(سوال نمبر 7000)
کسی نمازی یا مسلمان کو جاہل کہنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا کسی نمازی یا مومن کو جاہل کہ سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب دیں بہت مہربانی ہوگی
سائل:- آپ کا خادم توصیف رضا مہراجگنجوی پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جب معلوم ہو کہ کسی مسلم نمازی یا دنیاوی تعلیم یافتہ کو جاہل کہنے سے اسے اذیت ہوگی تو نہیں کہنا چاہئے اگرچہ وہ عالم دین کے بالمقابل جاہل ہے البتہ موقع محل کے اعتبار سے بوقت ضرورت کہ سکتے ہیں۔
جاہل کا اطلاق عربی میں کئی معانی پرہوتاہے جاہل کا اطلاق اَن پڑھ پر ہوتا ہے یعنی غیر عالم کو جاہل کہا جاتاہے اور پڑھے لکھے ہونے کے باوجود جہالت کے کاموں میں پڑنے والا بھی جاہل کہلاتا ہے اسی طرح کسی کی حالت سے ناواقف بھی جاہل کہلاتاہے ان میں سے ہر ایک موقع پر اس لفظ کا استعمال قرآنِ کریم واحادیث میں ہواہے
اسی اعتبار سے اُردو میں بھی جاہل کا اطلاق اَن پڑھ ناخواندہ وحشی اجڈ بداخلاق بے ادب گستاخ نادان اناڑی ناواقف بے خبر انجان پر ہوتاہے۔
ہمارے عرف میں چوں کہ غیرعالم کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال اچھا نہیں سمجھا جاتا اور دوسروں کے لیے ایذا کا باعث ہوتاہے نیزجس لفظ سے اہانت وتنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کے استعمال سے بھی احتراز کرنا چاہیے اس لیے براہِ راست کسی فرد کو مخاطب کرکے اُسے جاہل کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے
فیروز اللغات میں ہے
جاہل کا لغوی معنیٰ ہے ان پڑھ وحشی غیر مہذب نا واقف نا آشنا انجان
(فیروز اللغات اردو جدید ص ۲٤۵ فیروز سنن لاہور)
واضح رہے کہ جاہل کو جاہل کہا جاسکتا ہے مگر کسی کو جاہل کہہ کر مخاطب کرنا نامناسب ہے جیسے اندھے کو اندھا لنگڑے کو لنگڑا کہہ کر مخاطب نہیں کرنا چاہیے اور دل آزاری مقصود ہو تو یہ ناجائز بھی ہے
حدیث شریف میں ہے
من اذیٰ مسلما فقد اذانی و من اذاني فقد اذی الله.
جس نے کسی مسلمان کو تکلیف دی گویا کہ اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی گویا کہ اس نے اللہ کو تکلیف دی۔
(بحوالہ کنز العمال)
تاج العروس من جواهر القاموس میں ہے
والجاهِلُ يُذْكَر تارَةً على سَبيلِ الذّمِّ وهو الأكثَرُ ، وتارَةً لا علَى سَبيلِه نحو: يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ أي مَن لايَعرِفُ حالَهم. انتهى.
جاہل کا لفظ اکثر اوقات بطورِ مذمت استعمال ہوتاہے جب کہ کبھی بطورِ مذمت نہیں استعمال کیا جاتاجیسے کہ قرآن مجید میں ہےجاہل (ناواقف) شخص انہیں (مسلمان سفید پوش فقراء کو) مال دار سمجھتا ہے یعنی (یہاں جاہل سے مراد) وہ شخص (ہے) جو ان کا حال نہ جانتاہو۔ (تاج العروس من جواهر القاموس - (28 / 255)
لسان العرب میں ہے
(جهل) الجهل نقيض العلم ...والمعروف في كلام العرب جهلت الشيء إذا لم تعرفه ...وقوله تعالى يحسبهم الجاهل أغنياء يعني الجاهل بحالهم ولم يرد الجاهل الذي هو ضد العاقل إنما أراد الجهل الذي هو ضد الخبرة يقال هو يجهل ذلك أي لا يعرفه وقوله عز وجل إني أعظك أن تكون من الجاهلين من قولك جهل فلان رأيه وفي الحديث إن من العلم جهلا قيل وهو أن يتعلم ما لا يحتاج إليه كالنجوم وعلوم الأوائل ويدع ما يحتاج إليه في دينه من علم القرآن والسنة.(لسان العرب(11 / 129)
تفسير القرطبي میں ہے
الثانية- في هذه الآية دليلان أحدهما- على تجنب الألفاظ المحتملة التي فيها التعريض للتنقيص والغض، ويخرج من هذا فهم القذف بالتعريض، وذلك يوجب الحد عندنا خلافا لابي حنيفة والشافعي وأصحابهما حين قالوا: التعريض محتمل للقذف وغيره، والحد مما يسقط
(تفسير القرطبي - (2 / 57)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ جاہل کو جاہل کہنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں کہ وہ جاہل ہے مگر جاہل کہہ کر نہیں مخاطب کرنا چاہیے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کسی نمازی یا مسلمان کو جاہل کہنا کیسا ہے؟
_________(❤️)_________
السلام وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا کسی نمازی یا مومن کو جاہل کہ سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب دیں بہت مہربانی ہوگی
سائل:- آپ کا خادم توصیف رضا مہراجگنجوی پاکستان
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
جب معلوم ہو کہ کسی مسلم نمازی یا دنیاوی تعلیم یافتہ کو جاہل کہنے سے اسے اذیت ہوگی تو نہیں کہنا چاہئے اگرچہ وہ عالم دین کے بالمقابل جاہل ہے البتہ موقع محل کے اعتبار سے بوقت ضرورت کہ سکتے ہیں۔
جاہل کا اطلاق عربی میں کئی معانی پرہوتاہے جاہل کا اطلاق اَن پڑھ پر ہوتا ہے یعنی غیر عالم کو جاہل کہا جاتاہے اور پڑھے لکھے ہونے کے باوجود جہالت کے کاموں میں پڑنے والا بھی جاہل کہلاتا ہے اسی طرح کسی کی حالت سے ناواقف بھی جاہل کہلاتاہے ان میں سے ہر ایک موقع پر اس لفظ کا استعمال قرآنِ کریم واحادیث میں ہواہے
اسی اعتبار سے اُردو میں بھی جاہل کا اطلاق اَن پڑھ ناخواندہ وحشی اجڈ بداخلاق بے ادب گستاخ نادان اناڑی ناواقف بے خبر انجان پر ہوتاہے۔
ہمارے عرف میں چوں کہ غیرعالم کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال اچھا نہیں سمجھا جاتا اور دوسروں کے لیے ایذا کا باعث ہوتاہے نیزجس لفظ سے اہانت وتنقیص کا پہلو نکلتا ہو اس کے استعمال سے بھی احتراز کرنا چاہیے اس لیے براہِ راست کسی فرد کو مخاطب کرکے اُسے جاہل کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے
فیروز اللغات میں ہے
جاہل کا لغوی معنیٰ ہے ان پڑھ وحشی غیر مہذب نا واقف نا آشنا انجان
(فیروز اللغات اردو جدید ص ۲٤۵ فیروز سنن لاہور)
واضح رہے کہ جاہل کو جاہل کہا جاسکتا ہے مگر کسی کو جاہل کہہ کر مخاطب کرنا نامناسب ہے جیسے اندھے کو اندھا لنگڑے کو لنگڑا کہہ کر مخاطب نہیں کرنا چاہیے اور دل آزاری مقصود ہو تو یہ ناجائز بھی ہے
حدیث شریف میں ہے
من اذیٰ مسلما فقد اذانی و من اذاني فقد اذی الله.
جس نے کسی مسلمان کو تکلیف دی گویا کہ اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی گویا کہ اس نے اللہ کو تکلیف دی۔
(بحوالہ کنز العمال)
تاج العروس من جواهر القاموس میں ہے
والجاهِلُ يُذْكَر تارَةً على سَبيلِ الذّمِّ وهو الأكثَرُ ، وتارَةً لا علَى سَبيلِه نحو: يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ أي مَن لايَعرِفُ حالَهم. انتهى.
جاہل کا لفظ اکثر اوقات بطورِ مذمت استعمال ہوتاہے جب کہ کبھی بطورِ مذمت نہیں استعمال کیا جاتاجیسے کہ قرآن مجید میں ہےجاہل (ناواقف) شخص انہیں (مسلمان سفید پوش فقراء کو) مال دار سمجھتا ہے یعنی (یہاں جاہل سے مراد) وہ شخص (ہے) جو ان کا حال نہ جانتاہو۔ (تاج العروس من جواهر القاموس - (28 / 255)
لسان العرب میں ہے
(جهل) الجهل نقيض العلم ...والمعروف في كلام العرب جهلت الشيء إذا لم تعرفه ...وقوله تعالى يحسبهم الجاهل أغنياء يعني الجاهل بحالهم ولم يرد الجاهل الذي هو ضد العاقل إنما أراد الجهل الذي هو ضد الخبرة يقال هو يجهل ذلك أي لا يعرفه وقوله عز وجل إني أعظك أن تكون من الجاهلين من قولك جهل فلان رأيه وفي الحديث إن من العلم جهلا قيل وهو أن يتعلم ما لا يحتاج إليه كالنجوم وعلوم الأوائل ويدع ما يحتاج إليه في دينه من علم القرآن والسنة.(لسان العرب(11 / 129)
تفسير القرطبي میں ہے
الثانية- في هذه الآية دليلان أحدهما- على تجنب الألفاظ المحتملة التي فيها التعريض للتنقيص والغض، ويخرج من هذا فهم القذف بالتعريض، وذلك يوجب الحد عندنا خلافا لابي حنيفة والشافعي وأصحابهما حين قالوا: التعريض محتمل للقذف وغيره، والحد مما يسقط
(تفسير القرطبي - (2 / 57)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ جاہل کو جاہل کہنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں کہ وہ جاہل ہے مگر جاہل کہہ کر نہیں مخاطب کرنا چاہیے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/08/2023