(سوال نمبر 263)
موزے یعنی خفین کا شرعی مسئلہ کیا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
موزے یعنی خفین کا شرعی مسئلہ کیا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
موزے کے مسائل بیان فرما دیں۔؟
سائل:- نعمان اعجاز پنجاب پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بإسمه عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں
آقا علیہ السلام نے مسافر کو تین دن، تین راتیں اور مقیم کو ایک دن رات مَوزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی ،جب کہ طہارت کے ساتھ پہنے ہوں ۔
(سنن الدار قطني کتاب الطھارۃ، باب الرخصۃ في المسح علی الخفین ۔ إلخ، الحدیث ۷۳۷ ، ج ۱ ص ۲۷۰)
جو شخص موزہ پہنے ہوئے ہو وہ اگر وُضو میں بجائے پاؤں دھونے کے مسح کرے جائز ہے اور بہتر پاؤں دھونا ہے بشرطیکہ مسح جائز سمجھے۔ اور اس کے جواز میں بکثرت حدیثیں آئی ہیں جو قریب قریب تواتر کے ہیں اسی لیے امام کرخی رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں جو اس کو جائز نہ جانے اس کے کافر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ امام شیخ الاسلام فرماتے ہیں جو اسے جائز نہ مانے گمراہ ہے۔ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اہلسنّت و جماعت کی علامت دریافت کی گئی فرمایا:
تَفْضِیْلُ الشَّیْخَیْنِ وَحُبُّ الْخَتْنَیْنِ وَمَسْحُ الْخُفَّیْنِ
یعنی حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق و امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو تمام صحابہ سے بزرگ جاننا اور امیر المومنین عثمانِ غنی و امیر المومنین علی مرتضی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے محبت رکھنا اور مَوزوں پر مسح کرنا۔ اور ان تینوں باتوں کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ حضرت کوفہ میں تشریف فرما تھے اور وہاں رافضیوں ہی کی کثرت تھی تو وہی علامات ارشاد فرمائیں جو ان کا رد ہیں اس روایت کے یہ معنی نہیں کہ صرف ان تین باتوں کا پایا جانا سُنّی ہونے کے لیے کافی ہے۔ علامت شے میں پائی جاتی ہے، شے لازمِ علامت نہیں ہوتی جیسے حدیثِ صحیح بُخاری شریف میں وہابیہ کی علامت فرمائی( سِیْمَا ھُمُ التَّحْلِیْقُ )ان کی علامت سر منڈانا ہے۔اس کے یہ معنی نہیں کہ سر منڈانا ہی وہابی ہونے کے لیے کافی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں اس کے جواز پر کچھ خدشہ نہیں کہ اس میں چالیس صحابہ سے مجھ کو حدیثیں پہنچیں،
جس پر غُسل فرض ہے وہ مَوزوں پر مسح نہیں کرسکتا۔
عورتیں بھی مسح کر سکتی ہیں ،مسح کرنے کے لیے چند شرطیں ہیں،
موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں اس سے زِیادہ ہونے کی ضرورت نہیں اور اگردوایک اُنگل کم ہو جب بھی مسح درست ہے، ایڑی نہ کھلی ہو۔
پاؤں سے چپٹا ہو، کہ اس کو پہن کر آسانی کے ساتھ خوب چل پھر سکیں ۔
چمڑے کا ہو یا صرف تَلا چمڑے کا اور باقی کسی اور دبیز چیز کا جیسے کرمچ وغیرہ۔
ہندوستان میں جو عموماً سوتی یا اُونی موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے
مدّت کے اندر ہو اور اس کی مدت مقیم کے لیے ایک دن رات ہے اور مسافر کے واسطے تین دن اور تین راتیں،
اسی طرح بہار شریعت میں ہے
(بہار شریعت ح ٢ ص ٦٦دعوت اسلامي )
غنیۃ المتملي ،فصل في المسح علی الخفین، ص ۱۰۴۔
صحیح البخاري کتاب التوحید، باب قراء ۃ الفاجر ۔إلخ، الحدیث ۷۵۶۲ ، ج ۴ ص ۵۹۹۔
غنیۃ المتملي فصل في المسح علی الخفین، ص ۱۰۴۔
الدرالمختار کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج ۱ ص ۴۹۵۔
الفتاوی الھندیۃ الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الثاني، ج ۱ ص ۳۶
الفتاوی الرضویۃ ج ۴ ، ص ۳۴۵۔
الفتاوی الھندیۃ کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج ۱ ، ص ۳۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
موزے کے مسائل بیان فرما دیں۔؟
سائل:- نعمان اعجاز پنجاب پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بإسمه عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں
آقا علیہ السلام نے مسافر کو تین دن، تین راتیں اور مقیم کو ایک دن رات مَوزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی ،جب کہ طہارت کے ساتھ پہنے ہوں ۔
(سنن الدار قطني کتاب الطھارۃ، باب الرخصۃ في المسح علی الخفین ۔ إلخ، الحدیث ۷۳۷ ، ج ۱ ص ۲۷۰)
جو شخص موزہ پہنے ہوئے ہو وہ اگر وُضو میں بجائے پاؤں دھونے کے مسح کرے جائز ہے اور بہتر پاؤں دھونا ہے بشرطیکہ مسح جائز سمجھے۔ اور اس کے جواز میں بکثرت حدیثیں آئی ہیں جو قریب قریب تواتر کے ہیں اسی لیے امام کرخی رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں جو اس کو جائز نہ جانے اس کے کافر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ امام شیخ الاسلام فرماتے ہیں جو اسے جائز نہ مانے گمراہ ہے۔ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اہلسنّت و جماعت کی علامت دریافت کی گئی فرمایا:
تَفْضِیْلُ الشَّیْخَیْنِ وَحُبُّ الْخَتْنَیْنِ وَمَسْحُ الْخُفَّیْنِ
یعنی حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق و امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو تمام صحابہ سے بزرگ جاننا اور امیر المومنین عثمانِ غنی و امیر المومنین علی مرتضی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے محبت رکھنا اور مَوزوں پر مسح کرنا۔ اور ان تینوں باتوں کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ حضرت کوفہ میں تشریف فرما تھے اور وہاں رافضیوں ہی کی کثرت تھی تو وہی علامات ارشاد فرمائیں جو ان کا رد ہیں اس روایت کے یہ معنی نہیں کہ صرف ان تین باتوں کا پایا جانا سُنّی ہونے کے لیے کافی ہے۔ علامت شے میں پائی جاتی ہے، شے لازمِ علامت نہیں ہوتی جیسے حدیثِ صحیح بُخاری شریف میں وہابیہ کی علامت فرمائی( سِیْمَا ھُمُ التَّحْلِیْقُ )ان کی علامت سر منڈانا ہے۔اس کے یہ معنی نہیں کہ سر منڈانا ہی وہابی ہونے کے لیے کافی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں اس کے جواز پر کچھ خدشہ نہیں کہ اس میں چالیس صحابہ سے مجھ کو حدیثیں پہنچیں،
جس پر غُسل فرض ہے وہ مَوزوں پر مسح نہیں کرسکتا۔
عورتیں بھی مسح کر سکتی ہیں ،مسح کرنے کے لیے چند شرطیں ہیں،
موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں اس سے زِیادہ ہونے کی ضرورت نہیں اور اگردوایک اُنگل کم ہو جب بھی مسح درست ہے، ایڑی نہ کھلی ہو۔
پاؤں سے چپٹا ہو، کہ اس کو پہن کر آسانی کے ساتھ خوب چل پھر سکیں ۔
چمڑے کا ہو یا صرف تَلا چمڑے کا اور باقی کسی اور دبیز چیز کا جیسے کرمچ وغیرہ۔
ہندوستان میں جو عموماً سوتی یا اُونی موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے
مدّت کے اندر ہو اور اس کی مدت مقیم کے لیے ایک دن رات ہے اور مسافر کے واسطے تین دن اور تین راتیں،
اسی طرح بہار شریعت میں ہے
(بہار شریعت ح ٢ ص ٦٦دعوت اسلامي )
غنیۃ المتملي ،فصل في المسح علی الخفین، ص ۱۰۴۔
صحیح البخاري کتاب التوحید، باب قراء ۃ الفاجر ۔إلخ، الحدیث ۷۵۶۲ ، ج ۴ ص ۵۹۹۔
غنیۃ المتملي فصل في المسح علی الخفین، ص ۱۰۴۔
الدرالمختار کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج ۱ ص ۴۹۵۔
الفتاوی الھندیۃ الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الثاني، ج ۱ ص ۳۶
الفتاوی الرضویۃ ج ۴ ، ص ۳۴۵۔
الفتاوی الھندیۃ کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج ۱ ، ص ۳۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال