Type Here to Get Search Results !

کیا حقوق العباد کو اللہ تعالی معاف فرمادےگا یا جس کا حق ہے اسے معاف کرنا ضروری ہے؟

 (سوال نمبر 2131)
کیا حقوق العباد کو اللہ تعالی معاف فرمادےگا یا جس کا حق ہے اسے معاف کرنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین مسٔلہ ذیل میں
کہ زید نے چوری کیا اور پھر سچّےدل سےسچّی توبہ کرلی اور یہ عہد کر لیا کہ آ ئند ہ اب میں چوری نہیں کرونگا تو اللّہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول فرما کر اسکے گناہ کو بخشے گا یا نہیں ؟
جبکہ بکر کہتا ہے کہ خدائے تعالیٰ غفورٌورحیم ہے خدائے تعالیٰ اسکی توبہ کو قبول فرما کر اس کے گناہ کو بخش دے گا۔ ۔
 لیکن خالد کا کہناہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہیں کرے گا جسکا مال چوری کر لیا گیا ہے خدائے تعالیٰ معاف نہیں کرے گا 
تو عرض یہ ہے کہ کس کا قول صحیح ہے؟
قرآن اور حدیث کی روشنی میں مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں 
سائل:محمد صنوررضا حشمتی خطیب و امام نوری مسجد سردار نگر ضلع پیلی بھیت۔ یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
حقوق کی دو قسمیں ہیں 
اول حقوق اللہ دوم حقوق العباد ۔
اول میں اللہ تعالی کی مرضی وہ چاہے تو سزا دے اور چایے تو معاف فرمائے 
پر حقوق العباد میں اللہ تعالی اس بندے کو اس وقت تک معاف نہیں فرمائے گا جب تک کہ جس کا حق ہے وہ معاف نہ کرے ۔
مذکورہ سوال میں بکر خاطی ہے اور قول خالد صحیح ہے ۔
واضح رہے کہ سچی توبہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب وہ گناہ نہیں کرے گا بلکہ مطلب یہ ہے ندامت کے ساتھ حقوق اللہ ہو تو اسے ادا کرے اور حقوق العباد ہو تو اسے پورا کرے ۔
مثلا نماز روزہ چھوڑ دیا اب توبہ و ندامت کے ساتھ قضا  کرنا ضروری ہے ۔
اسی طرح چوری توبہ و ندامت کے ساتھ جس کا مال چوری کیا ہے اسے واپس کرنا ضروری ہے ۔
بغیر واپس کئے قیامت میں اللہ تعالی معاف نہیں فرمائے گا ۔جب تک صاحب مال معاف نہ کردے اب صاحب مال قیامت میں یونہی معاف کرے یا چوری کرنے والے کی نیکی لے کر معاف کرے پھر اللہ معاف فرمائے گا ازیں قبل نہیں ۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
سچی توبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کر‏فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب (ناجائز قبضہ)، سرقہ(چوری)، رشوت، ربا(سود)سے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق (یعنی صدقہ)کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔  
(ماخوذ  ازفتاویٰ رضویہ،
ج21،ص121 بحوالہ نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۷ مکتبہ المدینہ)

والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و 
26/3/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area