(سوال نمبر 6097)
کیا کافر کے نابالغ بچے کو ہم مسلمان کہ سکتے ہیں جبکہ وہ جنتی ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ غیر مسلم کے یا جو بچے بچپن ہی میں فوت ہو جاتے ہیں ان کا ٹھکانہ کہاں پر ہو گا؟ کیا ہم انہیں مسلمان کہہ سکتے ہیں یا کافر ہی سمجھیں جواب عنایت فرمائیے بہت مہربانی ہوگی حوالے کے ساتھ
السائل:- محمد معین رضا قادری چالیس گاؤں انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
غیر مسلم کے نابالغ بچے کے بابت اختلاف ہے بعض جنت کے قائل ہیں اور بعض جہنم کے. امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس بابت توقف اختیار فرماتے ہیں۔
ہاں اسے ہم مسلمان نہیں کہ سکتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ ہر انسان ایمان اور عقیدۂ توحید پر پیدا ہوں کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی بچہ میثاق کے اقرار کو توڑ کر کافر ہو کر پیدا ہو خیال رہے کہ وہ میثاقی ایمان شرعًا معتبر نہیں۔اسی لیے کافر کا بچہ کافر مانا جاتا ہے کہ نہ اس کی نماز جنازہ ہو نہ اسلامی کفن و دفن اور نہ اسے بعد میں مرتد کہا جائے جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا اور فرمایا اِنَّہ طُبعَ کَافِرًا وہاں مراد ہے
قُدِّرَوَجُبِلَ یعنی ہوش سنبھال کر کافر ہونا اس کے مقدر میں آچکا ہے۔
(المرأة حديث ٨٨ )
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر بچہ دین فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں جیسے جانور بے عیب بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا پاتے ہو پھر فرماتے تھے کہ ﷲ کی پیدائش ہے جس پر لوگوں کو پیدا فرمایا اللہ کی خلق میں تبدیلی نہیں یہ ہی سیدھا دین ہے۔(مسلم و بخاری)
پہلے ہم فطرت کو سمجھتے ہیں
فطرت کے لفظی معنی ہیں چیرنا اور ایجاد کرنا،یہاں اصلی اور پیدائشی حالت مراد ہے یعنی ہر انسان ایمان پر پیدا ہوتا ہے،عالم ارواح میں رب تعالٰی نے تمام روحوں سے اپنی ربوبیت کا قرار کرایا سب نے بَلٰی کہہ کر اقرار کیا اس اقرار پر قائم رہتے ہوئے دنیا میں آئے یہ اقرار و ایمان سب کا فطری اور پیدائشی دین ہے۔
بچہ ہوش سنبھالنے تک دین فطرت توحیدوایمان پر قائم رہتا ہے ہوش سنبھالنے پر جیسا اپنے ماں باپ اور ساتھیوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے،پر اگر وہ نہ چاہے اور دین اسلام کو اپنا نا چاہے تو وہ اپنا سکتا ہے اور وہ آزاد ہے اور ہوش سنبھالنے کے بعد والدین کا اس پر کچھ اثر نہ ہو گا کیونکہ وہ ہوش مند ہے اب جان بوجھ کر کہ والدین کا دین غلط ہے پھر بھی اسی پر قائم رہنا یہ اس کی غلطی ہے، جیسے خود کافر یا کافر کے گھر کے افراد اپنے والدین کے دین میں تدبر تفکر کرکے داخل اسلام ہوجا تا ہے ۔اسی لئے اللہ ظالم نہیں بلکہ عادل ہے اب ہوش کے بعد بھی ایمان نہ لائے تب تو جھنم کے لئے ہی ٹھہرا ۔البتہ اعتراض اس وقت ممکن ہے جب اللہ تعالی اس بجے سے صلاحیت ایمان بھی ختم کر دیتا جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اگر سن شعور سے قبل وفات پاجائے تو وہ جنت میں جائے گا اور یہی وجہ ہے مسلمان بچہ پر حد بلوغ سے قبل عبادات فرض نہیں ہے ۔
مشکاة شریف میں حدیث موجود ہے
عن أبي ہریرة قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مولود إلا یولد علی الفطرة؛ فأبواہ یہوّدوانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ․․․ (مشکاة المصابیح: ص:۲۱)
نیز کافروں کے نابالغ بچے ایک قول کے مطابق جنت میں جنتیوں کے خادم ہوں گے
وقیل إنہم خدّام أہل الجنّة (مرقاة: ۱/۱۶۶)
تاہم کافروں کے نابالغ بچوں کے متعلق تعارضِ دلائل کی وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے توقف کو اختیار کیا ہے، فنقل عن أبي حنیفة رحمہ اللہ في أولاد المشرکین التوقف (مرقاة: ۱/۱۶۷)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا کافر کے نابالغ بچے کو ہم مسلمان کہ سکتے ہیں جبکہ وہ جنتی ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ غیر مسلم کے یا جو بچے بچپن ہی میں فوت ہو جاتے ہیں ان کا ٹھکانہ کہاں پر ہو گا؟ کیا ہم انہیں مسلمان کہہ سکتے ہیں یا کافر ہی سمجھیں جواب عنایت فرمائیے بہت مہربانی ہوگی حوالے کے ساتھ
السائل:- محمد معین رضا قادری چالیس گاؤں انڈیا
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
غیر مسلم کے نابالغ بچے کے بابت اختلاف ہے بعض جنت کے قائل ہیں اور بعض جہنم کے. امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس بابت توقف اختیار فرماتے ہیں۔
ہاں اسے ہم مسلمان نہیں کہ سکتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ ہر انسان ایمان اور عقیدۂ توحید پر پیدا ہوں کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی بچہ میثاق کے اقرار کو توڑ کر کافر ہو کر پیدا ہو خیال رہے کہ وہ میثاقی ایمان شرعًا معتبر نہیں۔اسی لیے کافر کا بچہ کافر مانا جاتا ہے کہ نہ اس کی نماز جنازہ ہو نہ اسلامی کفن و دفن اور نہ اسے بعد میں مرتد کہا جائے جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا اور فرمایا اِنَّہ طُبعَ کَافِرًا وہاں مراد ہے
قُدِّرَوَجُبِلَ یعنی ہوش سنبھال کر کافر ہونا اس کے مقدر میں آچکا ہے۔
(المرأة حديث ٨٨ )
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر بچہ دین فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں جیسے جانور بے عیب بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا پاتے ہو پھر فرماتے تھے کہ ﷲ کی پیدائش ہے جس پر لوگوں کو پیدا فرمایا اللہ کی خلق میں تبدیلی نہیں یہ ہی سیدھا دین ہے۔(مسلم و بخاری)
پہلے ہم فطرت کو سمجھتے ہیں
فطرت کے لفظی معنی ہیں چیرنا اور ایجاد کرنا،یہاں اصلی اور پیدائشی حالت مراد ہے یعنی ہر انسان ایمان پر پیدا ہوتا ہے،عالم ارواح میں رب تعالٰی نے تمام روحوں سے اپنی ربوبیت کا قرار کرایا سب نے بَلٰی کہہ کر اقرار کیا اس اقرار پر قائم رہتے ہوئے دنیا میں آئے یہ اقرار و ایمان سب کا فطری اور پیدائشی دین ہے۔
بچہ ہوش سنبھالنے تک دین فطرت توحیدوایمان پر قائم رہتا ہے ہوش سنبھالنے پر جیسا اپنے ماں باپ اور ساتھیوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے،پر اگر وہ نہ چاہے اور دین اسلام کو اپنا نا چاہے تو وہ اپنا سکتا ہے اور وہ آزاد ہے اور ہوش سنبھالنے کے بعد والدین کا اس پر کچھ اثر نہ ہو گا کیونکہ وہ ہوش مند ہے اب جان بوجھ کر کہ والدین کا دین غلط ہے پھر بھی اسی پر قائم رہنا یہ اس کی غلطی ہے، جیسے خود کافر یا کافر کے گھر کے افراد اپنے والدین کے دین میں تدبر تفکر کرکے داخل اسلام ہوجا تا ہے ۔اسی لئے اللہ ظالم نہیں بلکہ عادل ہے اب ہوش کے بعد بھی ایمان نہ لائے تب تو جھنم کے لئے ہی ٹھہرا ۔البتہ اعتراض اس وقت ممکن ہے جب اللہ تعالی اس بجے سے صلاحیت ایمان بھی ختم کر دیتا جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اگر سن شعور سے قبل وفات پاجائے تو وہ جنت میں جائے گا اور یہی وجہ ہے مسلمان بچہ پر حد بلوغ سے قبل عبادات فرض نہیں ہے ۔
مشکاة شریف میں حدیث موجود ہے
عن أبي ہریرة قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مولود إلا یولد علی الفطرة؛ فأبواہ یہوّدوانہ أو ینصّرانہ أو یمجّسانہ․․․ (مشکاة المصابیح: ص:۲۱)
نیز کافروں کے نابالغ بچے ایک قول کے مطابق جنت میں جنتیوں کے خادم ہوں گے
وقیل إنہم خدّام أہل الجنّة (مرقاة: ۱/۱۶۶)
تاہم کافروں کے نابالغ بچوں کے متعلق تعارضِ دلائل کی وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے توقف کو اختیار کیا ہے، فنقل عن أبي حنیفة رحمہ اللہ في أولاد المشرکین التوقف (مرقاة: ۱/۱۶۷)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
06/08/2023