(سوال نمبر 2040)
کیا قرض لےکر تجارت کرنے والے تاجر پر بھی زکوٰۃ فرض ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بیچ کہ ایک آدمی (تاجر) کاروبار کے لیۓ اپنے والدین سے 10 لاکھ روپے دوکان (کاروبار)کیلۓ لیتا ہے جو کہ واپس کرنے ہیں اور اسی کاروبار کومزید آگے بڑھانے کیلۓ 450000(چارلاکھ پچاس ہزار)اپنے بھائی سے بطور قرض لیتا ھے اور یہ رقم بھی واپس کرنی ھے۔
اب کاروبار کو ایک سال مکمل ہوگیا ھے جس میں کل مالیت 18 لاکھ سامان کا ھے قابل واپسی ایڈوانس رقم 550000 لاکھ (5 لاکھ پچاس ہزار) دوکان مالک کے پاس ھے(یعنی قرض ہے) جو کہ 18 لاکھ سے علاوہ ھے ۔اب اس تاجر (آدمی) نے زکوة دینی ھے تو کتنی زکوة واجب الادا ہوگی
18 لاکھ کے سامان میں 550000 (5لاکھ 50 ہزار)روپے سامان کے بھی بقایا ہیں یعنی قرض سامان بھی ہے ۔اب اس صورت میں مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں۔
نوٹ:تاجر بھی شادی شدہ ہے اس کے بہن بھائی بھی شادی شدہ ھیں ۔سواۓ ایک بھائی کے والدین دونوں حیات ہیں۔
سائل:- طارق محمود اسلام آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مذکورہ صورت میں آپ نے جو ساڑھے چودہ ہزار قرض والد اور بھائی کو دینے ہیں وہ قرض اور جو سامان کا پیسہ دینے ہیں وہ 18 لاکھ سے منہا کرلیں باقی جو بچ جائے اس میں ڈھائی فی صد کے اعتبار سے زکات اداکریں ۔
5 لاکھ 50 ہزار جو دکان مالک کے پاس ہے اس میں سے سامان کا جو بقایاہے اسے منہھا کر کے جو بچے.... وصول ہونے سے پہلے بھی زکات ادا کر سکتے ہیں البتہ وصول ہونے کے بعد جب سے اس کے پاس پیسہ دیا ہے تب کے حساب سے زکات دینی لازم ہوگی ۔۔
اب کچھ تفصیل برائے تفہیم
١/ مثلا 'گر کوئی شخص صاحبِ نصاب ہو جائے اور اس پر ایک پورا سال گزر جائے یعنی پورا سال اس کا مال و دولت نصاب سے کم نہیں ہو تو اس پر اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے پورا سال صاحبِ نصاب رہنا ضروری ہے۔ لیکن سال کے شروع، درمیان، یا آخرمیں اس کا مال و دولت بے شک کم یا زیادہ ہوتا رہے، مگر نصاب سے نیچے نہ آئے تو سال کے آخر میں موجود رقم جتنی بھی ہو اس سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ جو کسی کا آپ نے قرض دینا ہے اس پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی، لیکن جو آپ نے کسی سے لینے ہیں ان پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ خواہ پہلے ہی ادا کر دیں، یا جب وہ وصول کریں تب ادا کر دیں.
٢/ دکان میں جو بکنے کا سامان ہے جسے مالِ تجارت کہتے ہیں سال پورا ہونے پر جس قدر مال دکان میں موجود ہے اس کی بازاری قیمت پر 2.5 فیصد زکوة واجب ہے۔
٣/ قرض کی رقم کی زکات کی ادائیگی فوری واجب نہیں ہوگی؛ بلکہ قرض کی وصولیابی کے بعد اس کی ادائیگی واجب ہو گی اور جتنی رقم کے آپ مقروض ہیں، زکات کے حساب کے وقت اتنی رقم منہا کر دی جائے گی اور کاروبار میں جو رقم لگ چکی ہے ، اس پر زکات واجب نہیں ہوتی،بلکہ سامان تجارت کی قیمت اور نقد رقم زکات میں محسوب کی جاتی ہے ۔
٤/ یاد رہے کہ ان چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں.
➖ضروریات زندگی
➖رہنے کا مکان
➖واجب الادا قرضے
➖استعمال کی گاڑیاں
➖ضرورت سے زائد سامان جو تجارت کے لیے نہ ہو
➖پہننے کے کپڑے
➖یوٹیلیٹی بلز
➖ملازمین کی تنخواہیں
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے، مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت دو سو درم سے کم نہ ہو اور اگر مختلف قسم کے اسباب ہوں تو سب کی قیمتوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قدر ہو۔ یعنی جب کہ اس کے پاس یہی مال ہو اور اگر اس کے پاس سونا چاندی اس کے علاوہ ہو تو اسے ملا لیں گے۔
(بہار ح ٥ ص ٩١٣مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا قرض لےکر تجارت کرنے والے تاجر پر بھی زکوٰۃ فرض ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بیچ کہ ایک آدمی (تاجر) کاروبار کے لیۓ اپنے والدین سے 10 لاکھ روپے دوکان (کاروبار)کیلۓ لیتا ہے جو کہ واپس کرنے ہیں اور اسی کاروبار کومزید آگے بڑھانے کیلۓ 450000(چارلاکھ پچاس ہزار)اپنے بھائی سے بطور قرض لیتا ھے اور یہ رقم بھی واپس کرنی ھے۔
اب کاروبار کو ایک سال مکمل ہوگیا ھے جس میں کل مالیت 18 لاکھ سامان کا ھے قابل واپسی ایڈوانس رقم 550000 لاکھ (5 لاکھ پچاس ہزار) دوکان مالک کے پاس ھے(یعنی قرض ہے) جو کہ 18 لاکھ سے علاوہ ھے ۔اب اس تاجر (آدمی) نے زکوة دینی ھے تو کتنی زکوة واجب الادا ہوگی
18 لاکھ کے سامان میں 550000 (5لاکھ 50 ہزار)روپے سامان کے بھی بقایا ہیں یعنی قرض سامان بھی ہے ۔اب اس صورت میں مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں۔
نوٹ:تاجر بھی شادی شدہ ہے اس کے بہن بھائی بھی شادی شدہ ھیں ۔سواۓ ایک بھائی کے والدین دونوں حیات ہیں۔
سائل:- طارق محمود اسلام آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مذکورہ صورت میں آپ نے جو ساڑھے چودہ ہزار قرض والد اور بھائی کو دینے ہیں وہ قرض اور جو سامان کا پیسہ دینے ہیں وہ 18 لاکھ سے منہا کرلیں باقی جو بچ جائے اس میں ڈھائی فی صد کے اعتبار سے زکات اداکریں ۔
5 لاکھ 50 ہزار جو دکان مالک کے پاس ہے اس میں سے سامان کا جو بقایاہے اسے منہھا کر کے جو بچے.... وصول ہونے سے پہلے بھی زکات ادا کر سکتے ہیں البتہ وصول ہونے کے بعد جب سے اس کے پاس پیسہ دیا ہے تب کے حساب سے زکات دینی لازم ہوگی ۔۔
اب کچھ تفصیل برائے تفہیم
١/ مثلا 'گر کوئی شخص صاحبِ نصاب ہو جائے اور اس پر ایک پورا سال گزر جائے یعنی پورا سال اس کا مال و دولت نصاب سے کم نہیں ہو تو اس پر اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے پورا سال صاحبِ نصاب رہنا ضروری ہے۔ لیکن سال کے شروع، درمیان، یا آخرمیں اس کا مال و دولت بے شک کم یا زیادہ ہوتا رہے، مگر نصاب سے نیچے نہ آئے تو سال کے آخر میں موجود رقم جتنی بھی ہو اس سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ جو کسی کا آپ نے قرض دینا ہے اس پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی، لیکن جو آپ نے کسی سے لینے ہیں ان پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ خواہ پہلے ہی ادا کر دیں، یا جب وہ وصول کریں تب ادا کر دیں.
٢/ دکان میں جو بکنے کا سامان ہے جسے مالِ تجارت کہتے ہیں سال پورا ہونے پر جس قدر مال دکان میں موجود ہے اس کی بازاری قیمت پر 2.5 فیصد زکوة واجب ہے۔
٣/ قرض کی رقم کی زکات کی ادائیگی فوری واجب نہیں ہوگی؛ بلکہ قرض کی وصولیابی کے بعد اس کی ادائیگی واجب ہو گی اور جتنی رقم کے آپ مقروض ہیں، زکات کے حساب کے وقت اتنی رقم منہا کر دی جائے گی اور کاروبار میں جو رقم لگ چکی ہے ، اس پر زکات واجب نہیں ہوتی،بلکہ سامان تجارت کی قیمت اور نقد رقم زکات میں محسوب کی جاتی ہے ۔
٤/ یاد رہے کہ ان چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں.
➖ضروریات زندگی
➖رہنے کا مکان
➖واجب الادا قرضے
➖استعمال کی گاڑیاں
➖ضرورت سے زائد سامان جو تجارت کے لیے نہ ہو
➖پہننے کے کپڑے
➖یوٹیلیٹی بلز
➖ملازمین کی تنخواہیں
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے، مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت دو سو درم سے کم نہ ہو اور اگر مختلف قسم کے اسباب ہوں تو سب کی قیمتوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قدر ہو۔ یعنی جب کہ اس کے پاس یہی مال ہو اور اگر اس کے پاس سونا چاندی اس کے علاوہ ہو تو اسے ملا لیں گے۔
(بہار ح ٥ ص ٩١٣مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٥/٣/٢٠٢٢
٥/٣/٢٠٢٢