(سوال نمبر 2010)
کیا رخصتی اور ولیمہ ساتھ کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رخصتی اور ولیمہ اکٹھا کر سکتے ہیں ؟
سائلہ:- عاصمہ وقاص پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
رخصتی اور ولیمہ اکٹھا کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے رخصت تو دلہن کو ہونی ہے کہ رخصتی دلہن کے گھر والے کریں گے اور دعوت ولیمہ دولہا نے کرنا ہے
دعوتِ ولیمہ سنت ہے ۔ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرے اور اس کے لیے جانور ذبح کرکے کھانا تیار کرکے کھلانا ہے اور جو لوگ بلائے جائیں ان کو جانا چاہیے کہ ان کا جانا اس کے لیے مسرت کا باعث ہوگا۔ ولیمہ میں جس شخص کو بلایا جائے اس کو جانا سنت ہے یا واجب۔ علما کے دونوں قول ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِجابت سنت مؤکدہ ہے۔
دعوتِ ولیمہ صرف پہلے دن ہے یا اس کے بعد دوسرے دن بھی یعنی دو ۲ ہی دن تک یہ دعوت ہوسکتی ہے، اس
کے بعدولیمہ اور شادی ختم۔ تیسرے دن اگر کوئی کرتے ہیں تو دعوت ضیافت و مہمان نوازی ہوگی دعوت ولیمہ نہیں۔
یاد رہے کہ زفاف کے سویرے ولیمہ کا کھانا دینا برحق ہے،لیکن اگر کسی وجہ سے اس دن نہ دے سکے تو دوسرے دن دے دینا بھی سنت ولیمہ میں شامل ہے۔
البتہ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں
١/ ولیمہ عقد نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ہو۔
٢/ عقد نکاح اور رخصتی کے بعد شب زفاف سے پہلے ہو۔
٣/ عقد نکاح رخصتی اورشب زفاف کے بعد ہو۔
ان تینوں میں سے تیسری صورت افضل اور مسنون ہے، مگر نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ولیمہ کرنا بھی جائز ہے۔
کما فی اعلاء السنن.
والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس في هذا الباب صریح في أنها الولیمة بعد الدخول.
(ج: 11، ص: 12، باب استحباب الولیمۃ، ط: ادارۃ القرآن)
وفی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح:
(أولم ولو بشاة) أي اتخذ وليمة، قال ابن الملك: تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها والأكثر على أن الأمر للندب، قيل: إنها تكون بعد الدخول، وقيل: عند العقد، وقيل. عندهما
(ج: 21، ص: 2104، ط: دار الفکر)
وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ
وصرح الحنفية بأنه إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما، وإذا اتخذ وليمة ينبغي لهم أن يجيبوا، ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد ثم ينقطع العرس والوليمة.
(ج: 5، ص: 249، ط: دار السلاسل)
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے حضر ت ابن مسعود سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ پہلے دن کا کھانا حق ہے دوسرے دن کا سنت ہے اور تیسرے دن کا کھانا نام و نمود ہےجو سنانا چاہے گا اﷲ اسے سنا دے گا(ترمذی)
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
اس جملہ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ پہلے دن سے مراد شادی و برات کا دن ہے اور حق سے مراد مستحق ہے،یعنی برات والے دن کا کھانا مہمانوں کا حق ہے جو شرکت بارات کے لیے آئے ہیں اور دوسرے دن یعنی زفاف کے بعد ولیمہ کا کھانا سنت ہے مؤکدہ یا مستحبہ اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے دوسرے یہ کہ پہلے دن سے مراد زفاف کے بعد کا دن ہے اور دوسرے دن سے مراد اس دن کے بعد کا دن یعنی زفاف سے سویرے۔
دعوت ولیمہ حق درست ہے اور دوسرے دن کا کھانا بھی سنت ہے یعنی بدعت یا خلاف سنت نہیں، تیسرے یہ کہ زفاف کے سویرے کھانا دینا فرض یا واجب ہے جس میں بلاوجہ شرکت نہ کرنا گناہ دوسرے دن کا بھی کھانا سنت ہے
فقیر کے نزدیک پہلے معنی زیادہ قوی ہیں،چوتھے یہ کہ زفاف کے سویرے ولیمہ کا کھانا دینا برحق ہے،لیکن اگر کسی وجہ سے اس دن نہ دے سکے تو دوسرے دن دے دینا بھی سنت ولیمہ میں شامل ہے۔
البتہ مسلسل تین دن تک کھانا دینا محض نام و نمود ہے ثواب نہیں یا زفاف کے تیسرے دن کھانا دینا سنت نہیں صرف نام و نمود ہے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے کہ ان کے ہاں ولیمہ سات روز تک ہوسکتا ہے۔(از مرقات)
یعنی جو دنیا میں محض اپنی ریا کاری کے لیے کوئی کام کرے گا تو اﷲ تعالٰی کل قیامت میں اس کو رسوا فرمائے گا،اعلان ہوگا کہ یہ ریا کار تھا،یا جو دنیا میں محض ناموری کے لیے نیکی کرے گا اس کی جزا صرف یہاں کی ناموری ہوگی قیامت میں کوئی ثواب نہ ملے گا،ثواب کے لیے اخلاص چاہیے۔یہ حدیث طبرانی نے حضرت ابن عباس سے نقل فرمائی اس کا مضمون یہ ہے کہ شادی میں ایک دن کھا نا سنت ہے دو دن کا کھانا افضل اور تین دن کا کھانا دکھلاوا۔(مرقات المرأة ج ٥ ص ١٤٤مكتبة المدينة)
فائدہ :-
ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں میں بھی جانا افضل ہے اور یہ شخص اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا افضل ہے کہ اپنے مسلم بھائی کی خوشی میں شرکت اور اس کا دل خوش کرنا ہے اور روزہ دار ہو جب بھی جائے اور صاحب خانہ کے لیے دعا کرے اور ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں کا بھی یہی حکم ہے کہ روزہ دار نہ ہو تو کھائے، ورنہ اس کے لیے دعا کرے
دعوتِ ولیمہ کا یہ حکم جو بیان کیا گیا ہے، اس وقت ہے کہ دعوت کرنے والوں کا مقصود ادائے سنت ہو اور اگر مقصود تفاخر ہو یا یہ کہ میری واہ واہ ہوگی جیسا کہ اس زمانہ میں اکثر یہی دیکھا جاتا ہے، تو ایسی دعوتوں میں نہ شریک ہونا بہتر ہے خصوصاً اہلِ علم کو ایسی جگہ نہ جانا چاہیے
دعوت میں جانا اس وقت سنت ہے جب معلوم ہو کہ وہاں گانا بجانا، لہو و لعب نہیں ہے اور اگر معلوم ہے کہ یہ خرافات وہاں ہیں تو نہ جائے۔جانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں لغویات ہیں اگر وہیں یہ چیزیں ہوں تو واپس آئے اور اگر مکان کے دوسرے حصے میں ہیں جس جگہ کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں نہیں ہیں تو وہاں بیٹھ سکتا ہے اور کھا سکتا ہے پھر اگر یہ شخص ا ن لوگوں کو روک سکتا ہے تو روک دے اور اگر اس کی قدرت اسے نہ ہو تو صبر کرے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ یہ شخص مذہبی پیشوا نہ ہو اور اگر مقتدیٰ و پیشوا ہو، مثلاً علما و مشایخ، یہ اگر نہ روک سکتے ہوں تو وہاں سے چلے آئیں نہ وہاں بیٹھیں نہ کھانا کھائیں اور پہلے ہی سے یہ معلوم ہو کہ وہاں یہ چیزیں ہیں تو مقتدیٰ ہو یا نہ ہو کسی کو جانا جائز نہیں اگرچہ خاص اُس حصۂ مکان میں یہ چیزیں نہ ہوں بلکہ دوسرے حصہ میں ہوں
اگر وہاں لہوو لعب ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ میرے جانے سے یہ چیزیں بند ہوجائیں گی تو اس کو اس نیت سے جانا چاہیے کہ اس کے جانے سے منکراتِ شرعیہ روک دیے جائیں گے اور اگر معلوم ہے کہ وہاں نہ جانے سے ان لوگوں کو نصیحت ہوگی اور ایسے موقع پر یہ حرکتیں نہ کریں گے، کیونکہ وہ لوگ اس کی شرکت کو ضروری جانتے ہی اور جب یہ معلوم ہوگا کہ اگر شادیوں اور تقریبوں میں یہ چیزیں ہوں گی تو وہ شخص شریک نہ ہوگا تو اس پر لازم ہے کہ وہاں نہ جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اور ایسی حرکتیں نہ کریں
دعوتِ ولیمہ صرف پہلے دن ہے یا اس کے بعد دوسرے دن بھی یعنی دو ۲ ہی دن تک یہ دعوت ہوسکتی ہے، اس
کے بعدولیمہ اور شادی ختم
ہندوستان میں شادیوں کا سلسلہ کئی دن تک قائم رہتا ہے۔ سنت سے آگے بڑھنا ریا و سمعہ( سمعہ یعنی اس لیے کام کرنا کہ لوگ سنیں گے اور اچھا جانیں گے) ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔
(مأخوذ ح ١٦ ص٣٩٤/٢٩٥/٣٩٦ مكتبة المدينة)
الفتاوی الہندیۃ کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات،ج ۵ ،ص ۳۴۳۔
و ردالمحتار کتاب الحظر والإباحۃ،ج ۹ ،ص ۵۷۴۔
ردالمحتار کتاب الحظر والإباحۃ،ج ۹ ،ص ۵۷۴۔
الہدایۃ کتاب الکراہیۃ، فصل في الأکل والشرب،ج ۲ ص ۳۶۵۔
و الدرالمختار کتاب الحظر والإباحۃ،ج ۹ ،ص ۵۷۴۔
الفتاوی الہندیۃ کتاب الکراہیۃ
الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات، ج ۵ ،ص ۳۴۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا رخصتی اور ولیمہ ساتھ کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رخصتی اور ولیمہ اکٹھا کر سکتے ہیں ؟
سائلہ:- عاصمہ وقاص پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
رخصتی اور ولیمہ اکٹھا کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے رخصت تو دلہن کو ہونی ہے کہ رخصتی دلہن کے گھر والے کریں گے اور دعوت ولیمہ دولہا نے کرنا ہے
دعوتِ ولیمہ سنت ہے ۔ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرے اور اس کے لیے جانور ذبح کرکے کھانا تیار کرکے کھلانا ہے اور جو لوگ بلائے جائیں ان کو جانا چاہیے کہ ان کا جانا اس کے لیے مسرت کا باعث ہوگا۔ ولیمہ میں جس شخص کو بلایا جائے اس کو جانا سنت ہے یا واجب۔ علما کے دونوں قول ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِجابت سنت مؤکدہ ہے۔
دعوتِ ولیمہ صرف پہلے دن ہے یا اس کے بعد دوسرے دن بھی یعنی دو ۲ ہی دن تک یہ دعوت ہوسکتی ہے، اس
کے بعدولیمہ اور شادی ختم۔ تیسرے دن اگر کوئی کرتے ہیں تو دعوت ضیافت و مہمان نوازی ہوگی دعوت ولیمہ نہیں۔
یاد رہے کہ زفاف کے سویرے ولیمہ کا کھانا دینا برحق ہے،لیکن اگر کسی وجہ سے اس دن نہ دے سکے تو دوسرے دن دے دینا بھی سنت ولیمہ میں شامل ہے۔
البتہ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں
١/ ولیمہ عقد نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ہو۔
٢/ عقد نکاح اور رخصتی کے بعد شب زفاف سے پہلے ہو۔
٣/ عقد نکاح رخصتی اورشب زفاف کے بعد ہو۔
ان تینوں میں سے تیسری صورت افضل اور مسنون ہے، مگر نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ولیمہ کرنا بھی جائز ہے۔
کما فی اعلاء السنن.
والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس في هذا الباب صریح في أنها الولیمة بعد الدخول.
(ج: 11، ص: 12، باب استحباب الولیمۃ، ط: ادارۃ القرآن)
وفی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح:
(أولم ولو بشاة) أي اتخذ وليمة، قال ابن الملك: تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها والأكثر على أن الأمر للندب، قيل: إنها تكون بعد الدخول، وقيل: عند العقد، وقيل. عندهما
(ج: 21، ص: 2104، ط: دار الفکر)
وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ
وصرح الحنفية بأنه إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما، وإذا اتخذ وليمة ينبغي لهم أن يجيبوا، ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد ثم ينقطع العرس والوليمة.
(ج: 5، ص: 249، ط: دار السلاسل)
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے حضر ت ابن مسعود سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ پہلے دن کا کھانا حق ہے دوسرے دن کا سنت ہے اور تیسرے دن کا کھانا نام و نمود ہےجو سنانا چاہے گا اﷲ اسے سنا دے گا(ترمذی)
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
اس جملہ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ پہلے دن سے مراد شادی و برات کا دن ہے اور حق سے مراد مستحق ہے،یعنی برات والے دن کا کھانا مہمانوں کا حق ہے جو شرکت بارات کے لیے آئے ہیں اور دوسرے دن یعنی زفاف کے بعد ولیمہ کا کھانا سنت ہے مؤکدہ یا مستحبہ اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے دوسرے یہ کہ پہلے دن سے مراد زفاف کے بعد کا دن ہے اور دوسرے دن سے مراد اس دن کے بعد کا دن یعنی زفاف سے سویرے۔
دعوت ولیمہ حق درست ہے اور دوسرے دن کا کھانا بھی سنت ہے یعنی بدعت یا خلاف سنت نہیں، تیسرے یہ کہ زفاف کے سویرے کھانا دینا فرض یا واجب ہے جس میں بلاوجہ شرکت نہ کرنا گناہ دوسرے دن کا بھی کھانا سنت ہے
فقیر کے نزدیک پہلے معنی زیادہ قوی ہیں،چوتھے یہ کہ زفاف کے سویرے ولیمہ کا کھانا دینا برحق ہے،لیکن اگر کسی وجہ سے اس دن نہ دے سکے تو دوسرے دن دے دینا بھی سنت ولیمہ میں شامل ہے۔
البتہ مسلسل تین دن تک کھانا دینا محض نام و نمود ہے ثواب نہیں یا زفاف کے تیسرے دن کھانا دینا سنت نہیں صرف نام و نمود ہے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے کہ ان کے ہاں ولیمہ سات روز تک ہوسکتا ہے۔(از مرقات)
یعنی جو دنیا میں محض اپنی ریا کاری کے لیے کوئی کام کرے گا تو اﷲ تعالٰی کل قیامت میں اس کو رسوا فرمائے گا،اعلان ہوگا کہ یہ ریا کار تھا،یا جو دنیا میں محض ناموری کے لیے نیکی کرے گا اس کی جزا صرف یہاں کی ناموری ہوگی قیامت میں کوئی ثواب نہ ملے گا،ثواب کے لیے اخلاص چاہیے۔یہ حدیث طبرانی نے حضرت ابن عباس سے نقل فرمائی اس کا مضمون یہ ہے کہ شادی میں ایک دن کھا نا سنت ہے دو دن کا کھانا افضل اور تین دن کا کھانا دکھلاوا۔(مرقات المرأة ج ٥ ص ١٤٤مكتبة المدينة)
فائدہ :-
ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں میں بھی جانا افضل ہے اور یہ شخص اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا افضل ہے کہ اپنے مسلم بھائی کی خوشی میں شرکت اور اس کا دل خوش کرنا ہے اور روزہ دار ہو جب بھی جائے اور صاحب خانہ کے لیے دعا کرے اور ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں کا بھی یہی حکم ہے کہ روزہ دار نہ ہو تو کھائے، ورنہ اس کے لیے دعا کرے
دعوتِ ولیمہ کا یہ حکم جو بیان کیا گیا ہے، اس وقت ہے کہ دعوت کرنے والوں کا مقصود ادائے سنت ہو اور اگر مقصود تفاخر ہو یا یہ کہ میری واہ واہ ہوگی جیسا کہ اس زمانہ میں اکثر یہی دیکھا جاتا ہے، تو ایسی دعوتوں میں نہ شریک ہونا بہتر ہے خصوصاً اہلِ علم کو ایسی جگہ نہ جانا چاہیے
دعوت میں جانا اس وقت سنت ہے جب معلوم ہو کہ وہاں گانا بجانا، لہو و لعب نہیں ہے اور اگر معلوم ہے کہ یہ خرافات وہاں ہیں تو نہ جائے۔جانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں لغویات ہیں اگر وہیں یہ چیزیں ہوں تو واپس آئے اور اگر مکان کے دوسرے حصے میں ہیں جس جگہ کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں نہیں ہیں تو وہاں بیٹھ سکتا ہے اور کھا سکتا ہے پھر اگر یہ شخص ا ن لوگوں کو روک سکتا ہے تو روک دے اور اگر اس کی قدرت اسے نہ ہو تو صبر کرے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ یہ شخص مذہبی پیشوا نہ ہو اور اگر مقتدیٰ و پیشوا ہو، مثلاً علما و مشایخ، یہ اگر نہ روک سکتے ہوں تو وہاں سے چلے آئیں نہ وہاں بیٹھیں نہ کھانا کھائیں اور پہلے ہی سے یہ معلوم ہو کہ وہاں یہ چیزیں ہیں تو مقتدیٰ ہو یا نہ ہو کسی کو جانا جائز نہیں اگرچہ خاص اُس حصۂ مکان میں یہ چیزیں نہ ہوں بلکہ دوسرے حصہ میں ہوں
اگر وہاں لہوو لعب ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ میرے جانے سے یہ چیزیں بند ہوجائیں گی تو اس کو اس نیت سے جانا چاہیے کہ اس کے جانے سے منکراتِ شرعیہ روک دیے جائیں گے اور اگر معلوم ہے کہ وہاں نہ جانے سے ان لوگوں کو نصیحت ہوگی اور ایسے موقع پر یہ حرکتیں نہ کریں گے، کیونکہ وہ لوگ اس کی شرکت کو ضروری جانتے ہی اور جب یہ معلوم ہوگا کہ اگر شادیوں اور تقریبوں میں یہ چیزیں ہوں گی تو وہ شخص شریک نہ ہوگا تو اس پر لازم ہے کہ وہاں نہ جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اور ایسی حرکتیں نہ کریں
دعوتِ ولیمہ صرف پہلے دن ہے یا اس کے بعد دوسرے دن بھی یعنی دو ۲ ہی دن تک یہ دعوت ہوسکتی ہے، اس
کے بعدولیمہ اور شادی ختم
ہندوستان میں شادیوں کا سلسلہ کئی دن تک قائم رہتا ہے۔ سنت سے آگے بڑھنا ریا و سمعہ( سمعہ یعنی اس لیے کام کرنا کہ لوگ سنیں گے اور اچھا جانیں گے) ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔
(مأخوذ ح ١٦ ص٣٩٤/٢٩٥/٣٩٦ مكتبة المدينة)
الفتاوی الہندیۃ کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات،ج ۵ ،ص ۳۴۳۔
و ردالمحتار کتاب الحظر والإباحۃ،ج ۹ ،ص ۵۷۴۔
ردالمحتار کتاب الحظر والإباحۃ،ج ۹ ،ص ۵۷۴۔
الہدایۃ کتاب الکراہیۃ، فصل في الأکل والشرب،ج ۲ ص ۳۶۵۔
و الدرالمختار کتاب الحظر والإباحۃ،ج ۹ ،ص ۵۷۴۔
الفتاوی الہندیۃ کتاب الکراہیۃ
الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات، ج ۵ ،ص ۳۴۳)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٤/٢/٢٠٢٢
٢٤/٢/٢٠٢٢