Type Here to Get Search Results !

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 12

مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 12
________(❤️)_________
 قسط دوازدہم کا نصف اول۔
 داخل مسجد اذان کے جواز کے قائلین کی تیسری دلیل اوراس کا رد بلیغ ۔
قائلین جواز کی دلیل یہ ہے:
(1)‌ اور اصل مقصودِ اذان؛ تبلیغ و اعلام ہے لہذا مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے آذان کہنے سے اذان کا مقصد اصلی تبلیغ و اعلام درجہ اتم و احسن موجود ہے
پھر لاؤڈ اسپیکر سے مسجد میں اذان کہنا کیوں کر مکروہ
تحریمی اور ناجائز ہوا ؟
(2) وقتی اذان مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے قیامت تک ممنوع نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان سے منع نہیں فرمایا ہے.
قائلین جواز کی دلیل کہ لاؤڈ سپیکر سے مسجد کے اندر اذان دینا جائز ہے اگر کوئی ناجائز کہے تو اس سے ممانعت پر دلیل کی ضرورت ہے۔
ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں مسجد کے باہر اذان دینا سنت اور مسجد کے اندر اذان دینا خلاف سنت اور مکروہ تحریمی اور جب مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تحریمی اور خلاف سنت ہے تو خواہ لاؤڈ اسپیکر سے اذان دی جائے یا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے دونوں طریقوں سے مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ و ممنوع ہوگا۔
اور لاؤڈ اسپیکر کی ممانعت پر دلیل طلب کرنا بے عقلی کی دلیل ہے ۔چونکہ لاؤڈ اسپیکر نو ایجاد چیز ہے اگر کوئی خاص لاؤڈ اسپیکر سے مسجد کے اندر اذان دینے کی ممانعت کی دلیل طلب کرتے ہیں وہ صحیح راہ پر نہیں ہے کیونکہ ہر بات کی اسی کے متعلق دلیل طلب کرنے سے شریعت معطل ہوجائے گی ۔بلکہ جس زمانہ میں جو مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کا جواب اسی زمانہ کے علما کے ذمہ ہوتا ہے نہ کے پہلے کے علما کے ذمہ۔ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کا یہ ارشاد اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
فما اجھل الوہابیۃ العنود ومن تابعھم من جھلۃ الھنود اذ یقولون ایتونا للنھی فیہ ذکر اذ ان الخطبۃ خاصتہ ویدانیہ
یعنی کتنے جاہل ہے ضدی وہابی اور ان کی پیروی کرنے والے جاہل ہندوستانیوں میں سے کس درجہ ناسمجھ ہیں جو ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم کو ممانعت اذان کی کوئی حدیث دکھاؤ جس سے خاص طور سے اذان خطبہ کا ذکر ہو 
 (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 122)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کو بھی مسئلہ اذان کے متعلق ان کے زمانہ کے کچھ وہابیوں اور ان کے ہندوستانی پیروکار ممانعت کی دلیل مانگ رہے تھے اور ٹھیک آج بھی کوئی ایک سنی شخص مجھ سے لاؤڈ اسپیکر سے ممانعت کی دلیل طلب کررہے ہیں اسی لئے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے فرمایا کہ ۔
کتنے جاہل ہے ضدی وہابی اور ان کی پیروی کرنے والے ہندوستانیوں میں سے کس درجہ ناسمجھ ہیں جو ہم سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم کو ممانعت اذان کی کوئی حدیث دکھاؤ جس میں خاص طور سے خطبہ کا ذکر ہو
اس عبارت کو بار بار پڑھیں کہ ہم سب کے امام اہل سنت ہم سب کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ 
جو سنی حضرات بھی داخل مسجد اذان دینے کے قائل ہیں اُن پر تعجب بالائے تعجب ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ
یہ بات کسی بھی کم علم و عقل والے سے پوشیدہ نہیں ہے کہ عام سے خاص پر استدلال صحیح اور درست ہے۔ (نہ کہ خاص سے عام پر)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ و ائمہ اعلام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اپنا دستور العمل بنایا.
اگر ہر خاص کے ثبوت کے لئے خاص اسی کے بارے میں آیت یا حدیث کو ضروری قرار دیا جائے تو شریعت معطل ہوجائےگی اور انسان بے مقصد بھٹکتا پھرے گا
اگر نصوص عامہ سے استدلال صحیح نہ ہوتو ہر شخص مطالبہ کرے گا خاص میرے نام سے حکم لاؤ۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 122)
اس سے واضح ہوا کہ خاص لاؤڈ اسپیکر سے اذان نہ دینے کے لئے, ممانعت کی دلیل مانگنا کم علمی اور کم عقلی کی دلیل ہے کیونکہ جب مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں ،خلاف سنت ، بدعت سیئہ اور مکروہ تحریمی ہے تو لاؤڈ اسپیکر یا کسی اور آلہ سے بھی اذان دینا خود بخود منع ہوجایے گا یہ حکم ممانعت سب جدید الہ پر عائد ہوگا۔
اگر ہر خاص اسی چیز کی بابت قرآن یا حدیث یا اقوال علما سے ممانعت کی دلیل طلب کرے تو یہ اصول کے خلاف ہوگا اس سے شریعت کے بہت سارے احکام ثابت نہیں ہوپائیں گے ۔اگر ہر حکم کے لئے اس بات کو ضروری قرار دیا جائے تو شریعت معطل ہوجایے گی اور انسان بے مقصد بھٹکتا پھریگا لہذا یہ حجت بھی موصوف کی دلیل کے لئے مفید نہیں ۔بلکہ داخل مسجد تنہا یعنی بغیر لاؤڈ اسپیکر کے یا لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینا خلاف سنت ہے۔ جو لوگ مسجد کے اندر لاؤڈ سپیکر سے اذان دینے کو جائز قرار دے رہے ہیں وہ ایک سنت کو بدل رہے ہیں اور سنت کے بدلنے والے پر سخت وعید وارد ہے ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام سب کی سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر اذان دی جائے۔موجودہ زمانہ میں لاؤڈ اسپیکر سے ہو تب بھی باہر ہی دیا جائے اس کا خلاف کرنے والا سنت کو بدلنے والا ہے اور سنت بدلنے والے کے لئے ایک یہی حدیث شریف نصیحت کے لئے کافی ہے کہ 
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:
ستۃ لعنتھم و لعنھم اللہ و کل نبی مجاب و ذکر منھم التارک بسنتی
یعنی رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے چھ آدمیوں پر لعنت فرمائی اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہیں ۔ان چھ آدمیوں میں سے ایک سنت بدلنے والا ہے ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 130 بحوالہ ترمذی شریف)
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ خلاف سنت کام کرکے مستحق لعنت ہوں گے یا سنت پر عمل کرکے سو شہیدوں کا ثواب پائیں گے ۔
اب یہ فیصلہ آپ کے ایمان پر ہے لاؤڈ اسپیکر کا بہانا بناکر لعنتی نہ بنیں ۔
سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*جن جن ہستیوں نے جاری کی ہوئی سنت متروکہ جبرا موقوف کرادیا اور اپنے اس فعل پر اصرار بھی کرتے ہیں تو کس وعید کے مستحق ہوتے ہیں۔ ترک سنت پر تو یہ وعید آئی ہے کہ من ترک سنتی لم ینل شفاعتی جو میری سنت کو ترک کیا وہ میری شفاعت سے محروم ہوگا۔(فتاوی مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 194)
فقط ترک سنت پر یہ وعید ہے تو جاری کی ہوئی سنت متروکہ کو جبرا موقوف کرانے کا گناہ تو ترک سنت سے زیادہ ہونا چاہیے۔ (فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 194)
اب جس نے خارج مسجد اذان کو بند کراکے لاؤڈ اسپیکر سے داخل مسجد اذان دلوانا شروع کردیا تو وہ ترک سنت کے گناہ سے زیادہ گنہگار ہوگا۔
ایک مثال سے سمجھیں کہ نفل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے اب کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ لاؤڈ اسپیکر سے بلانے پر حکم تداعی نہیں ہوگا کیونکہ لاوڈ اسپیکر سے بلانے پر کوئی حکم ممانعت منقول نہیں ہے یہ تو اس کی نادانی ہوگی کیونکہ جس طرح منہ سے آواز دے کر بلانا یا ہاتھ کے اشارے سے بلانا تداعی ہے اسی طرح لاؤڈ اسپیکر سے بھی بلانا تداعی ہے اور جماعت مکروہ ہے ۔ تداعی ایک دوسرے کو بلانا اور اس سے کثرت جماعت لازم ہے اب یہ تدائی لاؤڈ اسپیکر سے بھی منع ہوگا اور بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بھی منع ہوگا۔
ایک اور مثال نمازیوں کی نماز کے دوران وعظ وغیرہ منع ہے ۔سلفا و خلفا اس بات پر اجماع ہے کہ ذکر وغیرہ سے جب نمازیوں پر تشویش وخلل ہو تو اس وقت اتنی آواز سے ذکر وغیرہ منع ہے (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد دوم ص 212)
 اب یہ ذکر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے ہو یا لاؤڈ اسپیکر سے دونوں طریقوں سے منع ہی ہوگا اب کوئی کہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے منع نہیں ہے اگر منع ہے تو اس خاص کے بارے میں منع کی دلیل دو تو وہ احمق ہی ہوگا جب بغیر لاؤڈ اسپیکر سے اس وقت ذکر الہی منع ہے تو لاؤڈ اسپیکر سے بھی اس وقت منع ہوگا اسی طرح جب بغیر لاؤڈ اسپیکر سے مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تحریمی ہے تو اسی طرح لاؤڈ اسپیکر سے بھی داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہی ہے۔ 
اور معترض کا یہ کہنا کہ جس چیز کو اللہ و رسول نے منع نہیں کیا وہ منع نہیں بلکہ معاف ہے بے شک یہ قول صحیح ہے لیکن یہ حکم یہاں نہیں ہوگا کیونکہ تمام فقہائے احناف نے داخل مسجد اذان دینے کو منع فرمایا۔
اور ان کا منع فرمانا ہی ہمارے عمل کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ
حضور تاج الشریعہ فرماتے ہیں کہ علما شارع علیہ السلام کے امین ہوتےہیں اور قرآن و حدیث کی فہم رکھنے والے اور شرع کے رازدار ہوتے ہیں
میزان الشریعۃ الکبری میں ہے۔ اذہم العلما امناء الشارع علی شریعۃ
وہ جو مسئلہ ارشاد فرماتے ہیں قرآن و حدیث ہی سے مستفاد ہوتا ہے تو ان کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت اور ان کی نافرمانی اللہ و رسول کی نافرمانی ہے وہ لوگ مسائل شرع مانیں اور نافرمانی سے توبہ کریں۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 88)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خارج مسجد اذان دینا ناجائز ہے بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل سے بیرون مسجد اذان دینے کا ہی ثبوت حاصل ملتا ہے ۔ مسجد کے اندر اذان دینا خلاف سنت ہے۔اور سنت کو بدلنے والے پر ر سول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی اور آپ کی دعا مقبول ہے کہ ہر نبی مستجاب الدعوات ہیں۔
ایک اشکال اور اس کا حل
لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے کا مقصد ہے کہ آواز دور تک پہنچ جائے اور لوگ مسجد کے اندر جلد آجائے چونکہ اذان کا مقصد اعلام غائبین ہے جو لاؤڈ اسپیکر سے آسانی کے ساتھ حاصل ہوتا ہے اسی لئے جائز ہے۔
الجواب ۔بے شک اذان کا مقصد اعلام غائبین ہے ۔اور لاؤڈ اسپیکر سے بخوبی حاصل ہوجاتا ہے ۔لیکن اذان کے متعلق دو باتیں قابل غور ہے ۔
(1) اعلام غائبین :اور اس کے لئے خارج مسجد ہے نہ کہ اندرون مسجد
(2) جگہ ۔ ہر اذان خواہ پنچوقتی ہو یا اذان ثانی یا جمعہ کی اذان اول سب ایسی جگہ کہی جائے جو اسمع للجیران ہو اور اس کے متعلق علامہ ابراھیم حلبی غنیۃ میں فرجاتے ہیں:
الاذان انما یکون فی المئذنۃ او خارج المسجد والاقامۃ فی داخلہ ۔یعنی اذان منارہ پر یا خارج مسجد دی جائے اور اقامت مسجد کے اندر ۔
اورعلما فرماتے ہیں:
اذا خلا الشئی عن مقصود بطل
 یعنی شئی جب اپنے مقصود سے خالی ہو تو باطل ہے ۔
 اور اذان کا مقصود اعلام غائبین ہے مگر اس کے لیے خارج مسجد کی جگہ مقصود ہے ۔کیونکہ اذان داخل مسجد مکروہ تحریمی ہے اور سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اور شئی جب اپنے مقصود سے خالی ہوتی ہے تو باطل ہوجاتی ہے ۔مسجد کی اذان؛ اذان ہی نہیں ( فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 198)
پس خواہ لاؤڈ اسپیکر سے اذان دی جائے یا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اندرون مسجد اذان دینا اپنے مقصود سے خالی ہے ۔
امام فخرالملۃ والدین زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے تبین الحقائق شرح کنز الدقائق میں فرمایا:
السنۃ ان یکون الاذان فی المنارہ والاقامت فی المسجد
یعنی سنت یہ ہے کہ اذان منارہ پر ہو ۔اور اقامت مسجد میں 
(تبین الحقائق شرع کنز الدقائق۔جلد 1.ص 169)
دوسرا مقصد یہ ہے کہ اذان کے سنن سے ہی یہ ہے کہ
ایسی جگہ کہی جائے جو اسمع للجیران ہو یعنی مؤذن ایسی جگہ اذان دے جو اسمع للجیران ہو (پڑوسی جسے زیادہ بہترین سن سکیں) کیونکہ اذان کا مقصد اعلام ہے ۔اور آواز بلند رکھے
اب ان تصریحات سے واضح ہوا کہ اذان کا مقصد اگرچہ اعلام غائبین ہے لیکن اعلام غائبین کے لئے سنت طریقہ پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ خلاف سنت اور اذان کے سنن سے ہے کہ ایسی جگہ کہی جائے جو اسمع للجیران ہو اور وہ جگہ خارج مسجد ہے تو اس کام کے لئے لاؤڈ اسپیکر مسجد کے دروازہ پر رکھ یا وضو خانہ کی جگہ رکھ کر یا مسجد سے باہر یعنی مؤذن اور لاؤڈ اسپیکر دونوں خارج مسجد ہو تو جائز ہے اور مسجد کے اندر مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اذان کی جگہ مسجد موضع صلاۃ نہیں ہے۔
سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اگر اذان مسجد کے باہر صحن میں کہی تو اگرچہ اس صورت میں اعلام میں کوئی نمایاں کمی نہ ہوگی مگر خلاف سنت و مکروہ ہے ۔ اعادہ چاہیئے
(فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 170)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ مسجد کے باہر صحن میں اذان دینے سے اعلام میں کوئی کمی نہ ہوگی مگر خلافت سنت و مکروہ ہے۔ ٹھیک دلیل کی وجہ سے جو اذان لاؤڈ اسپیکر سے مسجد یا صحن مسجد میں دی جائے گی اگرچہ اس صورت میں اعلام میں کوئی کمی نہ ہوگی مگر مسجد کے اندر یا صحن میں اذان دینا خلاف سنت اور مکروہ ہے اسی لئے لاؤڈ اسپیکر سے بھی جائز نہیں
اب خاص لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی ممانعت کی صریح دلیل طلب کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ کتاب" عقائد و کلام" میں ایک باب بنام
نو پید مسائل میں اس زمانہ کے مستند علما کی سند کافی ہے
(کتاب عقائد و کلام ص 326)
لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد آلہ ہے اس کے لیے ممانعت کی دلیل طلب کرنے والا احمق ہے
 کتاب "عقائد و کلام" میں ایک باب بنام
نو پید مسائل میں کوئی صحابی یا حدیث سے صریح دلیل طلب کرے ؛ وہ احمق ہے
(عقائد و کلام ص 327)
اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ لاؤڈ اسپیکر بھی ایک نو پید مشین ہے اس وجہ سے عالمگیری یا درمختار یا رد المحتار یا بحر الرائق یا کسی ائمہ سے ممانعت کی دلیل طلب کرنا حماقت ہے 
جو مسئلہ جس زمانہ میں پیدا ہو اسی زمانہ کے علما سے تصریح مانگی جائے۔
(فتاویٰ رضویہ کامل سے ماخوذ مسائل کلامیہ کا ۔مجموعہ بنام عقائد و کلام ص 326)
جب لاؤڈ اسپیکر نو ایجاد مشین ہے اس کی بابت حدیث سے ممانعت کی دلیل طلب کرنا حماقت ہے۔ اس سے داخل مسجد اذان دینے کی ممانعت فقہا ہی کے اقوال سے کافی ،اور تمام فقہا نے فرمایا کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تحریمی ہے اب وہ مؤذن خود دے یا لاؤڈ اسپیکر سے دے یا کسی اور نوایجاد مشین سے دے تمام اس حکم ممانعت میں داخل ہوگا۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
________(❤️)_________ 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
 مرپاوی سیتا مڑھی بہار
فتوٰی لکھنے کی تاریخ:

 10/08/2022
22/01/144
نشر کرنے کی تاریخ:-11/08/2022
23/01/1445 
      بہ واسطہ:-حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی ساکن بیتاہی ،خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی سیتا مڑھی بہار

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area