Type Here to Get Search Results !

نکاح شغار کیا ہے؟

 (سوال نمبر 7014)
نکاح شغار کیا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللهِ وبرکاتہ 
کیا فرماتےہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نکاح شغار کیا ہے؟ نکاح شغار جائز کی شرعی حکم کیا ہے ؟تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سائل:- ابو رضا پاکستان دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن
_________(👇)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل 

نکاح شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اسے کرکے دےگا اور ان کے درمیان مہر مقرر نہ کیا جائے یعنی دونوں عورتوں کو ایک دوسری کا مہر تصورکیا جائے یہ نکاح درست ہے پر ایسا کرنا گناہ اور شرعا منع ہے ۔یہ شرط فاسد ہے مہر مثل دیا جائے گا۔
حدیث پاک میں ہے 
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشِّغَارِ(متفق عليه)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے۔  
واضح رہے کہ عقدِ نکاح میں اصل تو یہی ہے کہ یہ عورت کو دیے جانے والے حق مہر کے ساتھ پورا ہوتا ہے جو اس کے نفس کے عوض کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے جاہلیت کے اس نکاح سے منع فرمایا جس کے ذریعے اولیاء اپنے زیر پرورش اور زیر نگرانی موجود لڑکیوں پر ظلم کیا کرتے تھے بایں طور کہ وہ بغیر کسی ایسے مہر کے ان کا نکاح کر دیتے جس کا فائدہ انہیں پہنچتا۔ وہ تو اپنی رغبت اور خواہش کے تقاضے کے مطابق انہیں استعمال کرتے ہوئے اس شرط پر انہیں ان کے شوہروں کے حوالے کر دیتے کہ وہ اپنی زیر پرورش موجود لڑکیوں کا بغیر مہر کے ان کے ساتھ نکاح کر دیں گے۔ یہ ظلم ہے اور اللہ کے نازل کردہ حکم کے برخلاف ان کی شرمگاہوں میں تصرف ہے۔ 
فتاوی شامی میں ہے
(و وجب مهر المثل في الشغار) هو أن يزوجه بنته على أن يزوجه الآخر بنته أو أخته مثلا معاوضة بالعقدين وهو منهي عنه لخلوه عن المهر، فأوجبنا فيه مهر المثل فلم يبق شغارًا.
(قوله: في الشغار) بكسر الشين مصدر شاغر اهـ ح (قوله: هو أن يزوجه إلخ) قال في النهر: وهو أن يشاغر الرجل: أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقًا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال: زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك، فقبل أو على أن يكون بضع بنتي صداقًا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقًا لم يكن شغارًا بل نكاحًا صحيحًا اتفاقًا، وإن وجب مهر المثل في الكل.
(كتاب النكاح، مطلب نكاح الشغار، ج:3، ص:105، ط:ايج ايم سعيد)
مصنف صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
یعنی ہر نکاح دوسرے کا نکاح کا مہر ہو اس کے علاوہ اورکوئی مہر نہ ہو، اگر یہ نکاح آپس میں ایک دوسرے کا مہر نہ ہوں صرف نکاح بشرط نکاح ہو تو بالاتفاق جائز ہے جیسا پنجاب میں عام طور پر ہوتا ہے کہ آمنے سامنے رشتہ لیا جاتا ہے،لیکن اگر کسی نکاح کا مہر نہ ہو،ہر نکاح دوسرے نکاح کا مہر ہو تو ہمارے ہاں دونوں نکاح درست ہیں یہ شرط فاسد ہے ہر لڑکی کو مہر مثل ملے گا۔دور جاہلیت میں عرب میں
نکاح شغار ہوتا تھا اسلام نے اسے منع فرمادیا اگر یہ شرط درست رہتی تو شغار بنتا جب احناف نے اس شرط کو باطل قرار دیا اور ہر لڑکی کو مہر مثل دلوایا تو شغار نہ رہا،لہذا یہ حدیث احناف کے خلاف نہیں جیسے دیگر فاسد شروط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا بلکہ شرط فاسد ہوجاتی ہے ایسے ہی یہ نکاح بھی بالشرط ہے، جس میں نکاح درست اور شرط فاسد ہے جیسے کوئی شخص سوریا شراب کے عوض نکاح کرے تو نکاح درست ہے یہ شرط فاسد ہے مہر مثل دیا جائے گا۔
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
شغار یعنی ایک شخص نے اپنی لڑکی  یا بہن کا نکاح دوسرے سے کر دیا اور دوسرے نے اپنی لڑکی  یا بہن کا نکاح اس سے کردیا اور ہرایک کا مہر دوسرا نکاح ہے تو ایسا کرنا گناہ و منع ہے اورمہرِ مثل واجب ہوگا۔
(بہار ح ٧ص ٦٧ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
08/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area