Type Here to Get Search Results !

کیا غلطی سے دستخط کردینے سے حق وراثت ختم ہو جاتاہے؟

 (سوال نمبر 6060)
کیا غلطی سے دستخط کردینے سے حق وراثت ختم ہو جاتاہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
*کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس وراثت کے مسئلے میں کی میری اہلیہ کا بھائی مکان بیچنا چاہتا ہے اور وہ ایک ایگریمنٹ پیپر میں دھوکے سے سگنچر كرا لیا کہ اس گھر میں ہم دونوں بھائی کا حصہ ہے اور کسی بہن کا حصہ نہیں ہے اور میری اہلیہ نے سیگنچر کر دیا بعد میں افسوس کرنے لگی ہم سے غلطی ہو گئی والد صاحب کے انتقال کو تقریباً ۱۰ سال ہو گئے اور والد صاحب نے اپنی حیات میں بھائیو کے نام مکان نہیں کیا ہے اور والد صاحب کے وصال کے بعد ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی تو عرض یہ کرنا ہے کی سيگنچر کرنے سے کیا شریعت کا حق ختم ہو جاتا ہے یا اب بھی باقی رہتا ہے؟‌میری اہلیہ نے ایگریمنٹ پڑھا نہیں بلکہ دھوکے سے سگنیچر کرا لیا ہے
سائل:-محمد ارشد عطاری جھارکھنڈ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل 
بصحت سوال جس طرح والدین کی وراثت میں بیٹے کا حصہ ہے اسی طرح بیٹی کا بھی حصہ ہے اگر واقعی ہندہ نے نہ جانتے ہوے کہ یہ دستخط کس کے لیے ہے؟ اور بھائیوں نے دھوکھا دہی سے دستخط کروائی ہے پھر یہ دستخط کردینے سے حق وراثت ختم نہیں ہوگا بلکہ شرعا جو حق حصہ ہندہ کے لئے ہے وہ ہندہ کو ملے گا ہندہ اپنا حق کورٹ سے بھی لے سکتی ہے۔
واضح رہے کہ خواتین اپنے والدین اور رشتہ داروں سے ارث پاتی ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے 
وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ أَوۡ كَثُرَۚ نَصِيبٗا مَّفۡرُوضًا..
اور عورتوں کے لئے بھی ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ میں سے ایک حصہّ ہے وہ مال بہت ہو یا تھوڑا یہ حصہّ بطور فریضہ ہے۔
بیٹی کی تین صورتیں ہیں (۱) اگر بیٹی ایک ہو تو 1 / 2 ایک بٹا دو یعنی آدھا مال ملے گا۔ (۲) اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں توان کو 2 / 3 دو بٹا تین ملے گا۔ (۳) اگربیٹیوں کے ساتھ بیٹابھی ہوتوبیٹیاں عصبہ بن جائیں گی اور لڑکے کولڑکی سے دوگنا دیا جائے گا۔
مذکورہ صورت میں جب 2 بھائی اور ایک بہن ہے تو میت کے کل ملکیت سے تجہیز و تکفین اور قرض ادا کرنے کے بعد کل مال کو پانچ حصے کریں گے دو دو حصے دونوں بھائیوں کو اور ایک حصہ بہن کو ملے گا۔
سورہ نساء میں اللہ فرماتا ہے 
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ- لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔
02/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area