(سوال نمبر 4217)
کیا جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابہ نے منایا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے اکرام مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا کہناہے کہ جشن عید میلاد النبی یعنی جلوس محمدی کسی صحابہ اکرام نے منایا ہو تو ثبوت دیجیے حضرت صدیق اکبر حضرت عمر فاروق حضرت عثمان غنی حضرت مولا علی چاروں میں سے کسی نے جلوس محمدی نکالا ہے تو صحیح بخاری شریف سے ثبوت دیجیے گا مہربانی ہوگی
المستفتی:- فقیر ناچیز محمد شاداب نوری محلہ رستمٹولہ قصبہ سہسوان ضلع بدایوں شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
یہ ذہن وہابیہ کا ہے کہ بخاری سے ثبوت دیں۔
مروجہ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ یا جلوس محمدی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی نے نہیں کیا پر جائز ہے
چونکہ شرعا منع نہیں ہے موبائل چلانا مسجد میں پنکھا لگوانا مروجہ مدرسہ کی عمارت یہ سب پہلے کچھ نہیں تھا پھر بھی جائز ہے کہ شرعا منع نہیں ہے
فقہ کا قاعدہ ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے جس بابت کتاب و سنت میں ممانعت نہیں وہ جائز ہے
خزائن العرفان میں نے
جو لوگ توشہ گیارہویں میلاد شریف بزرگوں کی فاتحہ، عرس، مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی، سبیل کے شربت کو ممنوع کہتے ہیں، وہ اس آیت کے خلاف کرکے گنہ گار ہوتے ہیں اور اس کو ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت و ضلالت ہے۔ (حاشیہ خزائن العرفان، ص 248، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)
صاحب بہار شریعت فرماتے ہیں
اَلأصْلُ فِی الأشْیَاءِ الإبَاحَۃُ یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل حضرت امام شافعی اور احناف میں حضرت امام کرخی کے نزدیک ہے متاخرین احناف نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاعلیہ الرحمۃ والرضوان بھی اس کو سند لائے ہیں ۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ ﷲ عزوجل نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ- ﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا فرمایا
لہٰذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔حدیث شریف میں ہے: اَلْحَلالُ مَا أحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ حلال وہ ہے جو ﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جواﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا وہ معاف ہیں اور مباح‘لہٰذا ہر وہ چیز جس سے ﷲ عزوجل نے سکوت اختیار فرمایا وہ جائز و مباح ہے اگر اسے کوئی شخص ناجائز یا حرام یا گناہ کہے اس پر لازم ہے کہ وہ دلیل شرعی لائے کیونکہ مسکوت عنہا( جس سے سکوت کیا گیا) کو مباح و جائز کہنے کے لئے یہ حدیث ہی کافی ہے۔ قرآنِ پاک کی ایک آیت اس مفہوم کو ثابت کرنے و الی اوپر بیان ہوچکی ہے دوسری آیت جس سے یہ مفہوم اور زیادہ وضاحت سے ثابت ہوتا ہے یہ ہے۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-
اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کا حکم نازل نہیں کیا گیاکہ اگر ان کا حکم ظاہر کردیا جائے تو تمہیں تکلیف پہنچے ‘‘ اسی لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شرعی احکام میں کثرت سوال سے منع فرمایا کہ اس سے شریعت کے احکام ک سخت ہونے کا اندیشہ ہے اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا وہ عفو میں داخل ہیں۔ اگر ان کی ممانعت یا فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو تمہیں تکلیف پہنچے گی۔ لہٰذا جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہواوہ آیت مذکورہ {هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ-}کی روسے جائزومباح ہیں{ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ- }’اوریہﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ لہٰذاجوان مسکوت عنہا کو ناجائز یا حرام یا بدعت سیئہ یا فرض یا واجب کہے وہ قرآن یا حدیث یا قواعد فقہیہ سے دلیل لائے ورنہ یہ ﷲ عزوجل کی بیان کر دہ حدود سے آگے بڑھنا ہے اور ﷲ عزوجل اور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام اور شریعت کاملہ پر افتراء ہوگا۔ جس کی قرآن میں شدید مذمت آئی ہے اور سخت ممانعت و تہدید کی گئی ہے لہٰذا میت کو ایصالِ ثواب کے لئے تعین وقت کے ساتھ قرآن خوانی یا سوالاکھ بار کلمہ شریف پڑھنا یا پڑھوانا فاتحہ و درود ، انعقاد محافل میلاد شریف اور صلوٰۃ وسلام اور بیعت و ارادت وغیرہا کے عدم جواز و بدعت کے قائلین کو قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اَقَل درجہ میں قواعد فقہیہ سے ان کے عدم جواز پر دلیل لانا چاہیے۔ بلا دلیل شرعی ان کے عدم جواز کا قول ﷲ عزوجل اور رسول ﷲ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر افتراء ہے، وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی ۔
یہ امر بھی ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قول و فعل اور صحابۂ کرام کا قول و فعل تو حجت شرعیہ ہے مگر ان کا عدم قول اور عدم فعل، عدم جواز کے لئے حجت شرعیہ نہیں وہ اسی قاعدہ کے مطابق جائز و مباح ہے کہ اَلأ صْلُ فِی اَلأ شْیَائِ الإبَاحَۃُ بلکہ امر مباح بہ نیت خیر باعث اجرو ثواب ہے اور مستحسن کہ اَلأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ حدیث صحیح ہے بلکہ وہ تمام امور مباح جن سے دین کی ترقی یا تعلیمات ِ اسلام کی اشاعت اور شریعت کا تحفظ ہوتا ہے سب مستحسن ہیں
المستفتی:- فقیر ناچیز محمد شاداب نوری محلہ رستمٹولہ قصبہ سہسوان ضلع بدایوں شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
یہ ذہن وہابیہ کا ہے کہ بخاری سے ثبوت دیں۔
مروجہ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ یا جلوس محمدی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی نے نہیں کیا پر جائز ہے
چونکہ شرعا منع نہیں ہے موبائل چلانا مسجد میں پنکھا لگوانا مروجہ مدرسہ کی عمارت یہ سب پہلے کچھ نہیں تھا پھر بھی جائز ہے کہ شرعا منع نہیں ہے
فقہ کا قاعدہ ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے جس بابت کتاب و سنت میں ممانعت نہیں وہ جائز ہے
خزائن العرفان میں نے
جو لوگ توشہ گیارہویں میلاد شریف بزرگوں کی فاتحہ، عرس، مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی، سبیل کے شربت کو ممنوع کہتے ہیں، وہ اس آیت کے خلاف کرکے گنہ گار ہوتے ہیں اور اس کو ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت و ضلالت ہے۔ (حاشیہ خزائن العرفان، ص 248، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)
صاحب بہار شریعت فرماتے ہیں
اَلأصْلُ فِی الأشْیَاءِ الإبَاحَۃُ یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل حضرت امام شافعی اور احناف میں حضرت امام کرخی کے نزدیک ہے متاخرین احناف نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاعلیہ الرحمۃ والرضوان بھی اس کو سند لائے ہیں ۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ ﷲ عزوجل نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ- ﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا فرمایا
لہٰذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔حدیث شریف میں ہے: اَلْحَلالُ مَا أحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ حلال وہ ہے جو ﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جواﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا وہ معاف ہیں اور مباح‘لہٰذا ہر وہ چیز جس سے ﷲ عزوجل نے سکوت اختیار فرمایا وہ جائز و مباح ہے اگر اسے کوئی شخص ناجائز یا حرام یا گناہ کہے اس پر لازم ہے کہ وہ دلیل شرعی لائے کیونکہ مسکوت عنہا( جس سے سکوت کیا گیا) کو مباح و جائز کہنے کے لئے یہ حدیث ہی کافی ہے۔ قرآنِ پاک کی ایک آیت اس مفہوم کو ثابت کرنے و الی اوپر بیان ہوچکی ہے دوسری آیت جس سے یہ مفہوم اور زیادہ وضاحت سے ثابت ہوتا ہے یہ ہے۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-
اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کا حکم نازل نہیں کیا گیاکہ اگر ان کا حکم ظاہر کردیا جائے تو تمہیں تکلیف پہنچے ‘‘ اسی لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شرعی احکام میں کثرت سوال سے منع فرمایا کہ اس سے شریعت کے احکام ک سخت ہونے کا اندیشہ ہے اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا وہ عفو میں داخل ہیں۔ اگر ان کی ممانعت یا فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو تمہیں تکلیف پہنچے گی۔ لہٰذا جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہواوہ آیت مذکورہ {هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ-}کی روسے جائزومباح ہیں{ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ- }’اوریہﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ لہٰذاجوان مسکوت عنہا کو ناجائز یا حرام یا بدعت سیئہ یا فرض یا واجب کہے وہ قرآن یا حدیث یا قواعد فقہیہ سے دلیل لائے ورنہ یہ ﷲ عزوجل کی بیان کر دہ حدود سے آگے بڑھنا ہے اور ﷲ عزوجل اور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام اور شریعت کاملہ پر افتراء ہوگا۔ جس کی قرآن میں شدید مذمت آئی ہے اور سخت ممانعت و تہدید کی گئی ہے لہٰذا میت کو ایصالِ ثواب کے لئے تعین وقت کے ساتھ قرآن خوانی یا سوالاکھ بار کلمہ شریف پڑھنا یا پڑھوانا فاتحہ و درود ، انعقاد محافل میلاد شریف اور صلوٰۃ وسلام اور بیعت و ارادت وغیرہا کے عدم جواز و بدعت کے قائلین کو قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اَقَل درجہ میں قواعد فقہیہ سے ان کے عدم جواز پر دلیل لانا چاہیے۔ بلا دلیل شرعی ان کے عدم جواز کا قول ﷲ عزوجل اور رسول ﷲ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر افتراء ہے، وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی ۔
یہ امر بھی ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قول و فعل اور صحابۂ کرام کا قول و فعل تو حجت شرعیہ ہے مگر ان کا عدم قول اور عدم فعل، عدم جواز کے لئے حجت شرعیہ نہیں وہ اسی قاعدہ کے مطابق جائز و مباح ہے کہ اَلأ صْلُ فِی اَلأ شْیَائِ الإبَاحَۃُ بلکہ امر مباح بہ نیت خیر باعث اجرو ثواب ہے اور مستحسن کہ اَلأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ حدیث صحیح ہے بلکہ وہ تمام امور مباح جن سے دین کی ترقی یا تعلیمات ِ اسلام کی اشاعت اور شریعت کا تحفظ ہوتا ہے سب مستحسن ہیں
(بهار ح ١٩ ص ١٠٧٧ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/08/2023
28/08/2023