Type Here to Get Search Results !

کیا پوب جی گیم کھیلنا جائز ہے؟

 (سوال نمبر 2004)
کیا پوب جی گیم کھیلنا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اور مفتیان کرام اس مسلہ کے متعلق 
کیا پوب جی گیم کھیلنا جائز ہے یا نہیں؟
سائل:- اسرار حسین شاہ شہر اٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

پوب جی گیم کھیلنا جائز نہیں ہے اس گیم کے بہت سارے مفاسد ہیں ۔
البتہ کھیل کود، ورزش اور سیر و تفریح فطرتِ انسانی کا تقاضا اور انسانی صحت کی ضرورت ہیں،اس لیے کرکٹ، فٹبال، کشتی، دوڑ ہو یا کوئی دوسری صحتمند ذہنی و جسمانی ورزش اور کھیل اصلاً مباح ہے۔ مگر اس کی اباحت اس وقت جاتی رہے گی جب یہ کسی فرض کی ادئیگی میں رکاوٹ بنے یا اس پر جوا لگایا جائے۔ لہو و لعب سے بھی اصل منشاء یہی ہے کہ انسان اپنے دینی فرائض‌ و واجبات اور دنیاوی ذمہ داریوں کو بھول کر کھیل کود میں‌ ایسا مشغول ہو جائے کہ اسے موت یاد رہے اور نہ روزِ‌ حشر کے حساب کا خیال رہے۔ لیکن کوئی بھی کھیل‘ جب تک کہ اس میں کوئی غیرشرعی کام شامل نہ ہو‘ نماز، روزہ، رزقِ حلال یا دیگر فرائض میں تاخیر، سستی یا چھوٹ جانے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا جوا لگایا گیا ہو‘ اس کا کھیلنا اور دیکھنا شرعاً جائز ہے۔
١/ پر پوب جی گیم یہ محض لا یعنی ہے، اس میں وقت، صحت اور دماغی قوت وطاقت کی بربادی کے علاوہ کوئی قابل ذکر دینی یا دنیوی فائدہ نہیں ہے۔ اور اسلام اس طرح کی لایعنی وبے فائدہ ؛ بلکہ وقت وغیرہ برباد کرنے والی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔
٢/ جو شخص اس گیم میں لگتا ہے، وہ اس کا ایسا رسیہ اور عادی ہوجاتا ہے کہ اُسے نماز وغیرہ کیا؟ بہت سے دنیوی ضروری کاموں کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ اور اسلام میں اس طرح کا کوئی کھیل جائز نہیں اگرچہ اس میں بے شمار ظاہری فوائد ہوں۔
٣/ جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور اور کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف حادثات اور واقعات کا خطرہ رہتا ہے ؛ بلکہ بعض مرتبہ خطرہ حقیقت بھی بن جاتا ہے جیسا کہ واقعات شاہد ہیں
 ٤/ اس گیم میں کارٹون کی شکل میں تصاویر پائی جاتی ہیں اور اسلام میں جان دار کی تصویر ناجائز ہے۔اگرچہ ڈیجیٹل تصویر کے بابت علماء فقہ کا اختلاف ہے پر کھیل جیسے چیزوں کے لئے بچنا ہی اولی ہے ۔
٥/ یہ گیم موبائل یا کمپیوٹر پر نیٹ کنکشن کے ساتھ ہی کھیلا جاسکتا ہے، اس کے بغیر نہیں اور بعض اصحاب نظر کی رائے یہ ہے کہ یہودی لابی، اس گیم کے ذریعہ لوگوں بالخصوص مسلمانوں کا پرسنل ڈاٹا محفوظ کرنا چاہتی ہے؛ تاکہ بچے کھچے چند مسلمانوں میں جو کچھ عفت وپاک دامنی وغیرہ باقی رہ گئی ہے ، اسے تارتار کردیا جائے اور پوری دنیا کو شیطانی جال کا شکار بنادیا جائے۔
اس لیے شریعت اسلامیہ کی رو سے پوب جی گیم کھیلنا ہرگز جائز نہیں ہے، لوگوں کو اس طرح کی چیزوں سے بہت زیادہ دور رہنے کی ضرورت ہے بالخصوص بچوں کو ۔
کما فی الدر المختار 
وکرہ تحریما اللعب بالنرد وکذا الشطرنج… وھذا إذا لم یقامر لم یداوم ولم یخل بواجب وإلا فحرام بالإجماع (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹:۵۶۴،۵۶۵،)
قولہ الشطرنج معرب شدرنج، وإنما کرہ لأن من اشتغل بہ ذھب عناوٴہ الدنیوي وجاء ہ العناء الأخروي، فھو حرام وکبیرة عندنا، وفي إباحتہ إعانة الشیطان علی الإسلام والمسلمین کما فی الکافي، قھستاني (رد المحتار)۔
أجمع المسلمون علی أن اللعب بالشطرنج حرام إذا کان بعوض أو تضمن ترک واجب مثل تأخیر الصلاة عن وقتھا،وکذلک إذا تضمن کذبا أو ضررا أو غیر ذلک من المحرمات
(الموسوعة الفقہیة، ۳۷:۲۷۱)۔
وذھب الحنفیة إلی رد شھادة لاعب الشطرنج بواحد مما یلي:إذا کان عن قمار أو فوت الصلاة بسببہ أو أکثر من الحلف علیہ أو اللعب بہ علی الطریق أو ذکر علیہ فسقا (المصدر السابق، ۳۵:۲۷۲)۔
ہمارے مذہب میں شطرنج کھیلنا کسی غرض سے جائز نہیں ہے؛ بلکہ مکروہ تحریمی ہے، جو کہ مثل حرام کے ہے، اور کھیلنے والے کو توبہ کرنا لازم ہے 
یاد رہے کہ کھیل کود، ورزش اور سیر و تفریح فطرتِ انسانی کا تقاضا اور انسانی صحت کی ضرورت ہیں، اسلام ان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ 
آقا علیہ السلام نے فرمایا
فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.
بے شک تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور یقیناً تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے۔
(ابن حبان، الصحيح، 8: 400، رقم: 3638، بيروت، لبنان: مؤسسة الرسالة)
اسوہ حسنہ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف صحت مند سرگرمیوں کی ترغیب دی بلکہ ان میں شامل بھی ہوئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک سفر میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی۔ انہوں نے اس دوڑ کا نتیجہ یوں بیان کیا ہے کہ
فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَىَّ فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِى فَقَالَ هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ.
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں سبقت لے گئی۔ عرصے بعد جب میرا وزن بڑھ گیا اور ہم نے دوبارہ دوڑ لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر سبقت لے گئے اور فرمایا یہ پہلی بار کا بدلہ ہے۔
(أبو داود، السنن، أول كتاب الجهاد، باب في السبق على الرجل، 3: 29، رقم: 2578، دار الفكر)
دل ودماغ اور روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے جہاں عبادات اور ذکر و اذکار ضروری ہیں، اُن کے ساتھ سیر و تفریح، کھیل اور ورزش وغیرہ بھی ضروری ہے۔ 
ایک روایت میں حضرت نجیب بن سری بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
أَجِمُّوا هَذِهِ الْقُلُوبَ وَاطْلُبُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ؛ فَإِنَّهَا تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الْأَبْدَانُ.
ان دِلوں کو سکون واطمینان سے بھرا ہوا رکھو اور ان کے لیے حکمت کی تر و تازگی تلاش کرو، کہ یہ بھی جسموں کی طرح بیمار و رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔
(ابن عبد البر، جامع بيان العلم وفضله، 1: 105، بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية)
ہمہ وقت عبادت گاہ میں مشغول رہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ حلال روزی کمانا اور دیگر امور سرانجام دینا بھی انسانی ضروریات میں شامل ہے لیکن یہ سب امور بھی جائز طریقے سے بروئے کار لانا بھی عبادت ہی میں شمار ہوتا ہے۔ بہر حال جب کسی نفلی عبادت سے اکتاہٹ محسوس ہو تو اُسے چھوڑ دینا چاہیے۔ 
حدیث پاک میں ہے 
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ.
قرآن کریم اس وقت تک پڑھتے رہو جب تک تمہارے دل اس کے ساتھ لگے رہیں اور جب تم اکتاہٹ (تھکاوٹ) محسوس کرو تو اُسے پڑھنا چھوڑ دو۔
(بخاري، الصحيح ، كتاب فضائل القرآن، باب اقرؤوا القرآن ما ائتلفت عليه قلوبكم، 4: 1929، رقم: 4774، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ کھیل کا جواز اور عدم جواز کا مدار اس مفاد و مضر پر منحصر ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٢/٢/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area