Type Here to Get Search Results !

کسی خطیب کا خطابت سے قبل ہدیہ وصول کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 279)
(1) مسلم عورتوں کو ساڑی پہننا کیسا ہے ؟
(2) کسی خطیب کا خطابت سے قبل ہدیہ وصول کرنا کیسا ہے؟ 
(3) کیا خطابت کے عوض رقم متعین کرنا جائز ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرما تے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ ہمارے آبائی وطن میں (ہندو)(مسلم)۹۰ فیصد عورتیں ساڑی پہنتی ہیں جس سے پیٹھ اور پیٹ کا بیشتر حصہ کھلا رہ جا تا ہے ہمارے علاقے میں دینی اسلامی مجالس دین وسنت کی تبلیغ واشاعت کیلیے منعقد ہوتی ہیں جسمیں مقررین کو مدعو کیا جاتا ھے  
 تو مقررین ہدیہ کے نام پر ۲۵۰۰ ،ہزار ۵۰۰۰ ہزار طلب کرتے ہیں
 اور کہتے ہیں کہ ادھا ایڈ وانس A,c میں بھیج دو
 اور باقی تقریر کے بعد دےدینا!
ایسے مقررین کے تعلق سے کیا فرما تے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ ایسے مقررین کی تقریر سننا اور ان کا جبرا ہدیہ طے کرنا کیسا؟
 از راہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
سائل:- حافظ محمد شرافت علی متوطن مخدومی ماٹی کھنڈاا تردیناج پور بنگال
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
ایسا لباس کہ جس سے مکمل ستر پوشی نہ ہو سکے پہننا حرام ہے جیسا کہ مذکورہ سوال میں عورت کا بیٹ و پیٹھ کا منکشف ہونا قطعا حرام ہے مسلم عورتوں پر ضروری ہے کہ ایسے لباس کو قطعا نہ پہنیں ۔البتہ ساڑی کے ساتھ فل کرتی پہلن لیں جس سے مکمل ستر پوشی ہو تو ساڑی استعمال کرنے میں حرج نہیں ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے 
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.(الاحزاب، 33 : 59)
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.(النور، 24 : 31)
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
عورت کے لیے ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ سارا جسم ستر ہے، جس کو چھپانا اس پر فرض ہے۔ مذکورہ بالا تین اعضاء چھپانے کا شرعی حکم نہیں ہے۔
پر موجودہ دور میں جہاں عورتوں کے لئے خطرہ زیادہ ہو، وہاں چہرہ کو چھپانا بھی ضروری ہے ۔
 فی زمانہ مقرّر کا تقریر و بیان کی اجرت لینا جائز ہے اور جو مقرّر طے کرکے اجرت لیتا ہے اس کا وعظ و بیان سننا جائز ہے بشرطیکہ صحیح العقیدہ سنّی ہو۔ 
البتہ قبل الخطاب فیکس کرنا یا شد و مد کرنا غیر اخلاقی اور غیر مناسب ہے ۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  
’اصل حکم یہ ہے کہ وعظ پر اجرت لینی حرام ہے۔ درّمختار میں اسے یہود و نصاریٰ کی ضلالتوں میں سے گِنا مگر ’’کم مّن احکام یختلف باختلاف الزّمان، کما فی االگۃ‘‘
 (بہت سے احکام زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے۔) کلیہ غیرِِ مخصوصہ کہ طاعات پر اُجرت لینا ناجائز ہے ائمہ نے حالاتِ زمانہ دیکھ کر اس میں سے چند چیزیں بضرورت مستثنٰی کیں: امامت، اذان، تعلیمِ قرآنِ مجید، تعلیمِ فقہ، کہ اب مسلمانوں میں یہ اعمال بلانکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں، مجمع البحرین وغیرہ میں ان کا پانچواں وعظ گنا و بس۔ 
فقیہ ابواللیث سمرقندی فرماتے ہیں، میں چند چیزوں پر فتوٰی دیتا تھا، اب ان سے رجوع کیا، ازانجملہ میں فتوٰی دیتا تھا کہ عالم کو جائز نہیں کہ دیہات میں دورہ کرے اور وعظ کے عوض تحصیل کرے مگر اب اجازت دیتا ہوں، لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جس پر نکیر لازم ہو۔ (فتاویٰ رضویہ،19/538)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’بعض عُلَماء نے وعظ کو بھی ان امورِ مستثنیٰ میں داخل کیا جن پر اس زمانہ میں اخذِ اجرت مشائخِ متاخرین نے بحکم ِضرورت جائز رکھا‘
(فتاویٰ رضویہ،19/435 دعوت اسلامی)
البتہ خطاب کے عوض جبرا رقم وصول کرنا شرعا جائز نہیں ہے 
ایسے خطیب کو نہ بلانے میں بھلائی یے ۔کہ ایسوں کے خطاب میں کیا اثر بیانی ہوگی کچھ خطیب کا بیجا ڈیمانڈ ہوتا ہے جو غیر مناسب ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
3/1/2021

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area