Type Here to Get Search Results !

اگر شرعی مسافر عمدا چار رکعات نماز پڑھا دے تو شرعا کیا حکم ہے؟

 (سوال نمبر2009)
اگر شرعی مسافر عمدا چار رکعات نماز پڑھا دے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاته 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع اس مسئلہ کے متعلق 
اگر مسافر جان کر چار رکعت والی نماز پڑھائے تو مقتدیوں پر کیا حکم ہے اور امام پر کیا ہے وضاحت فرمائیں 
سائل:- محمد شوکت جموں انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

اگر مسافر امام نے سہوا دو کے بجائے چار پڑھا دی تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔
١/ آگر امام نےدوسری رکعت کے بعد قعدہ کیا ہے، اور آخر میں سجدہ سہوہ بھی کیا ہے تو مسافر امام اور مسافر مقتدیوں کی نماز تو ہوجائے گی،اور مقیم کی نماز نہیں ہوگی، کیوں کہ مسافر امام کی چار رکعتوں میں سے آخری دورکعت نفل ہے، اور فرض نماز پڑھنے والوں کی اقتدا نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے درست نہیں ہوگی، 
اور خود اس امام کی اور مسافر مقتدیوں کی نماز آخر میں سجدہ سہو کرنے سے درست ہو جائے گی، اور اگر سجدہ سہو کئے بغیر سلام پھیر دیا ہے، تو جب تک نماز کا وقت باقی ہو، مسافر پر اس فرض نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، اور وقت گزرنے کے بعد دوبارہ پڑھنا مستحب ہوگا۔
٢/ اگر امام نےدوسری رکعت کے بعد قعدہ نہیں کیا ہے تو امام اور مقتدی چاہے مسافر ہوں یا مقیم سب کی فرض نماز باطل ہوجائے گی اور یہ نماز نفل شمار ہوگی، اور فرض نماز دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔چونکہ احناف کے نزدیک مسافر پر چار رکعت والی نمازوں میں حسب شرائط قصر واجب ہے، محض جائز یا رخصت نہیں ہے؛ اس لیے مسافر کے لیے چار رکعت والی نمازوں میں اتمام کرنا جائز نہیں۔
اگر کسی مسافر نے اتمام کرلیا اور اس نے دو رکعت پر جان بوجھ کر یا بھول کر قعدہ نہیں کیا تو اس کا فرض سرے سے ادا نہ ہوگا؛ کیوں کہ مسافر کے حق میں دو رکعت پر قعدہ فرض ہوتا ہے۔ 
اور اگر کسی مسافر نے دو رکعت پر قعدہ کیا اور جان بوجھ کر اس نے مزید دو رکعت ملائیں تو فرض تو ذمہ سے ساقط ہوجائے گا؛ البتہ نماز ناقص ادا ہوئی کراہت تحریمہ کے ساتھ اس لئے گنہگار و مستحق نار ہوا کہ واجب ترک کیا لہٰذا تو بہ کرے۔ اور دو رکعات قصر نماز پھر سے پڑھے ۔یعنی اعادہ واجب ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے
[تنبيه]يؤخذ من هذا أنه لو اقتدى مقيمون بمسافر وأتم بهم بلا نية إقامة وتابعوه فسدت صلاتهم لكونه متنفلا في الأخريين، نبه على ذلك العلامة الشرنبلالي في رسالته في المسائل الاثني عشرية؛ وذكر أنها وقعت له ولم يرها في كتاب. قلت: وقد نقلها الرملي في باب المسافر عن الظهيرية، وسنذكرها هناك أيضا (كتاب الصلوة، باب الامامة، ج:1، ص:581،)
فتاوی شامی میں ہے
(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه و) لكنه (أساء) لو عامدًا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لايحل كما حرره القهستاني، بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار (وما زاد نفل) كمصلي الفجر أربعًا (وإن لم يقعد بطل فرضه) وصار الكل نفلًا لترك القعدة (كتاب الصلوة، باب المسافر، ج:2، ص:128)
کما فی حاشیة الطحاوي علی المراقي
فإذا أتم الرباعیة والحال أنہ قعد القعود الأول قدر التشھد صحت صلاتہ لوجود الفرض في محلہ وھو الجلوس علی الرکعتین وتصیر الأخریان نافلة لہ مع الکراھة لتأخیر الواجب وھو السلام عن محلہ إن کان عامداً ……وإلا أي: وإن لم یکن قد جلس قدر التشھد علی رأس الرکعتین الأولیین فلا تصح صلاتہ لترکہ فرض الجلوس في محلہ واختلاط النفل بالفرض قبل کمالہ (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ص: ۴۲۵، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)
 قولہ لتأخیر الواجب :وترک واجب القصر وترک افتتاح النفل وخلطہ بالفرد، وکل ذلک لا یجوز ، أفادہ السید عن الدر (حاشیة الطحاوي علی المراقي)
 ومثلہ فی الدر والرد (کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲ ۶۰۹، ۶۱۰،) أیضاً۔
حدیث پاک میں ہے 
١/ ترمذی شریف میں  عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما
سے مروی، کہتے ہیں میں نے نبی صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضر و سفر دونوں میں نمازیں پڑھیں حضر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعت اور سفر میں ظہر کی دو اور اس کے بعد دو رکعت اور عصر کی دو۔ اور اس کے بعد کچھ نہیں اور مغرب کی حضر و سفر میں برابر تین رکعتیں سفر وحضر کسی کی نمازِ مغرب میں  قصر نہ فرماتے اور اس کے بعد دو رکعت۔ 
٢/ صحیحین میں ام المؤمنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مروی
فرماتی ہیں نماز دو رکعت فرض کی گئی پھر جب حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار فرض کر دی گئی اور سفر کی نماز اسی پہلے فرض پر چھوڑی گئی۔‘
٣/ صحیح مسلم شریف میں عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی، کہتے ہیں : کہ ﷲ عزوجل نے نبی صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانی حضر میں چار رکعتیں فرض کیں  اور سفر میں دو اور خوف میں  ایک یعنی امام کے ساتھ۔
٤/ ابن ماجہ نے عبدﷲ بن عمر رضیﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ رسول ﷲ
 صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نمازِ سفر کی دو رکعتیں  مقرر فرمائیں اور یہ پوری ہے کم نہیں یعنی اگرچہ بظاہر دو رکعتیں کم ہوگئیں مگر ثواب میں یہ دو ہی چار کی برابر ہیں. (بحوالہ بہار ح ٤ ص ٧٧٥ مكتبة المدينة)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اور قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئيں، مگر گنہگار و مستحق ِنار ہوا کہ واجب ترک کیا،لہٰذا تو بہ کرے اور دو رکعت پر قعدہ نہ کیا، تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی
(بھار،ج 1ح 4،ص 743،ط مکتبۃ المدینہ کراچی )
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ (سالِ وفات 1340ھ/1921ء) 
فرماتے ہیں جس پرشرعاً قصر ہے اور اس نےجہلاً (پوری) پڑھی اس پر مواخذہ ہے اور اس نماز کاپھیرناواجب (فتاویٰ رضویہ ،کتاب الصلاۃ ،صلاۃ المسافرج 8، ص 270، ط رضا فاؤنڈیشن لاھور )
سجدہ سہو واجب ہونے کے باوجود نہ کیا ،تو  نماز واجب الاعادہ ہونے کے بابت 
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ (سالِ وفات 1367ھ/1947ء) فرماتے ہیں کہ اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدہ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے۔
(بہار 4 ،ج1ص 708۔ط مکتبۃ المدینہ کراچی )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/2/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area