Type Here to Get Search Results !

کیا بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی ہے؟

(سوال نمبر 4142)
کیا بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی ہے؟ اس میں یہی تطبیق بتادیں حضرت کہ بچہ جب پیشا ب کرے تو چھینٹے مارنا کافی ہے اور بچی جب پیشاب کرے تو دھونا پڑے گا آخر اتنی فرق کیوں؟
براۓ کرم جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد مبین اجمیر شریف راجستھان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حدیث شریف میں ہے
أُتِيَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم بصَبِيٍّ فبال عليه فأتْبَعَه الماءَ ولم يَغْسِلْه
(الراوي عائشة أم المؤمنين التخريج أخرجه البخاري (5468)، والنسائي (303) وابن ماجه۔)
عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بنْتِ مِحْصَنٍ، أنَّهَا أتَتْ بابْنٍ لَهَا صَغِيرٍ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فأجْلَسَهُ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في حَجْرِهِ، فَبَالَ علَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بمَاءٍ، فَنَضَحَهُ ولَمْ يَغْسِلْهُ. (الراوي أم قيس بنت محصن صحيح البخاريالصفحة أو الرقم: 223)
١/ دونوں احادیث میں دودھ پیتے بچے اور بچی کے پیشاب کا ذکر ہے چونکہ کھانا کھانے والے بچے اور بچی کے پیشاب کے بابت دھونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے سب کے نزدیک دھونا ضروری ہے بس دودھ پیتے بچہ اور بچی کے پیشاب کے بابت دھونے کے باب میں مبالغہ کرنے اور نہ کرنے میں اختلاف ہے ۔
واضح رہے کہ دودھ پیتے بچے اور بچی کے پیشاب کے حکم اور اس سے طہارت میں ائمہ فقہاء کے دو گروہ ہیں
فریق اوّل جس میں امام شافعی و حنبل ومالک رضی اللہ عنہم شامل ہیں جو بچے کے پیشاب کو پاک قرار دیتے ہیں اور کپڑے پر لگ جانے کی صورت میں اس پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی قرار دیتے ہیں جبکہ بچی کا پیشاب ناپاک اور اس کے لیے کپڑے کو دھونا لازم ہے۔
فریق دوم میں امام ابوحنیفہ جمہور فقہاء و محدثین ہیں وہ دونوں کے پیشاب کو یکساں قرار دیتے اور بہر دو صورت کپڑا دھونے کو لازم قرار دیتے ہیں۔
حضرت امام طحاوی فرماتے ہیں کہ یہاں چھینٹا دینے سے مراد تڑ یڑا دینا یعنی پیشاب کی جگہ پر بغیر ملے اور نچوڑے ہوئے پانی کا بہا دینا ہے اور دھونے سے مراد مبالغے کے ساتھ دھونا ہے چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت ہے کہ ایک لڑکا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر پانی کا تڑیڑا دو لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے پیشاب کو بھی دھونے کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر صرف پانی کا تڑیڑا دینا ہی کافی ہے یعنی اس کو ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لڑکوں کا پیشاب سوراخ کی تنگی کی بناء پر زیادہ نہیں پھیلتا اور لڑکیوں کا پیشاب سوراخ کی فراخی کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے اس لئے لڑکیوں کے پیشاب کو خوب اچھی طرح دھونا چاہئے۔
٢/ روایت ہے ام قیس بنت محصن سے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو جو کھانا نہ کھاتا تھا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں حضور نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا حضور نے پانی منگایا اس پر پانی بہادیا خوب نہ دھویا (مسلم،بخاری)
بعض لوگوں نے کہا کہ شیر خوارلڑکے کا پیشاب پاک ہے
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ناپاک تو ہے لیکن صرف پانی کے چھینٹے سے پاک ہوجاتا ہے،دھونے کی ضرورت نہیں۔
ہمارے امام صاحب کے نزدیک نجاست غلیظہ ہے،دھونا فرض۔یہاں نَضْحٌ کے معنی پانی بہانا ہے نہ کہ چھینٹا دینا اور لَمْ یَغْسِلْ کے معنی ہیں بہت مبالغہ سے نہ دھویا کیونکہ ایسے لڑکے کا پیشاب پتلا اورکم بدبودار ہوتاہے، ورنہ یہی نَضْحٌ حضرت اسماء کی حدیث میں حیض کے خون کے بارے میں آچکا ہے اگر یہاں اس لفظ سے شیر خوار لڑکےکا پیشاب پاک مانا جائے یا وہاں چھینٹا مانا جائے تو حیض کا خون بھی پاک ماننا پڑے گا اور وہاں چھینٹا کافی ماننا پڑے گا۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ دونوں پیشاب ناپاک ہے بس دھونے کے باب میں مبالغہ میں فرق ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
22/08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area