Type Here to Get Search Results !

کیا ہندوستان کے ہندوں سے سود لینا اور دینا جائز ہے؟

 کیا ہندوستان کے ہندوں سے سود لینا اور دینا جائز ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ   
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  ہندوستان کے ہندوں سے بیاز لیے سکتے ہے یا نہیں اور دے سکتے ہے یا نہیں 
سائل:-  محمد توفیق عالم ایم پی اندور، انڈیا 
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مسئولہ میں 
کافر و مسلم کے درمیان اصلا سود نہیں بلکہ وہ مال مباح ہے پر یاد رہے جھوٹ اور دھوکا دہی سے بری ہو۔ اس لئے بوقت لین دین سود سمجھ کر نہ کیا جائے ۔۔
بلکہ مقرض یا مستقرض کی صورت میں زیادتی رقم کو مال مباح سمجھا جائے ۔
 جیسا کہ حدیث شریف میں ہے "لا ربوا بين المسلم والحربي" 
وقد صح أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «نهى عن السلم في الحيوان» ، ويدخل فيه جميع أجناسه حتى العصافير والجواب عن حديث عمرو بن العاص: أنه كان قبل نزول آية الربا، أو كان في دار الحرب ولا ربا بين المسلم والحربي فيها..
(البناية شرح الھدایة کتاب البیوع )
 کسی مسلمان کا کافر کو نفع دینا جائز نہیں ہاں اگر تھوڑا نفع دینے میں کسی مسلمان کا اپنا نفع زیادہ ہو تو جایز ہے ۔پر بچنا بہتر ہے 
ردالمحتار میں ہے
 الظاهر ان الاباحة يفيد نيل المسلم الزيادة وقد الزم ألا صحاب في الدرس أن مرادهم من حل الربا والقمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم۔
کما فی الهداية 
قوله عليه الصلاة والسلام: "لا ربا بين المسلم والحربي في دار الحرب" ولأن مالهم مباح في دارهم فبأي طريق أخذه المسلم أخذ مالا مباحا إذا لم يكن فيه غدر، بخلاف المستأمن منهم لأن ماله صار محظورا بعقد الأمان۔
(الهداية)
علماء فقہ نے سود سے بچنے کی کئی صورتیں بیان کی ہیں، پر ان میں سے میں ایک کا ذکر کرتا ہوں، مثلا ہمیں شخت ضرورت ہے روپئے کی پر مسلم یا غیر مسلم بغیر سود قرض نہیں دیتا اب ایسی صورت میں ہم قرض دینے والے سے اپنی کوئی چیز مثلا چاندی کی انگوٹھی یا اور بھی کوئی دیگر اشیاء تین لاکھ میں اس سے بیچ دیں اور اس سے تین لاکھ روپے لےلیں اور قرض دینے والے اس پر قبضہ کر لے، پھر میں وہی انگوٹھی مقرض سے سال بھر کے وعدہ پر چار لاکھ روپئے میں خرید لئے، (ایک لاکھ زائد یا جو بھی تین لاکھ کا فی صد کے اعتبار سے سال بھر کا بنے تین لاکھ کے ساتھ ملا دیا جائے )
پھر جب ہم چار لاکھ روپئے دے دیں گے وہ انگوٹھی میری ہو جائے گی ۔
اب اگر دنیاوی اعتبار سے سود کے بابت کاغذات مقرض لکھوا نا چاہتا ہے تو لکھوا سکتے ہیں ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
(بحوالہ بہار شریعت ح ١١ ص ٧٨٣ دعوت اسلامي )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
2/1/2021

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area