Type Here to Get Search Results !

کیا شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو مہر معاف کرنا ضروری ہے؟

 (سوال نمبر 2070)
کیا شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو مہر معاف کرنا ضروری ہے؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 کہیں کہیں کا رواج ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد عورت اپنا مہر دین میت کے قریب جاکر معاف کرواتے ہیں ایسا کرنے سے معاف ہوگا یا نہیں؟ یا پھر کچھ صورت ہوگی ادا کرنے کی۔ بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں تاکہ رواج ختم ہو جائے نوازش ہوگی۔
سائل:-محمد رفیق سانگلی مہا راشٹر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمد و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مسئولہ میں 
(١) مہر کی تین قسمیں ہیں 
 ١ مہر معجل کہ خلوت سے پہلے مہر دینا قرار پایا ہو ۔اور ٢ مہر مؤجل جس کے لئے کوئی میعاد مقرر ہو۔ اور٣ مہر مطلق جس میں بعد الطلاق یا قبل الموت ادا کرنا ضروری ہے ۔اسی طرح بہار شریعت میں ہے۔ (بہار شریعت ح ٧ ص ٧٥)
یہ ایک جاہلانہ رواج ہے کہ شوہر کے انتقال ہو جانے پر جنازہ گھر سے نکلنے سے قبل بیوی سے مہر کی معافی کا اقرار کرواتے ہیں جس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں، 
تقسیم وراثت سے قبل بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا کہ شوہر کے ذمہ یہ قرض ہے اور قرض کی ادائیگی وراثت کی تقسیم پر مقدم ہوتی ہے،
پراگرچہ یہ رواج مہر بخشوانے کا نا پسند و نا محمود اور ذلت آمیز ہے با ایں ہمہ اگر بیوی دل سے معاف کر دے تو معاف ہو جائے گا۔
 واضح رہے کہ مہر بیوی کا شرعی حق ہے اس لئے حسب استطاعت بوقت نکاح مقرر کرنی چاہئے پھر بوقت نکاح یا جتنا جلد ہوسکے ادا کردینی چاہئے ۔ 
اسی طرح عورت مہر کی رقم سونے چاندی زیورات چھوڑ کر وفات پائی تو مہر کی رقم مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہوگی اور اس ترکہ کو ازروئے شرع تقسیم کردیا جائے گا جس میں شوہر بھی اپنا مقررہ حصہ پائے گا۔
اور اگر عورت نے وصیت کی ہو کہ رقم مہر فلاں کو دینی ہے تو وصیت پوری کی جائے گی کہ یہ اس کا حق ہے ۔
جیسا کہ درمختار میں ہے ۔ 
ویتأ کدا عند وطئی او خلوۃ صحت اور موت احدھما۔
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 1384/4257)۔
(٢) بیٹے کے مرجانے پر ماں کو بیٹے کا دودھ معاف کر نا 
یہ ایک محاوراتی بات ہے۔ بچے کو پیٹ میں اٹھانے سے لے کر جنم دینے اور سالوں تک پروش کرنے میں ایک ماں جو مشکلات برداشت کرتی ہے، بچہ ساری زندگی ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے ایک ماں کو بےشمار حقوق عطا کرتے ہوئے جنت کو ماں کے قدموں تلے تلاش کرنے کا حق دیا۔ جب ماں یہ محارہ بولتی ہے کہ میں نے اپنے فلاں بچے کو دودھ بخش دیا‘ تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اپنے حقوق میں کم پیشی کو معاف کر دیا۔ اور اگر محاورہ اِس کے برعکس بولا تو مراد ہے کہ ماں نے اپنے حقوق میں کم پیشی کو معاف نہیں کیا۔یعنی حقوق والدہ کے کمی کے باعث مواخذہ کیا جائے گا، 
معلوم ہوا کہ مہر کا معاف کروانا یا دودھ کا معاف کر نا ایک رسم ہے ۔پر عورت مہر لینے سے قبل مرگئی اور اپنی زندگی میں معاف بھی نہیں کیا تو قیامت میں حقوق العباد کے تحت شوہر سے مواخذہ ہوگا ،یونہی حقوق والدین کے تحت بھی مواخذہ ہوگا ۔۔
یعنی مہر عورت کا حق ہے اگر اس نے بخوشی اپنا حق معاف کر دیا تو معاف ہو جاٸیگا 
اور معاف نہ کرے تو عورت کو اختیار ہے کہ وہ مطالبہ کرے اور مرد پر لازم ہیکہ مہر ادا کرے اگر ادا نہ کیا تو بعد وصال بھی عورت مرد کے مال سے اپنا مہر لے سکتی ہے اور اگر عورت پہلے وصال کر جاٸے تو ان کے ورثہ کو یہ حق حاصل ہے کہ مہر لیں 
البتہ جب تک عورت معاف نہ کرے ہر حال میں مہر ادا کرنا پڑیگا 
بغیر ادا کے کوٸی ختم نہیں کر سکتا
(فتاویٰ خلیلیہ ج ٢ ص ٩٦)
اور فتاوی فیض الرسول میں ہیکہ 
عورت کو مار کی دھمکی دے کر معاف کرانے اور عورت مار کے خوف سے معاف کر دے تو معاف نہ ہوگا ۔ اور اگر مرض الموت میں معاف کرایا 
جیسا عوام میں رائج ہیں کہ جب عورت مرنے لگتی ہے تو مہر معاف کراتے ہیں تو ایسی صورتحال میں ورثہ کی اجازت کے بغیر معاف نہ ہوگا 
اور دین مہر ادا نہ کیا نہ بعد وصال اس کے مال سے ادا کیا گیا تو وہ حق العباد میں گرفتار ہوگا ۔ دین مہر ادا نہ کرنے کے تعلق سے حدیث مبارکہ میں ہیکہ 
جو شخص نکاح کرے اور نیت یہ ہےکہ عورت کو مہر سے کچھ نہ دیگا تو جس روز مرے گا زانی مرے گا (فتاوی فیض الرسول ج ١ ص ٧١٦)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٨، ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری.
 ٢٥ اکتوبر ۲۰۲۰عیسوی بروز .یکشنبہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام،
 أركان سني شرعی بور ڈ آف نیپال
(١) قاضي نیپال
 حضرت علامہ مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی قاضي القضاة
 مرکزی ادارہ شرعیہ پنج کشمیری تکیہ جامع مسجد کاٹھمانڈو نیپال۔
(٢) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) مفتي محمد عابد حسين افلاك المصباحي صاحب ۔ 
(٤) مفتي محمد کلام الدین نعمانی مصباحی صاحب 
(ه) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 *زیر سرپرستی* 
قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔۔
 *المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔۔۔۔۔۔* 
 ٢٥،أكتوبر ٢٠٢٠ء /
٨،،ربيع الأول ، ١٤٤٢ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area