(سوال نمبر 4210)
کیا غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا اور اس کے علاوہ حضور نے اللہ کے علاوہ غیروں کی قسم اٹھانے یعنی اپنے باپوں کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا اس کے متعلق قران حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجیے جزاکم اللہ خیرا
سائل:- حافظ محمد عمران خان ملک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مطلق غیر اللہ کی قسم کفر و شرک نہیں ہے بلکہ جن احادیث میں غیر اللہ کی قسم کفر و شرک وارد ہے اس سے مراد جس غیر اللہ کی قسم کھائی جائے اسے اللہ کی ذات میں شریک ٹھرایا جائے
جیسے بتوں کی قسم شرک ہے
ہاں غیر اللہ کی قسم حرام و گناہ ہے ۔
المرات میں ہے
اہلِ عرب بتوں اور باپ دادوں کی قسمیں بہت کھاتے تھے ان دونوں سے منع فرمادیا گیا
بتوں کی قسم کھانا شرک ہے باپ دادوں کی قسم کھانا ممنوع و مکروہ ہے
سائل:- حافظ محمد عمران خان ملک پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مطلق غیر اللہ کی قسم کفر و شرک نہیں ہے بلکہ جن احادیث میں غیر اللہ کی قسم کفر و شرک وارد ہے اس سے مراد جس غیر اللہ کی قسم کھائی جائے اسے اللہ کی ذات میں شریک ٹھرایا جائے
جیسے بتوں کی قسم شرک ہے
ہاں غیر اللہ کی قسم حرام و گناہ ہے ۔
المرات میں ہے
اہلِ عرب بتوں اور باپ دادوں کی قسمیں بہت کھاتے تھے ان دونوں سے منع فرمادیا گیا
بتوں کی قسم کھانا شرک ہے باپ دادوں کی قسم کھانا ممنوع و مکروہ ہے
(المرأة ج 5 ص231 مکتبہ المدینہ)
قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں مثلاً:زمین آسمان ،دن رات سورج چاند شہرِ مکہ، طورپہاڑ، انجیراور زیتون وغیرہ کی جوقسم ارشاد فرمائی ہے، توعلمائےکرام رحمہم اللہ السلام نے اس کے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ہیں،ان میں سے دو درج ذیل ہیں
1/ مخلوقات میں سے بعض چیزوں کی قسم ارشاد فرمانا اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے، اس نے اپنے بندوں پر بعض چیزوں کا شرف ظاہر کرنے کے لیے ان کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور وہ خالق و مالکِ حقیقی ہے،سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے، جو چاہے کرے، جسے چاہے عزت دے،جسے چاہے ذلت دے،سب اسی کے اختیار میں ہے،جبکہ ہمیں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح قسم کھانے سے واضح طور پر منع فرما دیا ہے،لہذا اس ممانعت کے بعد ہمارے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہا کہ حکمِ قرآنی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی حقیقت میں اللہ ہی کی اطاعت ہے۔
2/ قرآنِ کریم میں جہاں بعض چیزوں کے ساتھ قسم کا ذکر کیا گیا ہے،تو وہاں بھی حقیقت میں ان چیزوں کی قسم نہیں، بلکہ رب تعالی ہی کی قسم ہےاور وہ یوں کہ ان کے شروع میں لفظِ ’’رَبّ‘‘محذوف ہے(یعنی لفظوں میں اگرچہ نہیں،لیکن حقیقت میں موجود ہے۔)مثلاً:﴿وَالشَّمْسِ﴾ حقیقت میں یہاں ﴿وَرَبِّ الشَّمْسِ﴾یعنی سورج کے رب کی قسم ہے۔اور﴿وَالْقَمَرِ ﴾حقیقت میں یہاں ﴿ وَ رَبِّ الْقَمَرِ ﴾یعنی چاند کے رب کی قسم ہے۔اور﴿ وَالنَّہَارِ﴾حقیقت میں یہاں ﴿ وَ رَبِّ النَّہَارِ﴾یعنی دن کے رب کی قسم ہے۔یونہی قرآنِ کریم کے دیگر مقامات مثلاً﴿وَالطُّوْرِ﴾تو حقیقت میں یہاں ﴿وَ رَبِّ الطُّوْرِ﴾ یعنی طور کے رب کی قسم ہے۔اور﴿ وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ﴾حقیقت میں ﴿ وَرَبِّ التِّیْنِ وَرَبِّ الزَّیْتُوْنِ﴾ یعنی انجیر کے رب کی اور زیتون کے رب کی قسم ہے۔لہذا اس اعتبار سے یہاں غیرِ خدا کی قسم کا والا اعتراض ہی وارد نہیں ہوگا۔
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرتا ہے،مثلاً یوں کہتا ہے کہ ’’اگرمیں نے فلاں کام کیا،تو میری بیوی کو طلاق ہے یا بیوی سے کہا:تو نے فلاں کام کیا،تو تجھے طلاق ہے‘‘تو فقہاء کی اصطلاح میں اسے بھی قسم ہی کہا جاتا ہے،لیکن یاد رہے کہ یہ حقیقی قسم نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس میں الفاظِ قسم کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔فقہاء اسے قسم اس لیے شمار کرتے ہیں ،کہ اس میں قسم والا معنی پایا جاتا ہے اور وہ کوئی کام کرنے کی قسم کھانے کی صورت میں ،اسے کرنے پر ابھارنا اور کام نہ کرنے کی قسم کھانے کی صورت میں ،اس سے رکنا ہے،یعنی جس طرح بندہ کسی کام پر حقیقی قسم ( اللہ پاک کے نام و صفات کی قسم) کھانے کےبعد،قسم ٹوٹنے اور کفارہ لازم ہونے کے خوف سے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ،یونہی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرنے کے بعد،طلاق واقع ہوجانے کے خوف سے اس کام کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ،بلکہ فی زمانہ تو لوگ اللہ پاک کی قسم ٹوٹنے اور اس پر کفارہ لازم ہونے سے بھی زیادہ بیوی کو طلاق واقع ہوجانے سے ڈرتے ہیں،تو اس مناسبت کی وجہ سے فقہاء اسے بھی قسم سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیز اس میں محلوف بہ (طلاق)کی تعظیم کا کوئی پہلو بھی نہیں، بلکہ فقط کسی کام کو کرنے پر ابھارنا یا ا س سے رکنا مقصود ہوتا ہے۔ لہذا اس پر غیر خدا کی قسم کی ممانعت والا حکم بھی عائد نہیں ہو گا۔
غیرِ خدا کی قسم ناجائز ہونےکے جزئیات
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد کی قسم کھانے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ان اللہ ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم،من كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت
بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے،جو شخص قسم کھائے،تووہ اللہ کی قسم کھائے یا چُپ رہے۔
قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں مثلاً:زمین آسمان ،دن رات سورج چاند شہرِ مکہ، طورپہاڑ، انجیراور زیتون وغیرہ کی جوقسم ارشاد فرمائی ہے، توعلمائےکرام رحمہم اللہ السلام نے اس کے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ہیں،ان میں سے دو درج ذیل ہیں
1/ مخلوقات میں سے بعض چیزوں کی قسم ارشاد فرمانا اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے، اس نے اپنے بندوں پر بعض چیزوں کا شرف ظاہر کرنے کے لیے ان کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور وہ خالق و مالکِ حقیقی ہے،سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے، جو چاہے کرے، جسے چاہے عزت دے،جسے چاہے ذلت دے،سب اسی کے اختیار میں ہے،جبکہ ہمیں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح قسم کھانے سے واضح طور پر منع فرما دیا ہے،لہذا اس ممانعت کے بعد ہمارے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہا کہ حکمِ قرآنی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی حقیقت میں اللہ ہی کی اطاعت ہے۔
2/ قرآنِ کریم میں جہاں بعض چیزوں کے ساتھ قسم کا ذکر کیا گیا ہے،تو وہاں بھی حقیقت میں ان چیزوں کی قسم نہیں، بلکہ رب تعالی ہی کی قسم ہےاور وہ یوں کہ ان کے شروع میں لفظِ ’’رَبّ‘‘محذوف ہے(یعنی لفظوں میں اگرچہ نہیں،لیکن حقیقت میں موجود ہے۔)مثلاً:﴿وَالشَّمْسِ﴾ حقیقت میں یہاں ﴿وَرَبِّ الشَّمْسِ﴾یعنی سورج کے رب کی قسم ہے۔اور﴿وَالْقَمَرِ ﴾حقیقت میں یہاں ﴿ وَ رَبِّ الْقَمَرِ ﴾یعنی چاند کے رب کی قسم ہے۔اور﴿ وَالنَّہَارِ﴾حقیقت میں یہاں ﴿ وَ رَبِّ النَّہَارِ﴾یعنی دن کے رب کی قسم ہے۔یونہی قرآنِ کریم کے دیگر مقامات مثلاً﴿وَالطُّوْرِ﴾تو حقیقت میں یہاں ﴿وَ رَبِّ الطُّوْرِ﴾ یعنی طور کے رب کی قسم ہے۔اور﴿ وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ﴾حقیقت میں ﴿ وَرَبِّ التِّیْنِ وَرَبِّ الزَّیْتُوْنِ﴾ یعنی انجیر کے رب کی اور زیتون کے رب کی قسم ہے۔لہذا اس اعتبار سے یہاں غیرِ خدا کی قسم کا والا اعتراض ہی وارد نہیں ہوگا۔
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرتا ہے،مثلاً یوں کہتا ہے کہ ’’اگرمیں نے فلاں کام کیا،تو میری بیوی کو طلاق ہے یا بیوی سے کہا:تو نے فلاں کام کیا،تو تجھے طلاق ہے‘‘تو فقہاء کی اصطلاح میں اسے بھی قسم ہی کہا جاتا ہے،لیکن یاد رہے کہ یہ حقیقی قسم نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس میں الفاظِ قسم کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔فقہاء اسے قسم اس لیے شمار کرتے ہیں ،کہ اس میں قسم والا معنی پایا جاتا ہے اور وہ کوئی کام کرنے کی قسم کھانے کی صورت میں ،اسے کرنے پر ابھارنا اور کام نہ کرنے کی قسم کھانے کی صورت میں ،اس سے رکنا ہے،یعنی جس طرح بندہ کسی کام پر حقیقی قسم ( اللہ پاک کے نام و صفات کی قسم) کھانے کےبعد،قسم ٹوٹنے اور کفارہ لازم ہونے کے خوف سے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ،یونہی بیوی کی طلاق کو کسی کام پر معلق کرنے کے بعد،طلاق واقع ہوجانے کے خوف سے اس کام کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ،بلکہ فی زمانہ تو لوگ اللہ پاک کی قسم ٹوٹنے اور اس پر کفارہ لازم ہونے سے بھی زیادہ بیوی کو طلاق واقع ہوجانے سے ڈرتے ہیں،تو اس مناسبت کی وجہ سے فقہاء اسے بھی قسم سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیز اس میں محلوف بہ (طلاق)کی تعظیم کا کوئی پہلو بھی نہیں، بلکہ فقط کسی کام کو کرنے پر ابھارنا یا ا س سے رکنا مقصود ہوتا ہے۔ لہذا اس پر غیر خدا کی قسم کی ممانعت والا حکم بھی عائد نہیں ہو گا۔
غیرِ خدا کی قسم ناجائز ہونےکے جزئیات
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد کی قسم کھانے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ان اللہ ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم،من كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت
بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے،جو شخص قسم کھائے،تووہ اللہ کی قسم کھائے یا چُپ رہے۔
(الصحیح لبخاری،کتاب الایمان،باب لا تحلفوا بآبائکم،ج2،ص983،مطبوعہ کراچی)
اس ممانعت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا عمل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
فواللہ ما حلفت بها منذ سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم نهى عنها ذاكرا ولا آثرا‘‘ترجمہ:اللہ کی قسم !جب سے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح قسم کھانے کی ممانعت سنی ہے،تب سے میں نے نہ اپنی طرف سے اور نہ ہی کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے اس طرح کی قسم کھائی ہے۔
اس ممانعت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا عمل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
فواللہ ما حلفت بها منذ سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم نهى عنها ذاكرا ولا آثرا‘‘ترجمہ:اللہ کی قسم !جب سے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح قسم کھانے کی ممانعت سنی ہے،تب سے میں نے نہ اپنی طرف سے اور نہ ہی کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے اس طرح کی قسم کھائی ہے۔
(الصحیح لبخاری،کتاب الایمان،باب لا تحلفوا بآبائکم،ج2،ص983،مطبوعہ کراچی)
اللہ پاک کے نام اور صفات کے علاوہ کسی اور ذات ،عبادت یا مقام کی قسم کھانے کی ممانعت اور ایسی قسم کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ ابوبکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اما اليمين بغير اللہ ۔۔وهواليمين بالآباء والابناء والانبياء والملائكة صلوات اللہ عليهم والصوم والصلاة وسائر الشرائع والكعبة والحرم وزمزم والقبر والمنبر ونحو ذلك،ولا يجوز الحلف بشيء من ذلك لما ذكرنا۔۔ولو حلف بذلك لا يعتد به ولا حكم له اصلا‘‘ ترجمہ:بہر حال غیر اللہ کی قسم کھانا :اور وہ باپ،بیٹوں،انبیاءاورفرشتوں(علیہم الصلوٰۃ والسلام)،روزے،نماز اور دیگر دینی احکام،کعبہ،حرم،زمزم،قبر،منبر اور اس کی مثل دیگر اشیاء کی قسم کھانا ہےاوران میں سے کسی بھی چیز کی قسم کھانا، جائز نہیں،اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کر دیااور اگر اس طرح کسی نے قسم کھابھی لی،تو وہ قسم کھانے والا شمار نہیں ہوگا اور اس قسم کا اصلاً کوئی حکم(کفارہ) نہیں ہوگا۔
اللہ پاک کے نام اور صفات کے علاوہ کسی اور ذات ،عبادت یا مقام کی قسم کھانے کی ممانعت اور ایسی قسم کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ ابوبکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اما اليمين بغير اللہ ۔۔وهواليمين بالآباء والابناء والانبياء والملائكة صلوات اللہ عليهم والصوم والصلاة وسائر الشرائع والكعبة والحرم وزمزم والقبر والمنبر ونحو ذلك،ولا يجوز الحلف بشيء من ذلك لما ذكرنا۔۔ولو حلف بذلك لا يعتد به ولا حكم له اصلا‘‘ ترجمہ:بہر حال غیر اللہ کی قسم کھانا :اور وہ باپ،بیٹوں،انبیاءاورفرشتوں(علیہم الصلوٰۃ والسلام)،روزے،نماز اور دیگر دینی احکام،کعبہ،حرم،زمزم،قبر،منبر اور اس کی مثل دیگر اشیاء کی قسم کھانا ہےاوران میں سے کسی بھی چیز کی قسم کھانا، جائز نہیں،اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کر دیااور اگر اس طرح کسی نے قسم کھابھی لی،تو وہ قسم کھانے والا شمار نہیں ہوگا اور اس قسم کا اصلاً کوئی حکم(کفارہ) نہیں ہوگا۔
(بدائع الصنائع،ج3،ص21،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
غیرِ خدا کی قسم ناجائز ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والحكمة في النهي عن الحلف بالآباء انه يقتضي تعظيم المحلوف به وحقيقة العظمة مختصة بالله جلت عظمته،فلا يضاهي به غيره،وهكذا حكم غير الآباء من سائر الاشياء
اور باپ کی قسم کھانے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بے شک قسم محلوف بہ(جس کی قسم کھائی جائے،اس )کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے اور حقیقی عظمت اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے ،جس کی شان بلندو بالا ہے،پس کوئی اور اس کے مشابہ نہیں اور یہی حکم باپ کے علاوہ دیگر اشیاء کی قسم کھانے کا بھی ہے۔
غیرِ خدا کی قسم ناجائز ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والحكمة في النهي عن الحلف بالآباء انه يقتضي تعظيم المحلوف به وحقيقة العظمة مختصة بالله جلت عظمته،فلا يضاهي به غيره،وهكذا حكم غير الآباء من سائر الاشياء
اور باپ کی قسم کھانے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بے شک قسم محلوف بہ(جس کی قسم کھائی جائے،اس )کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے اور حقیقی عظمت اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے ،جس کی شان بلندو بالا ہے،پس کوئی اور اس کے مشابہ نہیں اور یہی حکم باپ کے علاوہ دیگر اشیاء کی قسم کھانے کا بھی ہے۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج23،ص175،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)
اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’لان هذا النوع من الحلف لتعظيم المحلوف وهذا النوع من التعظيم لا يستحقه الا اللہ تعالی‘‘ترجمہ:کیونکہ قسم کی یہ صورت محلوف(جس کی قسم کھائی جائے،اس )کی تعظیم کے لیے ہوتی ہے اور اس طرح کی تعظیم کی حق دار اللہ پاک ہی کی ذات ہے۔
اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’لان هذا النوع من الحلف لتعظيم المحلوف وهذا النوع من التعظيم لا يستحقه الا اللہ تعالی‘‘ترجمہ:کیونکہ قسم کی یہ صورت محلوف(جس کی قسم کھائی جائے،اس )کی تعظیم کے لیے ہوتی ہے اور اس طرح کی تعظیم کی حق دار اللہ پاک ہی کی ذات ہے۔
(بدائع الصنائع،ج 3،ص8،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
قرآنِ کریم میں بعض مخلوقات کی جو قسم ارشاد فرمائی گئی ہے،اس کے بارے میں علماء کے ارشادات:
پانچوی صدی کے مفسّر علامہ ابو الحسن علی بن فضّال رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والنجم وما جرى مجراه من الاقسام التی اقسم اللہ بها،فقيل:تفضيلاً لها وتنويهاً بها،وقيل:بل المقسم به محذوف،ورب النجم ورب الطور ورب التين والزيتون وما اشبہ ذلک‘‘ترجمہ:(قرآنِ کریم میں)تارے کی قسم اور اس طرح کی دیگر قسمیں جو اللہ پاک نے ارشاد فرمائی ہیں،تو ان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ان چیزوں کی فضیلت اور شرف ظاہرکرنے کے لیے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں مقسم بہ(جس کی قسم کھائی جا رہی ہے،وہ) محذوف ہے،(حقیقت میں )تارے کے رب کی قسم،طور کے رب کی قسم،انجیر اور زیتون کے رب کی قسم ہے۔اور جو ان کی مثل قسمیں ہیں(وہاں پر بھی ایسے ہی ہے۔) (النکت فی القرآن الکریم،ص468،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
واما قسم اللہ تعالى بمخلوقاته نحو: والصافات،والطور،والسماء والطارق، والتين والزيتون، والعاديات،فلله ان يقسم بما شاء من خلقه تنبيها على شرفه،او التقدير:ورب الطور وقال ابو عمر:لا ينبغي لاحد ان يحلف بغير اللہ لا بهذه الاقسام ولا بغيرها،لاجماع العلماء على ان من وجب له يمين على آخر في حق، فله ان يحلف له الا بالله‘‘ترجمہ:اور بہرحال اللہ پاک کا اپنی مخلوقات کی قسم ارشاد فرمانا،جیسا کہ(قرآنِ پاک میں ہے)’’ان کی قسم جو صف باندھے ہوئے ہیں،طور کی قسم،آسمان کی اور رات کو آنے والے کی قسم،انجیر کی قسم اور زیتون کی،ان گھوڑوں کی قسم جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں‘‘تواللہ پاک کے پاس اختیار ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہےقسم ارشاد فرمائے اس کے شرف پر تنبیہ کرتے ہوئے ۔ یا(لفظِ ربّ کو )مقدّر ماننے کے ساتھ (حقیقت میں)’’وربّ الطور‘‘طور کے رب کی قسم ہے۔ابو عمر نے کہا کہ (مخلوق میں سے )کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس طرح اور اس کے علاوہ دیگر الفاظ کے ساتھ غیر اللہ کی قسم کھائے،کیونکہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کا کسی دوسرے کے لیے کسی حق کے معاملہ میں قسم کھانا ضروری ہو،تو وہ اللہ ہی کی قسم کھائے۔
قرآنِ کریم میں بعض مخلوقات کی جو قسم ارشاد فرمائی گئی ہے،اس کے بارے میں علماء کے ارشادات:
پانچوی صدی کے مفسّر علامہ ابو الحسن علی بن فضّال رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والنجم وما جرى مجراه من الاقسام التی اقسم اللہ بها،فقيل:تفضيلاً لها وتنويهاً بها،وقيل:بل المقسم به محذوف،ورب النجم ورب الطور ورب التين والزيتون وما اشبہ ذلک‘‘ترجمہ:(قرآنِ کریم میں)تارے کی قسم اور اس طرح کی دیگر قسمیں جو اللہ پاک نے ارشاد فرمائی ہیں،تو ان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ان چیزوں کی فضیلت اور شرف ظاہرکرنے کے لیے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں مقسم بہ(جس کی قسم کھائی جا رہی ہے،وہ) محذوف ہے،(حقیقت میں )تارے کے رب کی قسم،طور کے رب کی قسم،انجیر اور زیتون کے رب کی قسم ہے۔اور جو ان کی مثل قسمیں ہیں(وہاں پر بھی ایسے ہی ہے۔) (النکت فی القرآن الکریم،ص468،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
واما قسم اللہ تعالى بمخلوقاته نحو: والصافات،والطور،والسماء والطارق، والتين والزيتون، والعاديات،فلله ان يقسم بما شاء من خلقه تنبيها على شرفه،او التقدير:ورب الطور وقال ابو عمر:لا ينبغي لاحد ان يحلف بغير اللہ لا بهذه الاقسام ولا بغيرها،لاجماع العلماء على ان من وجب له يمين على آخر في حق، فله ان يحلف له الا بالله‘‘ترجمہ:اور بہرحال اللہ پاک کا اپنی مخلوقات کی قسم ارشاد فرمانا،جیسا کہ(قرآنِ پاک میں ہے)’’ان کی قسم جو صف باندھے ہوئے ہیں،طور کی قسم،آسمان کی اور رات کو آنے والے کی قسم،انجیر کی قسم اور زیتون کی،ان گھوڑوں کی قسم جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں‘‘تواللہ پاک کے پاس اختیار ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہےقسم ارشاد فرمائے اس کے شرف پر تنبیہ کرتے ہوئے ۔ یا(لفظِ ربّ کو )مقدّر ماننے کے ساتھ (حقیقت میں)’’وربّ الطور‘‘طور کے رب کی قسم ہے۔ابو عمر نے کہا کہ (مخلوق میں سے )کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس طرح اور اس کے علاوہ دیگر الفاظ کے ساتھ غیر اللہ کی قسم کھائے،کیونکہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کا کسی دوسرے کے لیے کسی حق کے معاملہ میں قسم کھانا ضروری ہو،تو وہ اللہ ہی کی قسم کھائے۔
(عمدۃ القاری،ج23،ص175،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں
واما اقسامه تعالى بغيره،كالضحى والنجم والليل،۔فقالوا:انه مختص به تعالى، اذ له ان يعظم ما شاء وليس لنا ذلك بعد نهينا
بہرحال اللہ پاک کا اپنے علاوہ کی قسم ارشاد فرمانا،جیسا کہ(قرآنِ پاک میں ہے)’’چڑھتے دن کے وقت کی قسم،تارے کی قسم اور رات کی قسم‘‘تو علماء نے فرمایا:یہ اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے،کیونکہ اس کے پاس اختیار ہے،وہ جسے چاہے عزت بخشےاور ہمیں منع کر دینے کے بعد ہمارے پاس کوئی اختیار باقی نہیں۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں
واما اقسامه تعالى بغيره،كالضحى والنجم والليل،۔فقالوا:انه مختص به تعالى، اذ له ان يعظم ما شاء وليس لنا ذلك بعد نهينا
بہرحال اللہ پاک کا اپنے علاوہ کی قسم ارشاد فرمانا،جیسا کہ(قرآنِ پاک میں ہے)’’چڑھتے دن کے وقت کی قسم،تارے کی قسم اور رات کی قسم‘‘تو علماء نے فرمایا:یہ اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے،کیونکہ اس کے پاس اختیار ہے،وہ جسے چاہے عزت بخشےاور ہمیں منع کر دینے کے بعد ہمارے پاس کوئی اختیار باقی نہیں۔
(ردالمحتار، ج3،ص 705،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)
(ایسا ہی فتاوی اہلسنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
(ایسا ہی فتاوی اہلسنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/08/2023
27/08/2023