(سوال نمبر 311)
اس مسجد میں کبھی بھی امامت کروں گا تو میرا نکاح ٹوٹ جائے گا ،اس طرح کا قسم کھانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مسجد میں کبھی بھی امامت کروں گا تو میرا نکاح ٹوٹ جائے گا ،اس طرح کا قسم کھانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
امام صاحب کو کسی نے قرآن مجید کے سورۂ توبہ پر ہاتھ رکھ کر قسم دلوائی اور امام صاحب نے قسم کھا لی اس مسجد میں جب جب امامت کروگے تو تمہارا نکاح ٹوٹ جائے گا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
سائل:-محمد منظور عالم رضوی امام جامع مسجد چاندنی چوک کشن فرنگورا گنج بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
بصحت سوال اگر زید نے قرآن کی قسم کھاکر یہ کہا کہ اس مسجد میں جب بھی امامت کروں گا تو نکاح ٹوٹ جائے گا ۔
یہ سوال وضاحت طلب ہے کہ اس میں اپنا نکاح یا اپنی بیوی کے بابت تشریح نہیں ہے
آگر زید انکار کرے کہ میرا نکاح یا میری بیوی کے نکاح کے بابت ہم نے نہیں کہا تو زید کا قول مسموع ہوگا کہ زید کے قول میں اضافت نہیں ہے کہ میری بیوی یا میرا نکاح ۔
اور اگر شرعی شواہد حاصل ہوجائے اس طرح کہا ہو میری بیوی یا میرا نکاح پھر مذکورہ مشروط مسجد میں امامت کرنے سے طلاق رجعی واقع ہوگی۔
اسے تعلیق طلاق کہتے ہیں ۔
اگر طلاق کو کسی امر کے ساتھ مشروط کر دیا جائے تو اُس امر کے سرزد ہونے یعنی شرط پوری ہو جانے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے:
عَنْ الشَّعْبِیِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتهِ: کُلُّ امْرَأَةٍ أَتَزَوَّجُهَا عَلَیْک فَهَیَ طَالِقٌ، قَالَ: فَکُلُّ امْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُهَا عَلَیْهَا، فَهِیَ طَالِقٌ.
حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تیرے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کروں اُسے (نئی بیوی کو) طلاق ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ اس بیوی کے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کرے گا اُسے طلاق ہو جائے گی۔
(ابن أبي شیبة، المصنف، 4: 65، رقم: 17838، الریاض: مکتبة الرشد)
فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَإِذَا أَضَافَهُ إِلَی شَرْطٍ وَقَعَ عَقِیْبَ الشَّرْطِ.
جب خاوند نے طلاق کو شرط سے مشروط کیا تو جب شرط پائی گئی، طلاق ہو جائے گی۔
(مرغیناني، الهدایة، 1: 251، المکتبة الاِسلامیة)(الفتاوی الهندیة، 1: 420، دار الفکر)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
تعلیق کے معنے یہ ہیں کہ کسی چیز کا ہونا دوسری چیز کے ہونے پر موقوف کیا جائے یہ دوسری چیز جس پر پہلی موقوف ہے اس کو شرط کہتے ہیں تعلیق صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ شرط‘ فی الحال معدوم ہو ،مگر عادۃًہو سکتی ہو لہٰذا اگر شرط معدوم نہ ہو مثلاً یہ کہے کہ اگر آسمان ہمارے اوپر ہو تو تجھ کو طلاق ہے یہ تعلیق نہیں بلکہ فوراً طلاق واقع ہو جائیگی اور اگر شرط عادۃًمحال ہو مثلاً یہ کہ اگر سوئی کے ناکے میں اونٹ چلا جائے تو تجھ کو طلاق ہے یہ کلام لغو ہے اس سے کچھ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ’شرط‘ متصلاً بولی جائے اور یہ کہ سزا دینا مقصودنہ ہو مثلاً عورت نے شوہر کو کمینہ کہا شوہر نے کہا اگر میں کمینہ ہوں تو تجھ پر طلاق ہے تو طلاق ہوگئی اگرچہ کمینہ نہ ہو کہ ایسے کلام سے تعلیق مقصود نہیں ہوتی بلکہ عورت کو ایذا دینا، اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فعل ذکر کیا جائے جسے شرط ٹھہرایا، لہٰذا اگر یوں کہا تجھے طلاق ہے اگر، اور اس کے بعد کچھ نہ کہا تو یہ کلام لغو ہے طلاق نہ واقع ہوئی نہ ہوگی۔ تعلیق کے لیے شرط یہ ہے کہ عورت تعلیق کے وقت اُس کے نکاح میں ہو
(بہار شریعت ح ٨ص ١٥١دعوت اسلامی سوفٹویر )
(الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الطلاق،باب التعلیق,مطلب:فیمالوحلف لایحلف فعلق،ج ۴ص ۵۷۸۔۵۸۶ وغیرہما )
خدا کی جس صفت کی قسم کھائی جاتی ہو اس کی قسم کھائی ہوگئی مثلاً خدا کی عزت وجلال کی قسم، اس کی کبریائی کی قسم، اس کی بزرگی یا بڑائی کی قسم،اس کی عظمت کی قسم، اس کی قدرت و قوت کی قسم، قرآن کی قسم، کلام اللہ کی قسم، ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے۔(بہار شریعت ح ٩ص ٣٠٤دعوت اسلامی سوفٹویر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
امام صاحب کو کسی نے قرآن مجید کے سورۂ توبہ پر ہاتھ رکھ کر قسم دلوائی اور امام صاحب نے قسم کھا لی اس مسجد میں جب جب امامت کروگے تو تمہارا نکاح ٹوٹ جائے گا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
سائل:-محمد منظور عالم رضوی امام جامع مسجد چاندنی چوک کشن فرنگورا گنج بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
بصحت سوال اگر زید نے قرآن کی قسم کھاکر یہ کہا کہ اس مسجد میں جب بھی امامت کروں گا تو نکاح ٹوٹ جائے گا ۔
یہ سوال وضاحت طلب ہے کہ اس میں اپنا نکاح یا اپنی بیوی کے بابت تشریح نہیں ہے
آگر زید انکار کرے کہ میرا نکاح یا میری بیوی کے نکاح کے بابت ہم نے نہیں کہا تو زید کا قول مسموع ہوگا کہ زید کے قول میں اضافت نہیں ہے کہ میری بیوی یا میرا نکاح ۔
اور اگر شرعی شواہد حاصل ہوجائے اس طرح کہا ہو میری بیوی یا میرا نکاح پھر مذکورہ مشروط مسجد میں امامت کرنے سے طلاق رجعی واقع ہوگی۔
اسے تعلیق طلاق کہتے ہیں ۔
اگر طلاق کو کسی امر کے ساتھ مشروط کر دیا جائے تو اُس امر کے سرزد ہونے یعنی شرط پوری ہو جانے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے:
عَنْ الشَّعْبِیِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتهِ: کُلُّ امْرَأَةٍ أَتَزَوَّجُهَا عَلَیْک فَهَیَ طَالِقٌ، قَالَ: فَکُلُّ امْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُهَا عَلَیْهَا، فَهِیَ طَالِقٌ.
حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تیرے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کروں اُسے (نئی بیوی کو) طلاق ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ اس بیوی کے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کرے گا اُسے طلاق ہو جائے گی۔
(ابن أبي شیبة، المصنف، 4: 65، رقم: 17838، الریاض: مکتبة الرشد)
فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَإِذَا أَضَافَهُ إِلَی شَرْطٍ وَقَعَ عَقِیْبَ الشَّرْطِ.
جب خاوند نے طلاق کو شرط سے مشروط کیا تو جب شرط پائی گئی، طلاق ہو جائے گی۔
(مرغیناني، الهدایة، 1: 251، المکتبة الاِسلامیة)(الفتاوی الهندیة، 1: 420، دار الفکر)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
تعلیق کے معنے یہ ہیں کہ کسی چیز کا ہونا دوسری چیز کے ہونے پر موقوف کیا جائے یہ دوسری چیز جس پر پہلی موقوف ہے اس کو شرط کہتے ہیں تعلیق صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ شرط‘ فی الحال معدوم ہو ،مگر عادۃًہو سکتی ہو لہٰذا اگر شرط معدوم نہ ہو مثلاً یہ کہے کہ اگر آسمان ہمارے اوپر ہو تو تجھ کو طلاق ہے یہ تعلیق نہیں بلکہ فوراً طلاق واقع ہو جائیگی اور اگر شرط عادۃًمحال ہو مثلاً یہ کہ اگر سوئی کے ناکے میں اونٹ چلا جائے تو تجھ کو طلاق ہے یہ کلام لغو ہے اس سے کچھ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ’شرط‘ متصلاً بولی جائے اور یہ کہ سزا دینا مقصودنہ ہو مثلاً عورت نے شوہر کو کمینہ کہا شوہر نے کہا اگر میں کمینہ ہوں تو تجھ پر طلاق ہے تو طلاق ہوگئی اگرچہ کمینہ نہ ہو کہ ایسے کلام سے تعلیق مقصود نہیں ہوتی بلکہ عورت کو ایذا دینا، اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فعل ذکر کیا جائے جسے شرط ٹھہرایا، لہٰذا اگر یوں کہا تجھے طلاق ہے اگر، اور اس کے بعد کچھ نہ کہا تو یہ کلام لغو ہے طلاق نہ واقع ہوئی نہ ہوگی۔ تعلیق کے لیے شرط یہ ہے کہ عورت تعلیق کے وقت اُس کے نکاح میں ہو
(بہار شریعت ح ٨ص ١٥١دعوت اسلامی سوفٹویر )
(الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الطلاق،باب التعلیق,مطلب:فیمالوحلف لایحلف فعلق،ج ۴ص ۵۷۸۔۵۸۶ وغیرہما )
خدا کی جس صفت کی قسم کھائی جاتی ہو اس کی قسم کھائی ہوگئی مثلاً خدا کی عزت وجلال کی قسم، اس کی کبریائی کی قسم، اس کی بزرگی یا بڑائی کی قسم،اس کی عظمت کی قسم، اس کی قدرت و قوت کی قسم، قرآن کی قسم، کلام اللہ کی قسم، ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے۔(بہار شریعت ح ٩ص ٣٠٤دعوت اسلامی سوفٹویر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/1/2021
16/1/2021