Type Here to Get Search Results !

نذر منت عرفی کا انکار کرنا کیسا ہے؟

(سوال نمبر 4188)
نذر منت عرفی کا انکار کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں 
کہ نظر نیاز تو اللہ کے لیے واجب ہے کہ غیر اللہ کے لیے نظر و نیاز ہو سکتی ہے اگر ہو سکتی ہے تو جو اس کا انکار کرے پھر اس کا کیا حکم ہے
سائل:- حافظ محمد عمران خان میاں والی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عزوجل 

بنیت عبادت نذر و منت صرف اللہ کے لئے جائز ہے باقی کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور یہ نص قطعی سے ثابت ہے 
سب سے بیتر یہ ہے کہ نفلی روزہ نفلی نماز اور فقراء کے لیے صدقہ کی منت مانی جائے یہی نذر شرعی ہے 
اب رہی بات مزار پر منت ماننے کی تو یہ نذر عرفی یے اگر کوئی اس کا انکار کرے یا نذر نہ مانے تو کوئی حرج نہیں ہے
 البتہ چونکہ شرعا منع نہیں ہے اس لئے حرام یا ناجائز نہیں کہ سکتے 
نذر عرفی جیسے کسی بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے  کی منّت کوئی شَرْعی منّت نہیں کہ اس کی جنس سےکوئی واجبِ شرعی نہیں لہٰذا اس کا پورا کرنا واجب نہیں،البتّہ بزرگانِ دین کے مزارات پر چادر ڈالنا بقصدِ تبرّک مستحسن و بہتر ہے۔
اسی طرح اگر کسی نے مزار پر منت مانی یا اللہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں ولی کے نام کا فاتحہ دلا کر ایصال ثواب کروں تو یہ بھی جائز ہے یہ نذر عرفی یے ۔
سورہ بقرہ میں اہلِ ایمان کے نذر ماننے کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے، ارشاد ہے
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ.
اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو یا تم جو مَنّت بھی مانو تو ﷲ اسے یقینا جانتا ہے، اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔(البقره، 2: 270)
منت (نذر) خالصتاً اللہ تعاليٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے جائز ہے۔ نذر میں عبادت، نیاز مندی، اور غایتِ تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں جو صرف اللہ تعاليٰ کا حق ہے، اس لئے شرعاً کسی رسول، نبی، ولی یا کسی بزرگ ہستی کے لیے نذر نہیں مانی جائے گی۔ جو لوگ اولیاء اللہ کے مزاروں پر صدقہ کی منت مانتے ہیں دراصل وہ صاحبِ مزار کے ایصالِ ثواب کے لیے اللہ کے حضور صدقہ کرتے ہیں جو زائرین میں تقسیم ہوتا ہے۔ اپنے کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات کا ثواب کسی دوسرے کا ایصال کرنا شرعاً جائز ہے۔ 
حدیث پاک میں ہے 
انَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ نَعَمْ.
ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں (بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 : 467، رقم : 1322)
واضح رہے کہ مزارات کی نسبت سے جو نذر مانی جاتی ہے اس میں نذر کا لفظ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے جسے نذر عرفی کہتےہیں ۔ماننے میں حرج نہیں نہ ماننے میں حرج نہیں ماننے پر پورا کرنا ضروری نہیں۔
حاشیہ بہار میں جد الممتار کے حوالے سے ہے 
لا یجوز النذر الفقہي لغیر اللّٰہ تعالی وما یقدّم إلی الأولیاء الکرام ویسمّی بالنذر لیس بنذر فقہي بل العرف جارٍ بأنّ ما یقدّم إلی حضرات الأکابر من الہدایا یسمّونہ بالنذر یقولون أقام الملک مجلسہ وقدّم الناس إلیہ النذور (بہار شریعت ح ١ص ٢٧٨ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area