ہے، وہ زمین، چاند اور سورج کی حرکات کا مکمل حساب رکھتے ہیں اور ان کی رفتار کا بھی صحیح حساب رکھتے ہیں، اس لیے ان کو معلوم ہوتا ہے کہ چاند کس تاریخ کو اور کس وقت زمین اور سورج کے درمیان حائل ہوگا اور کتنی دیر حائل رہے گا اور انہیں تمام دنیا کے نظام الاوقات کا بھی علم ہوتا ہے اس لیے وہ بہت پہلے اپنے حساب سے بتا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے سورج کو گرہن لگے گا اور اتنی دیر رہے گا، اسی طرح چاند گرہن کا معنی ہے کہ چاند اور سورج کے درمیان زمین حائل ہوجائے جس کی وجہ سے چاند جزوی یا کلی طور پر تاریک ہوجائے ابھی چند ہفتے پہلے چاند کو گرہن لگا اور پاکستان میں رات کو دس بجے چاند مکمل طور پر تاریک ہوگیا تھا، اور سائنس دانوں نے کافی پہلے بتادیا تھا کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے چاند گرہن لگے گا اور فلاں فلاں ملک میں اتنے اتنے بجے نظر آئے گا اور اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو زمین کی حرکت اور اس کی رفتار کا علم ہوتا ہے اور وہ اس حساب سے جان لیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے زمین چاند اور سورج کے درمیان حائل ہوجائے گا اور اتنی دیر تک حائل رہے گی، اور تدریجا حائل ہوگی اور کس وقت مکمل حائل ہوجائے گی۔ قدیم خیال کے علما جو زمین کو ساکن مانتے ہیں اور اس کی حرکت کے قائل نہیں ہیں اور وہ یہ نہیں مانتے کہ زمین اور چاند کی حرکت اور اس کی رفتار کا سائنس دان حساب رکھتے ہیں وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ سائنس دان ہفتوں اور مہینوں پہلے سورج اور چاند کے گرہن ہونے اور ان کے نظام لاوقات کی بالکل ٹھیک پیش گوئی کرتے ہیں اور آج تک ان کی پیش گوئی غلط نہیں ہوئی، کیا وہ سائنس دانوں کو جادوگر یا غیب داں گردانتے ہیں۔
اس دور میں سائنس کی جتنی ایجادات ہیں ہمارے علما ان سے استفادہ کرتے ہیں، گھڑیوں کے اوقات سے نماز پڑھاتے ہیں، مسجدوں اور گھروں میں بجلی کی روشنی اور برقی پنکھے لگواتے ہیں، ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں، لاؤڈ اسپیکر پر تقریریں کرتے ہیں اور نمازیں پڑھاتے ہیں، کاروں، ٹرینوں اور طیاروں میں سفر کرتے ہیں اس کے باوجودوہ سائنسی علوم کی مذمت کرتے ہیں
واضح رہے کہ سائنس کا علم کسی فکر اور نظریہ سے مستفاد نہیں ہوتا، سائنس کا علم مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل ہوتا ہے، یہ تمام ایجادات مشاہدہ اور تجربہ سے وجود میں آئی ہیں، اسی طرح زمین اور چاند کی حرکت اور ان کی رفتار کا تعین بھی انہوں نے رصد گاہوں میں مشاہدات اور آلات کے ذریعہ کیا ہے، قدیم فلسفہ کی طرح یہ صرف فکر اور نظریہ کا معاملہ نہیں ہے، قرآن مجید رشد و ہدیات کی کتاب ہے، فلسفہ اور سائنس کی کتاب نہیں ہے، قرآن کریم نے اس سے بحث نہیں کی کہ زمین ساکن ہے یا متحرک ہے کیونکہ دنیا میں صالح حیات اور خروی فلاح کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے یا حرکت نہیں کرتی، اس لیے علما کو چاہیے کہ زمین کی حرکت اور سکون کو دین اور اعتقاد کا مسئلہ نہ بنائیں۔ بعض قدیم الخیال علما یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ قرآن اور حدیث میں ہے کہ زمین ساکن ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں اور ترقی یافتہ اقوام پر اس سے اسلام کے متعلق منفی اثر پڑتا ہے، ایسا کہنا کوئی اسلام کی خدمت اور دین کی تبلیغ نہیں ہے بلکہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا ذریعہ ہے اور دوسری اقوام کو اسلام پر ہنسنے کا موقع فراہم کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے، بہرحال اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ وہ اپنے مدار سے ادھر ادھر نہ ہو، یہ آیت زمین کی گردش کے منافی نہیں ہے اور نہ زمین کے سکون کو مستلزم ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
١/ زمین اگر متحرک ہوتی تو ہمیں حرکت کرتی معلوم ہوتی اور پانی تو زمین سے بھی لطیف تر ہے تو اس کے اجزاء میں تلاطم و اضطراب اور سخت ہوتا۔
٢/ آدمی جب تیز ہوا میں اس کے سامنے آئے گا تو ہوا کو اپنی مدافعت کرتا پائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
٣/ بھاری پتھر اوپر پھینکیں سیدھا وہیں گرتا ہے اگر زمین مشرق کو متحرک ہو تو وہ مغرب میں گرتا کہ جتنی دیر پتھر اوپر گیا اور آیا اتنی دیر میں وہ زمین کی حرکت کے سبب مشرق کو چلی گئی۔ تو ماننا پڑے گا کہ زمین متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔
(سلسلہ رسائل فتاویٰ رضویہ،ج۲۷)
میرا موقف یہی ہے جس طرح باقی سیارے اپنی محور میں گردش پزیر ہیں اسی طرح زمیں بھی اپنی محور میں متحرک ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
میرا موقف یہی ہے جس طرح باقی سیارے اپنی محور میں گردش پزیر ہیں اسی طرح زمیں بھی اپنی محور میں متحرک ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
13/08/2023