(سوال نمبر پر 7095)
مسجد کے اندر اذان دینے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
جو امام مسجد کے اندر اذان دے ۔اور بہت بار منع کیا لیکن نہیں مان رہے تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ کیا یہ کام گناہ صغیرہ میں سے ہے ۔اگر ہے تو پھر امام صغیرہ پر اصرار کر رہا ہے ۔رہنمائی فرمائیں مکمل وضاحت کے ساتھ
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
پہلے زمانے میں اذان دینے کے لیے مسجد سے باہر ایک اونچی جگہ ہوتی تھی جوکہ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے اب اس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کسی مسجد میں ہے
مسجد کے اندر اذان کے بابت فقہاء کرام میں اختلاف ہے پر راجح قول مسجد سے باہر ہی ہے اب چونکہ اس میں اختلاف ہے اس لئے مذکورہ امام کے پیچھے نماز جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اذان کا مقصد اعلان عام بالصلاة یے جو منارے اور خارج مسجد اونچی جگہ دینی چاہئے پر موجودہ دور میں لائوڈ اسپیکر سے مقصود حاصل ہے اس لئے منارہ یا اونچی جگہ کی حاجت نہ رہی اب بات رہی اذان خارج مسجد یا داخل مسجد ہو اس بابت بہار اور فتاوی رضویہ میں لفظ مکروہ لکھا ہوا ہے اب اس سے مراد تحریمی ہے یا تنزیہی؟ تو اقوال فقہاء سے یہی ظاہر ہے کہ تنزیہی ہے چونکہ ممانعت کے باب میں کوئی صریح حدیث ایسی نہیں جس میں عتاب وارد ہو پر اقوال فقہاء اور عمل صحابہ سے ثابت ہے کہ اذان خارج مسجد ہوتی تھی ۔
دوسری بات بہار ہی میں ہے اگر داخل مسجد بلند آواز سے اذان دیدی گئی پھر اعادہ نہیں ۔
فقیہ میں مکروہِ تحریمی وہ فعل ہے جس سے لازمی طور پر رک جانے کا مطالبہ ہو اور وہ مطالبہ دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ یہ واجب کے مقابل ہے اور اس کو اپنانے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے مثلاً نماز وتر کا چھوڑنا، نمازِ وتر چونکہ واجب ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس کو کبھی ترک نہ فرمایا اور اس کے چھوڑنے پر وعید سنائی ہے۔
أَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوْتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقُّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا.
(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلة، باب فيمن لم يوتر، 1:527، رقم: 1419)
وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مکروہِ تنزیہی وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت نہ پائی جائے مثلاً محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا، عورت کا بلا اجازتِ خاوند نفلی روزہ رکھنا۔
کوئی بھی فرض و واجب مکروہ تحریرمی و تنزیہی ان ادلہ سمعیہ سے خالی نہیں ۔
امام عابدین شامی فرماتے ہیں
ان الادلة السمعية اربعة :
الاول : قطعی الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسره و المحکمة والسنة المتواتره التی مفهومها قطی.
الثانی : قطعی الثبوت و ظنی الدلالة کالآت الموولة.
الثالث : عکسه کاخبار الاهاد التی مفهوما قطعی.
الرابع : ظنيهما کاخبار الآحاد التی مفهوها ظنی.
فبالاول يثبت الفرض والحرام و بالثانی والثالث الواجب والکراهة التحريم و بالرابع السنة والمستحب.(ابن عابدين، رد المختار، ج : 1، ص : 70)
بیشک ادلۃ سمعیۃ چار ہیں
١/ پہلی دلیل قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ جیسے قرآن کی وہ مفسر اور محکم آیات اور احادیث متواتر جن کا مفہوم قطعی ہو۔
٢/ دوسری دلیل قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مؤول آیات۔
٣/ تیسری دلیل اس کے برعکس ہے (یعنی ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ) جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے۔
٤/ چوتھی دلیل ظنی الثبوت اور ظنی الدلالۃ ہے جیسے وہ اخبار احاد جو ظنی الدلالۃ ہیں۔
لہذا فرض اور حرام پہلی کی دلیل سے ثابت ہیں،
واجب اور مکروہ تحریمی دوسری اور تیسری قسم کی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں
جبکہ چوتھی قسم کی دلیل سے سنت اور مستحب وغیرہ ثابت ہوتے ہیں۔
کیا داخل مسجد اذان نہ دی جائے اس بابت ممانعت کے باب میں قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مؤول آیات۔
یا ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے۔
ایسی کوئی حدیت ہے بلکہ اس کے برعکس داخل مسجد آذان دینے کے ممانعت کے باب میں کوئ صریح حدیث ہی نہیں ہے ۔اس لئے داخل مسجد اذان زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی ہوگی تحریمی نہیں ۔
ہمارے بعض فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ کہا ہے، اس سلسلہ میں پہلے ہم اذان دینے کی جگہ کے متعلق احادیث کا ذکر کریں گے، اس کے بعد عبارات فقہاء کا ذکر کریں گے۔
امام ابودائود سلیمان بن اشعت بحستانی متوفی ٢٧٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں
١/ عروہ بن الزبیر بیان کرتے ہیں کہ بنو نجار کی ایک عورت نے بیان کیا کہ مسجد (نبوی) کے گرد میرا گھر سب سے اونچا تھا، پس حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس کے اوپر فجر کی اذان دیتے تھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥١٩)
٢/ السائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے تو مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٨٨)
اور مسجد میں اذان دینے کی کراہت کے متعلق فقہاء کی حسب ذیل تصریحات ہیں
علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی ٥٤٢ ھ لکھتے ہیں
اذان مسجد کے مینار یا مسجد سے باہر دینی چاہیے اور مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ (خلاصۃ ج ١ ص ٤٩، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
علامہ عثمانبن علی الزیلعی حنفی متوفی ٧٣٤ ھ لکھتے ہیں
سنت یہ ہے کہ اذان منارہ میں ہو اور اقامت مسجد میں۔ (تبیین الحقائق ج ١ ص ٢٤٦، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، کراچی، پاکستان، ١٤٢١ ھ)
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد حنفی متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں
اذان مشذنۃ (مینار) میں دینی چاہیے اور اگر وہ نہ ہو تو فناء مسجد دینی چاہیے، فقہاء نے کہا ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٢٥٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ شمس الدین محمد الخراسانی القہستانی المتوفی ٩٦٢ ھ لکھتے ہیں
شریعت میں اصل یہ ہے کہ اذان بلند جگہ پر دی جائے، تاکہ سب لوگوں کو خبر ہوجائے اور یہ سنت ہے جیسا کہ قفیہ میں مذکور ہے اور یہ کہ مسجد میں ادان نہ دی جائے کیونکہ یہ مکروہ ہے جیسا کہ نظم میں ہے، لیکن جلابی میں مذکور ہے کہ مسجد میں اذان دی جائے گی یا اس جگہ میں جو مسجد کے حکم میں ہو اور مسجد سے بعید جگہ میں اذان نہ دی جائے۔
(جامع الرموز ج ١ ص ١٢٣، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، کراچی، پاکستان)
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں
سنت یہ ہے کہ اذان بلندجگہ پر دی جائے اور اقامت زمین پر کہی جائے۔ (البحرالرائق ج ١ ص ٢٥٥، المکتبۃ الماجدیہ، کوئٹہ)
علامہ سید احمد بن محمد الطحطاوی حنفی متوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں
اور ظاہر ہے کہ مغرب کی اذان بھی بلند جگہ پر دی جائے جیسا کہ السراج میں مذکور ہے اور مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے، جیسا کہ قہستانی نے النظم سے نقل کیا ہے اور اگر وہاں کوئی بلند جگہ اذان دینے کے لیے نہ ہو تو فناء مسجد میں اذان دی جائے جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص ١٩٨۔ ١٩٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
ہرچند کہ فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ کہا ہے، لیکن اس پر ایک اشکال یہ ہے کہ سنن ابودائود کی حدیث میں یہ تو مذکور ہے کہ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ ایک اونچے مکان کی چھت پر چڑھ کر صبح کی اذان دیتے تھے لیکن کسی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان دینے سے منع فرمایا ہو اور فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے کہ کوئی چیز ان وقت تک مکروہ تنزیہی نہیں ہوسکتی جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس چیز سے منع نہ فرمایا ہو۔۔
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں : ولایلزم ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلا بدلھا من دلیل خاص۔
مستحب کو ترک کرنے سے کراہت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ ثبوت کراہت کے لیے خاص دلیل ضروری ہے۔ (البحر الرائق ج ٢ ص ١٦٣، المکتبۃ الماجدیہ، کوئٹہ )
دوسرا اشکال یہ ہے کہ بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ سنت یہ ہے کہ اذان مسجد کے مینار میں دی جائے، حالانکہ عہد رسالت میں مساجد میں مینار نہ تھے۔
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں مینار نہیں تھے، نہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں نہ حضرت عمر کے زمانہ میں، حضرت عثمان کے زمانہ میں مقام زوراء پر اذان دی جاتی تھی، پھر بنوامیہ کے زمانہ میں مینار بنائے گئے، حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں بھی چار مینار بنائے گئے
(شرح سنن ابودائود ج ٤ ص ٤٢٧، مکتبۃ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)
اس پر تیسرا اشکال یہ ہے کہ سنن ابودائود کی جس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت بلال ایک بلند مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے۔ امام ابودائود نے اس حدیث کو احمد بن محمد بن ایوب سے روایت کیا ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن معین نے کہا یہ کذاب ہے، ابن الجوزی نے اس کا ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ (شرح سنن ابودائود ج ٢ ص ٤٧٠، مکتبۃ الرشید، ریاض ١٤٢٠ ھ)
اس پر چوتھا اشکال یہ ہے کہ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اذان مسجد میں بھی دی گئی ہے
امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں عن ہشام عن ابیہ قال امرالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا لا ان یوذن یوم الفتح فوق الکعبۃ۔ ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ وہ کعبہ کے اوپر چڑھ کر اذان دیں۔ (مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٢٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
علامہ سید محمد امین عمر بن عبدالعزیز، ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ اس بحث میں لکھتے ہیں
حافظ سیوطی نے اوائل میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے مسجد کے مینار پر چڑھ کر اذان دی وہ شرجیل بن عامر المرادی تھا اور بنو سلمہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے اذان کے لیے مینار بنائے، اس سے پہلے مینار نہیں تھے، امام ابن سعد نے حضرت ام زید بن ثابت کی سند سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ مسجد کے گرد میرا گھر سب سے اونچا تھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ابتداء میں
اس کے اوپر چڑھ کر اذان دیتے تھے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مسجد تعمیر فرما لی، اس کے بعد حضرت بلال مسجد کی چھت کے اوپر اذان دیتے تھے اور چھت کے اوپر کوئی بلند چیز رکھ لیتے تھے۔ (روالمخار ج ٢ ص ٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام ابن سعد کی اس روایت کو علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ اور ” الفتہ الاسلامی کے مخرج نے بھی ذکر کیا ہے۔
(روح البیان ج ٨ ص ٣٥٠۔ ٣٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ، حاشیۃ الفقہ الاسلامی جۃ ص ٥٤٦ )
امام ابن سعد کی جس روایت کا علامہ شامی وغیرہ نے ذکر کیا ہے یہ روایت ہم کو الطبقات الکبریٰ میں نہیں ملی، لیکن امام ابن سعدی کی اور بھی تصانیف ہیں مثلا تاریخ اور الطبقات الصغریٰ ہوسکتا ہے کہ یہ روایت ان میں سے کسی کتاب میں ہو۔ اس پر پانچواں اشکال یہ ہے کہ بعض فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو بلا کراہت جائز کہا ہے
١/ جیسا کہ علامہ قہستانی نے نقل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں چھٹی اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ فقہاء نے جو بلند جگہ پر اور مینار پر اذان دینے کا طریقہ بتایا ہے اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ اذان کی آواز تمام جگہوں پر پہنچ جائے اور اب جب کہ لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کی آواز زیادہ آسانی سے دور دور تک پہنچ جاتی ہے تو مینار پر چڑھ کر اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ مینار بھی چالیس ہجری کے بعد بنائے گئے ہیں، آج کل عموماً مسجد کے محراب میں اذان دینے کے لیے ایک جگہ بنالی جاتی ہے اور وہاں لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے کیونکہ نبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان دینے سے منع نہیں فرمایا، یہ ممانعت صرف چھٹی صدی ہجری اور بعد کے بعض فقہاء سے منقول ہے، جب کہ اس کے برخلاف احادیث سے مسجد میں اذان دینا ثابت ہے اور بعض فقہاء نے بھی مسجد میں اذان دینے کو بلا کراہت جائز کہا ہے، نیز اذان میں اللہ کا ذکر ہے اور مسجد میں اللہ کی ذکر سے روکنے پر سخت وعید ہے۔
ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ انیذکر فیھا السمہ۔ (البقرہ :114)
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مساجد میں اللہ کے اسم کے ذکر کرنے سے منع کرے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا منع ہے، اس لیے مسجد میں آواز بلند نہیں کرنی چاہیے اور اذان بلندآواز سے دی جاتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے سب سے بڑی مسجد یعنی کعبہ کی چھت پر حضرت بلال سے اذان دلوائی، مساجد میں دینی جلسے کیے جاتے ہیں جن میں بلند آواز سے تلاوت کی جاتی ہے، نعتیں پڑھی جاتی ہیں، نعرہتکبیر اور نعرہ رسالت لگاجاتے ہیں جن سے ساری مسجد گونج اٹھتی ہے، نمازوں کے بعد ذکر یا بالجبر کیا جاتا ہے، جلسوں میں اور جمعہ کی نماز کے بعد بلند آواز سے صلوٰۃ وسلام پڑھا جاتا ہے، مذکور الصدر حدیث اور اہل سنت کے معمولات سے معلوم ہوا کہ مساجد میں اللہ کے نام اور اس کے ذکر کو بلند آواز سے کرنا ممنوع نہیں ہے البتہ مساجد میں بلندآواز سے جو ذکر ممنوع ہے وہ یہ ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص یہ سنے کہ کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کا بلند آواز سے مسجد میں اعلان کررہا ہے، اسے چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ اللہ تیری گم شدہ چیز کو واپس نہ کرے، کیونکہ مساجد کو اس لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٨، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٧٠٦)
اور ہمارے ہاں رواج ہے کہ گم شدہ چیزوں کا مساجد کے لائوڈ اسپیکر سے اعلان کیا جاتا ہے، سو اگر خطرہ ہے تو ان اعلانات کو خطرہ ہے، اللہ کے نام کے ذکر اور اذان کو کیا خطرہ ہے، ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ متقدمین مسجد کے مینار میں اذان دینے کے لیے اس وجہ سے کہتے تھے کہ بلند جگہ پر اذان دینے سے آواز سب لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور اب لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ یہ مقصد زیادہ اچھے اور بہتر طریقہ سے پورا ہوجاتا ہے، اس لیے محراب مسجد میں جو لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے یہ بالکل شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(تفسیر تبیان القران سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 33)
والله ورسوله اعلم بالصواب
مسجد کے اندر اذان دینے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
جو امام مسجد کے اندر اذان دے ۔اور بہت بار منع کیا لیکن نہیں مان رہے تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ کیا یہ کام گناہ صغیرہ میں سے ہے ۔اگر ہے تو پھر امام صغیرہ پر اصرار کر رہا ہے ۔رہنمائی فرمائیں مکمل وضاحت کے ساتھ
سائل:- محمد کاشف جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
پہلے زمانے میں اذان دینے کے لیے مسجد سے باہر ایک اونچی جگہ ہوتی تھی جوکہ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے اب اس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کسی مسجد میں ہے
مسجد کے اندر اذان کے بابت فقہاء کرام میں اختلاف ہے پر راجح قول مسجد سے باہر ہی ہے اب چونکہ اس میں اختلاف ہے اس لئے مذکورہ امام کے پیچھے نماز جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اذان کا مقصد اعلان عام بالصلاة یے جو منارے اور خارج مسجد اونچی جگہ دینی چاہئے پر موجودہ دور میں لائوڈ اسپیکر سے مقصود حاصل ہے اس لئے منارہ یا اونچی جگہ کی حاجت نہ رہی اب بات رہی اذان خارج مسجد یا داخل مسجد ہو اس بابت بہار اور فتاوی رضویہ میں لفظ مکروہ لکھا ہوا ہے اب اس سے مراد تحریمی ہے یا تنزیہی؟ تو اقوال فقہاء سے یہی ظاہر ہے کہ تنزیہی ہے چونکہ ممانعت کے باب میں کوئی صریح حدیث ایسی نہیں جس میں عتاب وارد ہو پر اقوال فقہاء اور عمل صحابہ سے ثابت ہے کہ اذان خارج مسجد ہوتی تھی ۔
دوسری بات بہار ہی میں ہے اگر داخل مسجد بلند آواز سے اذان دیدی گئی پھر اعادہ نہیں ۔
فقیہ میں مکروہِ تحریمی وہ فعل ہے جس سے لازمی طور پر رک جانے کا مطالبہ ہو اور وہ مطالبہ دلیلِ ظنی سے ثابت ہو۔ یہ واجب کے مقابل ہے اور اس کو اپنانے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے مثلاً نماز وتر کا چھوڑنا، نمازِ وتر چونکہ واجب ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس کو کبھی ترک نہ فرمایا اور اس کے چھوڑنے پر وعید سنائی ہے۔
أَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوْتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقُّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا.
(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلة، باب فيمن لم يوتر، 1:527، رقم: 1419)
وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے وتر حق ہے اور جو وتر ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مکروہِ تنزیہی وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت نہ پائی جائے مثلاً محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا، عورت کا بلا اجازتِ خاوند نفلی روزہ رکھنا۔
کوئی بھی فرض و واجب مکروہ تحریرمی و تنزیہی ان ادلہ سمعیہ سے خالی نہیں ۔
امام عابدین شامی فرماتے ہیں
ان الادلة السمعية اربعة :
الاول : قطعی الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسره و المحکمة والسنة المتواتره التی مفهومها قطی.
الثانی : قطعی الثبوت و ظنی الدلالة کالآت الموولة.
الثالث : عکسه کاخبار الاهاد التی مفهوما قطعی.
الرابع : ظنيهما کاخبار الآحاد التی مفهوها ظنی.
فبالاول يثبت الفرض والحرام و بالثانی والثالث الواجب والکراهة التحريم و بالرابع السنة والمستحب.(ابن عابدين، رد المختار، ج : 1، ص : 70)
بیشک ادلۃ سمعیۃ چار ہیں
١/ پہلی دلیل قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ جیسے قرآن کی وہ مفسر اور محکم آیات اور احادیث متواتر جن کا مفہوم قطعی ہو۔
٢/ دوسری دلیل قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مؤول آیات۔
٣/ تیسری دلیل اس کے برعکس ہے (یعنی ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ) جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے۔
٤/ چوتھی دلیل ظنی الثبوت اور ظنی الدلالۃ ہے جیسے وہ اخبار احاد جو ظنی الدلالۃ ہیں۔
لہذا فرض اور حرام پہلی کی دلیل سے ثابت ہیں،
واجب اور مکروہ تحریمی دوسری اور تیسری قسم کی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں
جبکہ چوتھی قسم کی دلیل سے سنت اور مستحب وغیرہ ثابت ہوتے ہیں۔
کیا داخل مسجد اذان نہ دی جائے اس بابت ممانعت کے باب میں قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مؤول آیات۔
یا ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے۔
ایسی کوئی حدیت ہے بلکہ اس کے برعکس داخل مسجد آذان دینے کے ممانعت کے باب میں کوئ صریح حدیث ہی نہیں ہے ۔اس لئے داخل مسجد اذان زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی ہوگی تحریمی نہیں ۔
ہمارے بعض فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ کہا ہے، اس سلسلہ میں پہلے ہم اذان دینے کی جگہ کے متعلق احادیث کا ذکر کریں گے، اس کے بعد عبارات فقہاء کا ذکر کریں گے۔
امام ابودائود سلیمان بن اشعت بحستانی متوفی ٢٧٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں
١/ عروہ بن الزبیر بیان کرتے ہیں کہ بنو نجار کی ایک عورت نے بیان کیا کہ مسجد (نبوی) کے گرد میرا گھر سب سے اونچا تھا، پس حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس کے اوپر فجر کی اذان دیتے تھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥١٩)
٢/ السائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے تو مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٨٨)
اور مسجد میں اذان دینے کی کراہت کے متعلق فقہاء کی حسب ذیل تصریحات ہیں
علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی ٥٤٢ ھ لکھتے ہیں
اذان مسجد کے مینار یا مسجد سے باہر دینی چاہیے اور مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ (خلاصۃ ج ١ ص ٤٩، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
علامہ عثمانبن علی الزیلعی حنفی متوفی ٧٣٤ ھ لکھتے ہیں
سنت یہ ہے کہ اذان منارہ میں ہو اور اقامت مسجد میں۔ (تبیین الحقائق ج ١ ص ٢٤٦، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، کراچی، پاکستان، ١٤٢١ ھ)
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد حنفی متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں
اذان مشذنۃ (مینار) میں دینی چاہیے اور اگر وہ نہ ہو تو فناء مسجد دینی چاہیے، فقہاء نے کہا ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٢٥٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ شمس الدین محمد الخراسانی القہستانی المتوفی ٩٦٢ ھ لکھتے ہیں
شریعت میں اصل یہ ہے کہ اذان بلند جگہ پر دی جائے، تاکہ سب لوگوں کو خبر ہوجائے اور یہ سنت ہے جیسا کہ قفیہ میں مذکور ہے اور یہ کہ مسجد میں ادان نہ دی جائے کیونکہ یہ مکروہ ہے جیسا کہ نظم میں ہے، لیکن جلابی میں مذکور ہے کہ مسجد میں اذان دی جائے گی یا اس جگہ میں جو مسجد کے حکم میں ہو اور مسجد سے بعید جگہ میں اذان نہ دی جائے۔
(جامع الرموز ج ١ ص ١٢٣، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، کراچی، پاکستان)
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں
سنت یہ ہے کہ اذان بلندجگہ پر دی جائے اور اقامت زمین پر کہی جائے۔ (البحرالرائق ج ١ ص ٢٥٥، المکتبۃ الماجدیہ، کوئٹہ)
علامہ سید احمد بن محمد الطحطاوی حنفی متوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں
اور ظاہر ہے کہ مغرب کی اذان بھی بلند جگہ پر دی جائے جیسا کہ السراج میں مذکور ہے اور مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے، جیسا کہ قہستانی نے النظم سے نقل کیا ہے اور اگر وہاں کوئی بلند جگہ اذان دینے کے لیے نہ ہو تو فناء مسجد میں اذان دی جائے جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص ١٩٨۔ ١٩٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
ہرچند کہ فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ کہا ہے، لیکن اس پر ایک اشکال یہ ہے کہ سنن ابودائود کی حدیث میں یہ تو مذکور ہے کہ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ ایک اونچے مکان کی چھت پر چڑھ کر صبح کی اذان دیتے تھے لیکن کسی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان دینے سے منع فرمایا ہو اور فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے کہ کوئی چیز ان وقت تک مکروہ تنزیہی نہیں ہوسکتی جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ اس چیز سے منع نہ فرمایا ہو۔۔
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں : ولایلزم ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلا بدلھا من دلیل خاص۔
مستحب کو ترک کرنے سے کراہت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ ثبوت کراہت کے لیے خاص دلیل ضروری ہے۔ (البحر الرائق ج ٢ ص ١٦٣، المکتبۃ الماجدیہ، کوئٹہ )
دوسرا اشکال یہ ہے کہ بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ سنت یہ ہے کہ اذان مسجد کے مینار میں دی جائے، حالانکہ عہد رسالت میں مساجد میں مینار نہ تھے۔
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں مینار نہیں تھے، نہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں نہ حضرت عمر کے زمانہ میں، حضرت عثمان کے زمانہ میں مقام زوراء پر اذان دی جاتی تھی، پھر بنوامیہ کے زمانہ میں مینار بنائے گئے، حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں بھی چار مینار بنائے گئے
(شرح سنن ابودائود ج ٤ ص ٤٢٧، مکتبۃ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)
اس پر تیسرا اشکال یہ ہے کہ سنن ابودائود کی جس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت بلال ایک بلند مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے۔ امام ابودائود نے اس حدیث کو احمد بن محمد بن ایوب سے روایت کیا ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن معین نے کہا یہ کذاب ہے، ابن الجوزی نے اس کا ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ (شرح سنن ابودائود ج ٢ ص ٤٧٠، مکتبۃ الرشید، ریاض ١٤٢٠ ھ)
اس پر چوتھا اشکال یہ ہے کہ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اذان مسجد میں بھی دی گئی ہے
امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں عن ہشام عن ابیہ قال امرالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا لا ان یوذن یوم الفتح فوق الکعبۃ۔ ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ وہ کعبہ کے اوپر چڑھ کر اذان دیں۔ (مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٢٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
علامہ سید محمد امین عمر بن عبدالعزیز، ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ اس بحث میں لکھتے ہیں
حافظ سیوطی نے اوائل میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے مسجد کے مینار پر چڑھ کر اذان دی وہ شرجیل بن عامر المرادی تھا اور بنو سلمہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے اذان کے لیے مینار بنائے، اس سے پہلے مینار نہیں تھے، امام ابن سعد نے حضرت ام زید بن ثابت کی سند سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ مسجد کے گرد میرا گھر سب سے اونچا تھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ابتداء میں
اس کے اوپر چڑھ کر اذان دیتے تھے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مسجد تعمیر فرما لی، اس کے بعد حضرت بلال مسجد کی چھت کے اوپر اذان دیتے تھے اور چھت کے اوپر کوئی بلند چیز رکھ لیتے تھے۔ (روالمخار ج ٢ ص ٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام ابن سعد کی اس روایت کو علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ اور ” الفتہ الاسلامی کے مخرج نے بھی ذکر کیا ہے۔
(روح البیان ج ٨ ص ٣٥٠۔ ٣٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ، حاشیۃ الفقہ الاسلامی جۃ ص ٥٤٦ )
امام ابن سعد کی جس روایت کا علامہ شامی وغیرہ نے ذکر کیا ہے یہ روایت ہم کو الطبقات الکبریٰ میں نہیں ملی، لیکن امام ابن سعدی کی اور بھی تصانیف ہیں مثلا تاریخ اور الطبقات الصغریٰ ہوسکتا ہے کہ یہ روایت ان میں سے کسی کتاب میں ہو۔ اس پر پانچواں اشکال یہ ہے کہ بعض فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو بلا کراہت جائز کہا ہے
١/ جیسا کہ علامہ قہستانی نے نقل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں چھٹی اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ فقہاء نے جو بلند جگہ پر اور مینار پر اذان دینے کا طریقہ بتایا ہے اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ اذان کی آواز تمام جگہوں پر پہنچ جائے اور اب جب کہ لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کی آواز زیادہ آسانی سے دور دور تک پہنچ جاتی ہے تو مینار پر چڑھ کر اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ مینار بھی چالیس ہجری کے بعد بنائے گئے ہیں، آج کل عموماً مسجد کے محراب میں اذان دینے کے لیے ایک جگہ بنالی جاتی ہے اور وہاں لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے کیونکہ نبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں اذان دینے سے منع نہیں فرمایا، یہ ممانعت صرف چھٹی صدی ہجری اور بعد کے بعض فقہاء سے منقول ہے، جب کہ اس کے برخلاف احادیث سے مسجد میں اذان دینا ثابت ہے اور بعض فقہاء نے بھی مسجد میں اذان دینے کو بلا کراہت جائز کہا ہے، نیز اذان میں اللہ کا ذکر ہے اور مسجد میں اللہ کی ذکر سے روکنے پر سخت وعید ہے۔
ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ انیذکر فیھا السمہ۔ (البقرہ :114)
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مساجد میں اللہ کے اسم کے ذکر کرنے سے منع کرے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا منع ہے، اس لیے مسجد میں آواز بلند نہیں کرنی چاہیے اور اذان بلندآواز سے دی جاتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے سب سے بڑی مسجد یعنی کعبہ کی چھت پر حضرت بلال سے اذان دلوائی، مساجد میں دینی جلسے کیے جاتے ہیں جن میں بلند آواز سے تلاوت کی جاتی ہے، نعتیں پڑھی جاتی ہیں، نعرہتکبیر اور نعرہ رسالت لگاجاتے ہیں جن سے ساری مسجد گونج اٹھتی ہے، نمازوں کے بعد ذکر یا بالجبر کیا جاتا ہے، جلسوں میں اور جمعہ کی نماز کے بعد بلند آواز سے صلوٰۃ وسلام پڑھا جاتا ہے، مذکور الصدر حدیث اور اہل سنت کے معمولات سے معلوم ہوا کہ مساجد میں اللہ کے نام اور اس کے ذکر کو بلند آواز سے کرنا ممنوع نہیں ہے البتہ مساجد میں بلندآواز سے جو ذکر ممنوع ہے وہ یہ ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص یہ سنے کہ کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کا بلند آواز سے مسجد میں اعلان کررہا ہے، اسے چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ اللہ تیری گم شدہ چیز کو واپس نہ کرے، کیونکہ مساجد کو اس لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٨، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٧٠٦)
اور ہمارے ہاں رواج ہے کہ گم شدہ چیزوں کا مساجد کے لائوڈ اسپیکر سے اعلان کیا جاتا ہے، سو اگر خطرہ ہے تو ان اعلانات کو خطرہ ہے، اللہ کے نام کے ذکر اور اذان کو کیا خطرہ ہے، ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ متقدمین مسجد کے مینار میں اذان دینے کے لیے اس وجہ سے کہتے تھے کہ بلند جگہ پر اذان دینے سے آواز سب لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور اب لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ یہ مقصد زیادہ اچھے اور بہتر طریقہ سے پورا ہوجاتا ہے، اس لیے محراب مسجد میں جو لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے یہ بالکل شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(تفسیر تبیان القران سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 33)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/08/2023
17/08/2023