(سوال نمبر 7028)
میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں کیا یہ حدیث ہے؟
_________(❤️)_________
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ علی مجھے سی ہیں اور میں علی سے ہیں جب کہ زیادہ تر علمائے سے یہی بات امام حسین کے لئے ہم نے سنی برائے کرم نظر کرم فرمائیں اور اس حدیث کے بارے میں بھی جس کا میں مولیٰ ہو اس کا علی مولیٰ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سائل :- محمد احمد رضا انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالي عزوجل
١/ اقا علیہ السلام نے فرمایا علی مجھے سی ہیں اور میں علی سے ہوں ۔
٢/ آقا علیہ السلام نے فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
٣/ آقا علیہ السلام نے فرمایا
جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے۔
مذکورہ تینوں احادیث صحیح ہے کتب حدیث میں وارد ہے۔
١/ یہ روایت
حسین مني و أنا من حسین أحب اللہ من أحب حسیناً حسین سِبط من الأسباط“ کے متن کے ساتھ عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن سعید بن ابی راشد عن یعلی العامری کی سند سے درج ذیل کتابوں میں موجود ہے ۔
(مسند الامام احمد (۱۷۲/۴) و فضائل الصحابۃ للامام احمد (ح ۱۳۶۱) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۲،۱۰۳/۱۲ ح ۳۲۱۸۶) المستدرک للحاکم (۱۷۷/۳ ح ۴۸۲۰ وقال ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی صحیح) صحیح ابن حبان (الاحسان: ۶۹۳۲، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۱) المعجم الکبیر للطبرانی (۳۳/۳ ح ۲۵۸۹ و ۲۷۴/۲۲ ح ۷۰۲) سنن ابن ماجہ (۱۴۴) سنن الترمذی (۳۷۷۵ وقال ھذا حدیث حسن)
اس حدیث کی سند حسن ہے اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے بوصیری نے کہا ھذا إسناد حسن، رجالہ ثقات۔
اس کا راوی سعید بن ابی راشد: صدوق ہے حافظ ذہبی نے کہا صدوق (الکاشف ۲۸۵/۱ ت ۱۹۰۰)
اسے ابن حبان، ترمذی اور حاکم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے بعض الناس کا یہ کہنا کہ اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے باطل ہے۔
٢/ یہ حدیث سنداً صحیح ہے،سنن ترمذی میں ہے
عن يعلى بن مرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حسين مني وأنا من حسين، أحب الله من أحب حسينا، حسين سبط من الأسباط». هذا حديث حسن.
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔ یہ حديث حسن ہے۔
(سنن الترمذي، ابواب المناقب، (5/ 658 و659) برقم (3775)، ط/ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)
حكم حديث
(1) امام حاكم (المتوفى: 405ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں
هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.
تعليق الذهبي قي التلخيص: صحيح.
یعنی یہ حديث صحیح الاسناد ہے لیکن صحیحین میں ذکر نہیں ہوئی ہے
علامہ ذہبی (المتوفى 748ھ) رحمہ اللہ نے تلخیص میں اسے صحیح کہا ہے
(المستدرک علي الصحیحین للحاکم مع تعلیقات الذھبی فی التلخیص، أول فضائل أبي عبد الله الحسين بن علي الشهيد رضي الله عنهما ابن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم و على آله، (3/ 177) ، ط/ دار المعرفة بيروت)
(2) علامہ هيثمي (المتوفى 807ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں
رواه الترمذي باختصار ذكر الحسن.رواه الطبراني، وإسناده حسن.
یعنی اس روایت کو ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے البتہ حسن رضی اللہ عنہ کے ذکرکے بغیر روایت کیا ہے، اور اسے طبرانی رحمہ اللہ نےبھی روایت کیا ہے ، اور اس کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد، باب فيما اشترك فيه الحسن والحسين رضي الله عنهما من الفضل،(9/ 181) برقم (1507)،ط/ مكتبة القدسي، القاهرة)
(3) علامہ بوصیری (المتوفى: 840 ھـ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں
هذا إسناد حسن، رجاله ثقات."
يعنی یہ سند حسن ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
(مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه، باب فضل الحسن والحسين رضي الله تعالى عنهما، (1/ 21) برقم (53)، ط/دار العربية بيروت)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بعض ائمہ محدثین نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے، یعنی اسےصحیحقرار ددیا ہے،اور امام ترمذی رحمہ اللہ سمیت بعض محدثین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اورحدیثِ حسن بھی حدیثِ صحیح کی طرح قابل ِ استدلال اور قابلِ بیان ہوتی ہے۔
٣/ عن علي عليه السلام أن النبي ﷺ قال يوم غدير خم مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔
(1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 152)‘ میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 705، رقم : 1206
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1369
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 448، رقم : 6878
5۔ ہیثمی نے اسے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163
7. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 171
8. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 77، 168، رقم : 32950، 36511
حدیث نمبر 27
عن عبد الله بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.)
عبد اللہ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ) جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں کیا یہ حدیث ہے؟
_________(❤️)_________
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ علی مجھے سی ہیں اور میں علی سے ہیں جب کہ زیادہ تر علمائے سے یہی بات امام حسین کے لئے ہم نے سنی برائے کرم نظر کرم فرمائیں اور اس حدیث کے بارے میں بھی جس کا میں مولیٰ ہو اس کا علی مولیٰ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سائل :- محمد احمد رضا انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالي عزوجل
١/ اقا علیہ السلام نے فرمایا علی مجھے سی ہیں اور میں علی سے ہوں ۔
٢/ آقا علیہ السلام نے فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
٣/ آقا علیہ السلام نے فرمایا
جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے۔
مذکورہ تینوں احادیث صحیح ہے کتب حدیث میں وارد ہے۔
١/ یہ روایت
حسین مني و أنا من حسین أحب اللہ من أحب حسیناً حسین سِبط من الأسباط“ کے متن کے ساتھ عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن سعید بن ابی راشد عن یعلی العامری کی سند سے درج ذیل کتابوں میں موجود ہے ۔
(مسند الامام احمد (۱۷۲/۴) و فضائل الصحابۃ للامام احمد (ح ۱۳۶۱) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۲،۱۰۳/۱۲ ح ۳۲۱۸۶) المستدرک للحاکم (۱۷۷/۳ ح ۴۸۲۰ وقال ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی صحیح) صحیح ابن حبان (الاحسان: ۶۹۳۲، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۱) المعجم الکبیر للطبرانی (۳۳/۳ ح ۲۵۸۹ و ۲۷۴/۲۲ ح ۷۰۲) سنن ابن ماجہ (۱۴۴) سنن الترمذی (۳۷۷۵ وقال ھذا حدیث حسن)
اس حدیث کی سند حسن ہے اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے بوصیری نے کہا ھذا إسناد حسن، رجالہ ثقات۔
اس کا راوی سعید بن ابی راشد: صدوق ہے حافظ ذہبی نے کہا صدوق (الکاشف ۲۸۵/۱ ت ۱۹۰۰)
اسے ابن حبان، ترمذی اور حاکم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے بعض الناس کا یہ کہنا کہ اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے باطل ہے۔
٢/ یہ حدیث سنداً صحیح ہے،سنن ترمذی میں ہے
عن يعلى بن مرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حسين مني وأنا من حسين، أحب الله من أحب حسينا، حسين سبط من الأسباط». هذا حديث حسن.
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔ یہ حديث حسن ہے۔
(سنن الترمذي، ابواب المناقب، (5/ 658 و659) برقم (3775)، ط/ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)
حكم حديث
(1) امام حاكم (المتوفى: 405ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں
هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.
تعليق الذهبي قي التلخيص: صحيح.
یعنی یہ حديث صحیح الاسناد ہے لیکن صحیحین میں ذکر نہیں ہوئی ہے
علامہ ذہبی (المتوفى 748ھ) رحمہ اللہ نے تلخیص میں اسے صحیح کہا ہے
(المستدرک علي الصحیحین للحاکم مع تعلیقات الذھبی فی التلخیص، أول فضائل أبي عبد الله الحسين بن علي الشهيد رضي الله عنهما ابن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم و على آله، (3/ 177) ، ط/ دار المعرفة بيروت)
(2) علامہ هيثمي (المتوفى 807ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں
رواه الترمذي باختصار ذكر الحسن.رواه الطبراني، وإسناده حسن.
یعنی اس روایت کو ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے البتہ حسن رضی اللہ عنہ کے ذکرکے بغیر روایت کیا ہے، اور اسے طبرانی رحمہ اللہ نےبھی روایت کیا ہے ، اور اس کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد، باب فيما اشترك فيه الحسن والحسين رضي الله عنهما من الفضل،(9/ 181) برقم (1507)،ط/ مكتبة القدسي، القاهرة)
(3) علامہ بوصیری (المتوفى: 840 ھـ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں
هذا إسناد حسن، رجاله ثقات."
يعنی یہ سند حسن ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
(مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه، باب فضل الحسن والحسين رضي الله تعالى عنهما، (1/ 21) برقم (53)، ط/دار العربية بيروت)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بعض ائمہ محدثین نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے، یعنی اسےصحیحقرار ددیا ہے،اور امام ترمذی رحمہ اللہ سمیت بعض محدثین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اورحدیثِ حسن بھی حدیثِ صحیح کی طرح قابل ِ استدلال اور قابلِ بیان ہوتی ہے۔
٣/ عن علي عليه السلام أن النبي ﷺ قال يوم غدير خم مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔
(1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 152)‘ میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 705، رقم : 1206
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1369
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 448، رقم : 6878
5۔ ہیثمی نے اسے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163
7. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 171
8. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 77، 168، رقم : 32950، 36511
حدیث نمبر 27
عن عبد الله بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.)
عبد اللہ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ) جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
10/08/2023