(سوال نمبر 270)
مفقود الزوج کے آنے کے بعد بیوی شوہر اول کی طرف لوٹ جائےگی یا شوہر ثانی کا نکاح برقرار رہے گا ؟
.....................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل میں کہ وہ شوہر اول جو مفقود الخبر ہے، کہ عورت نے اس کا استغاثہ ایک سنی صحیح العقیدہ قاضی شرع کی بارگاہ میں پیش کیا۔ پھر قاضی صاحب فقہ مالکی پر فتوی صادر فرماتے ہوے چار سال کے بعد، مفقود شوہر کے بابت موت کا حکم قرار دے دیا ۔پھر بعد عدت موت شوہر
عورت نے اپنا نکاح کسی دوسرے سنی صحیح العقیدہ سے کرلیا ۔
لیکن اب اس صورت میں اگر کبھی شوہر اول ہی واپس آجاۓ اور اس عورت سے اپنے نکاح کا دعویٰ کرے۔ تو اس صورت میں عورت کے بابت کیا حکم شرع ہے آیا وہ شوہر اول کی طرف لوٹ جائےگی یا شوہر ثانی کا نکاح برقرار رہے گا ۔واضح رہے شوہر کو مفقود ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔
المستفتی:- محمد رحمت قادری قنوجی انڈیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں بشرط صحت سوال اگر شوہر واقعی عر صہ دس سال سے لا پتہ تھا اوراس کی زندگی اور موت کےبارے میں اس کے ورثاء اور اقرباء کو بھی کچھ علم نہیں، تو پھر عورت بعد یاس و ناامیدی کے اپنا دوسرا نکاح کےلیے کی شرعا مجاز و مختار ہے اب اس صورت میں قاضی شرع کے فیصلے پر دوسری شادی کر لی جیسا کہ موطا امام مالک میں ہے ۔
عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل.
(موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا وسبل السلام ج3ص207،208ونیل الاوطار.)
جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔
یاد رہے کہ اور یہ چار سال کی مدت اس روز سےشمار ہوگی جس دن سے اس نے قاضی شرع کے پاس مقدمہ پیش کیا اور قاضی شرع نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے ہندہ نے ایسا ہی کیا پھر مفقود الزوج واپس اگئے اب مفقود الزوج کے آنے کے بعد ہندہ کا نکاح شوہر اول سے قائم اور بالیقین باقی ہے اس صورت میں شوہر ثانی کا نکاح خود بخود باطل ہوگیا اس لئے ضروری ہوگا کہ شوہر ثانی سے فی الفور الگ ہوجائے، اور اگر ہندہ کا شوہر ثانی کے ساتھ رخصتی بھی ہوگئی تھی اب شوہر اول کو اپنی بیوی سے ہمبستری اس وقت تک جائز نہیں جب تک ہندہ شوہر ثانی کی عدت پوری نہ کرلے ۔
کما فی المبسوط للسرخسی
وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس"
(المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
والله ورسوله اعلم بالصواب
مفقود الزوج کے آنے کے بعد بیوی شوہر اول کی طرف لوٹ جائےگی یا شوہر ثانی کا نکاح برقرار رہے گا ؟
.....................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل میں کہ وہ شوہر اول جو مفقود الخبر ہے، کہ عورت نے اس کا استغاثہ ایک سنی صحیح العقیدہ قاضی شرع کی بارگاہ میں پیش کیا۔ پھر قاضی صاحب فقہ مالکی پر فتوی صادر فرماتے ہوے چار سال کے بعد، مفقود شوہر کے بابت موت کا حکم قرار دے دیا ۔پھر بعد عدت موت شوہر
عورت نے اپنا نکاح کسی دوسرے سنی صحیح العقیدہ سے کرلیا ۔
لیکن اب اس صورت میں اگر کبھی شوہر اول ہی واپس آجاۓ اور اس عورت سے اپنے نکاح کا دعویٰ کرے۔ تو اس صورت میں عورت کے بابت کیا حکم شرع ہے آیا وہ شوہر اول کی طرف لوٹ جائےگی یا شوہر ثانی کا نکاح برقرار رہے گا ۔واضح رہے شوہر کو مفقود ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔
المستفتی:- محمد رحمت قادری قنوجی انڈیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں بشرط صحت سوال اگر شوہر واقعی عر صہ دس سال سے لا پتہ تھا اوراس کی زندگی اور موت کےبارے میں اس کے ورثاء اور اقرباء کو بھی کچھ علم نہیں، تو پھر عورت بعد یاس و ناامیدی کے اپنا دوسرا نکاح کےلیے کی شرعا مجاز و مختار ہے اب اس صورت میں قاضی شرع کے فیصلے پر دوسری شادی کر لی جیسا کہ موطا امام مالک میں ہے ۔
عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل.
(موطا باب عدة التی تفتقد زوجھا وسبل السلام ج3ص207،208ونیل الاوطار.)
جناب سعید بن مسیب تابعی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کو گم پائے اور اس کا کوئی پتہ نشان نہ ملے تو اس کو چاہیے کہ چار سال تک اس کا انتظار کرے بعد ازاں چار ماہ دس دن عدت وفات میں بیٹھے ،پھر نکاح کرالے ۔
یاد رہے کہ اور یہ چار سال کی مدت اس روز سےشمار ہوگی جس دن سے اس نے قاضی شرع کے پاس مقدمہ پیش کیا اور قاضی شرع نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدت وفات گزارے ہندہ نے ایسا ہی کیا پھر مفقود الزوج واپس اگئے اب مفقود الزوج کے آنے کے بعد ہندہ کا نکاح شوہر اول سے قائم اور بالیقین باقی ہے اس صورت میں شوہر ثانی کا نکاح خود بخود باطل ہوگیا اس لئے ضروری ہوگا کہ شوہر ثانی سے فی الفور الگ ہوجائے، اور اگر ہندہ کا شوہر ثانی کے ساتھ رخصتی بھی ہوگئی تھی اب شوہر اول کو اپنی بیوی سے ہمبستری اس وقت تک جائز نہیں جب تک ہندہ شوہر ثانی کی عدت پوری نہ کرلے ۔
کما فی المبسوط للسرخسی
وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس"
(المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/12/2020