Type Here to Get Search Results !

کیا اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے؟

 (سوال نمبر 4162)
کیا اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے؟
...........................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حدیث پاک کے بارے میں اس حدیث پاک کی توضیح فرما دیں 
اور یہ بھی بتایں کہ کیا اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے،؟
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَاسًا اجْتَوَوْا فِي الْمَدِينَةِ فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ يَعْنِي الْإِبِلَ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا ، فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حَتَّى صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ ، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَسَاقُوا الْإِبِلَ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَبَعَثَ فِي طَلَبِهِمْ ، فَجِيءَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ قَالَ قَتَادَةُ : فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، أَنَّ ذَلِكَ كَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ .
(عرینہ کے ) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ کے چرواہے کے ہاں چلے جائیں یعنی اونٹوں میں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں ۔ چنانچہ وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے ۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں لایا گیا تو آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی ( جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا ) ۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے (صحیح بخاری کتاب دوا اور علاج کے بیان میں)
سائل:- محمد جمشید صالحپورشریف بستی یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
یہ حدیث دوسری حدیث سے منسوخ ہے یہ آقا علیہ السلام کے لئے خاص تھا اب جائز نہیں چونکہ ہمارے نزدیک علاج کے طور پر یا کسی دوسرے مقصد کے لیے کسی بھی جانور کا پیشاب پینا جائز نہیں کیونکہ یہ ناپاک وحرام ہوتا ہے اور اس سے شفا بھی یقینی نہیں اور پھراس کےمتبادل حلال وجائزدوائیں عام طورپر موجود ہوتی ہیں ۔
مذکورہ حدیث میں 
بیمارافرادکواونٹ کے پیشاب پینے کاحکم فرمایاگیا تواس بابت حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کوبذریعہ وحی اس بات کا یقینی علم تھاکہ ان کاعلاج اس میں ہے اس لیے اجازت عطا فرمائی جبکہ ہمارے پاس یقینی علم کاکوئی ذریعہ نہیں۔اوریا پھریہ روایت منسوخ ہے اس روایت کی وجہ سے کہ جس میں پیشاب سے بچنے کاحکم فرمایاگیاہے ۔
مشکوۃ المصابیح میں حدیث پاک ہے کہ عن ابن عباس قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول - وفي رواية لمسلم: لا يستنزه من البول - وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين ثم غرز في كل قبر واحدة قالوا يا رسول الله لم صنعت هذا قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو فرمایا کہ یہ دونوں عذاب دئیے جارہے ہیں اورکسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دئیےجارہے ان میں سے ایک تو پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور مسلم کی روایت میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز نہ کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا ،پھر آپ نے ایک ہری تر شاخ لی اور اسے چیرکر دوحصے فرمائے پھر ہرقبر میں ایک گاڑ دی لوگوں نے عرض کیا یارسول ﷲ آپ نے یہ کیوں کیا،تو فرمایا کہ شاید جب تک یہ نہ سوکھیں تب تک ان کا عذاب ہلکا ہوا (مشکوۃ المصابیح،ج 01،صفحہ110،مطبوعہ بیروت)
مراۃ المناجیح میں ہے 
حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہے جس سے بچنا واجب۔دیکھو اونٹ کا چرواہا اونٹ کے پیشاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوا 
(مرأۃ المناجیح،جب 01، ص 260، نعیمی کتب خانہ )
حرام چیز سے شفا کے متعلق جامع صغیر کی حدیث پاک ہے 
ان اللہ تعالی لم یجعل شفاءکم فیما حرم علیکم
بے شک اللہ پاک نے ان چیزوں میں تمہاری شفاء نہیں رکھی جو اس نےتم پر حرام کی ہیں۔ ( فیض القدیر شرح جامع صغیر،ج 06،ص 252،مطبوعہ مصر)
ہدایہ میں ہے
وتأويل ما روي أنه عليه الصلاة والسلام عرف شفاءهم فيه وحيا ثم عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى لا يحل شربه للتداوي ولا لغيره لأنه لا يتيقن بالشفاء فيه فلا يعرض عن الحرمة
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے جو مروی ہے کہ (آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرینہ والوں کو بطور علاج اونٹوں کے پیشاب پینے کا حکم فرمایاتو) اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے وحی کے ذریعے جان لیا تھا کہ ان کی شفاء اس میں ہے۔پھر امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک اونٹ کا پیشاب پینا علاج کے طور پر یا اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے حلال نہیں کیونکہ اس کے ذریعے شفاء کا حصول یقینی نہیں تو حرمت سےچشم پوشی نہیں کی جائے گی۔
(ہدایہ،کتاب الطھارات،ج 1،ص 24،دار احیاء التراث العربی،بیروت)
کمال الدرایۃ وجمع الروایۃ والدرایۃ ،شرح ملتقی الابحر میں ہے قلنا: إنه صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم عرف شفاءهم فيه وحياً، ولم يوجد في زماننا، أو أنه منسوخ بحديث استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه صححه ابن خزيمة
(حدیث عرینہ ) کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے وحی سے جان لیا تھا کہ ان کی شفاء اسی میں ہے اور یہ ہمارے زمانے میں موجود نہیں،یا حدیث عرینہ، اس حدیث سے منسوخ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:پیشاب سے بچو کہ عام طور پر عذاب قبر اسی سے نہ بچنے کی بناء پر ہوتا ہے۔ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ 
(کمال الدرایۃ وجمع الروایۃ والدرایۃ ،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 125،دار الکتب العلمیۃ،بیروت )
(ایسا ہی فتاوی اہلسنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/98/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area