(سوال نمبر 4115)
کیا بینک میں رکھے ہوئے اصل رقم کے ساتھ سود پر بھی زکوٰۃ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء اکرام و مفتیان عظام مسلئہ ذیل کے بارے میں ایک شخص نے بینک میں ایک لاکھ روپیہ رکھا سال گزرنے کے بعد انٹرسٹ لگ کر وہ ایک لاکھ چھ ہزار ہوا اب زکوۃ دینے کا طریقہ کار لاکھ پہ ہوگا یا ایک لاکھ چھ ہزار پر؟حضرت رہنمائی فرمائیے
سائل:- رمضان میر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
صرف اصل رقم پر ذات واجب ہے سود پر نہیں۔
مذکورہ صورت میں ایک لاکھ روپے پر سال گذرنے کے بعد سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی ۔
اور ایک لاکھ کا ڈھائی فیصد پچیس سو روپے
بینک میں موجود سود کی رقم نکال کر، ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب محتاج کو دینا ضروری ہے، یہ حکم مسلم کنٹریز اور پاکستان کے لئے ہے ۔
رہا ہند و نیپال تو تو چونکہ یہ غیر مسلم ملک ہےاس لئے
فی زمانہ بینک میں جمع شدہ اپنی رقم کا نفع لینا جائز ہے وہ شرعا سود نہیں کہ سود کے لیے مال کا معصوم ہونا شرط ہے۔ طحاوی علی الدر اور شامی میں ہے
شرط بعصمۃ البدلین اور ہندوستان کے تمام کفار حربی ہیں اور حربی کا مال حصہ معصوم نہیں بلکہ وہ مباح ہے بشرطیکہ ان کی رضا سے ہو ۔ بدعہدی نہ ہو ۔ لہذا وہ بینک جو خالص غیرمسلموں کے ہیں ان میں روپیہ جمع کرنے پر جو زیادتی ملتی ہے اس کا لینا جائز ہے کہ وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں اور لینے میں اپنی عزت اور آبرو کے لیے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے وہ رقم کسی کے سود کہہ دینے سے سود نہ ہوگی اسے اپنے ہر جائز کام میں استعمال کر سکتا ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا بینک میں رکھے ہوئے اصل رقم کے ساتھ سود پر بھی زکوٰۃ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء اکرام و مفتیان عظام مسلئہ ذیل کے بارے میں ایک شخص نے بینک میں ایک لاکھ روپیہ رکھا سال گزرنے کے بعد انٹرسٹ لگ کر وہ ایک لاکھ چھ ہزار ہوا اب زکوۃ دینے کا طریقہ کار لاکھ پہ ہوگا یا ایک لاکھ چھ ہزار پر؟حضرت رہنمائی فرمائیے
سائل:- رمضان میر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
صرف اصل رقم پر ذات واجب ہے سود پر نہیں۔
مذکورہ صورت میں ایک لاکھ روپے پر سال گذرنے کے بعد سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی ۔
اور ایک لاکھ کا ڈھائی فیصد پچیس سو روپے
بینک میں موجود سود کی رقم نکال کر، ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب محتاج کو دینا ضروری ہے، یہ حکم مسلم کنٹریز اور پاکستان کے لئے ہے ۔
رہا ہند و نیپال تو تو چونکہ یہ غیر مسلم ملک ہےاس لئے
فی زمانہ بینک میں جمع شدہ اپنی رقم کا نفع لینا جائز ہے وہ شرعا سود نہیں کہ سود کے لیے مال کا معصوم ہونا شرط ہے۔ طحاوی علی الدر اور شامی میں ہے
شرط بعصمۃ البدلین اور ہندوستان کے تمام کفار حربی ہیں اور حربی کا مال حصہ معصوم نہیں بلکہ وہ مباح ہے بشرطیکہ ان کی رضا سے ہو ۔ بدعہدی نہ ہو ۔ لہذا وہ بینک جو خالص غیرمسلموں کے ہیں ان میں روپیہ جمع کرنے پر جو زیادتی ملتی ہے اس کا لینا جائز ہے کہ وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں اور لینے میں اپنی عزت اور آبرو کے لیے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے وہ رقم کسی کے سود کہہ دینے سے سود نہ ہوگی اسے اپنے ہر جائز کام میں استعمال کر سکتا ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
19_08/2023
19_08/2023