(سوال نمبر 4168)
کیا مروجہ سونے چاندی پر زکوٰۃ صرف خالص پر ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کہ متعلق کہ
صاحب نصاب ہونے کے لیے سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے سونا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سونا کبھی بھی خالص نہیں ہوتا ۔یعنی آپ نے سنا ہو گا 18 کیرٹ 20 کیرٹ سونا۔ یعنی 18 کیرٹ سونے کا مطلب 75 فیصد خالص سونا اور 25 فیصد دوسری دھاتوں کی ملاوٹ۔ اسی طرح 12 کیرٹ کا ملطب 50 فیصد سونا۔ جبکہ 24 فیصد سونے کو خالص سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ بھی 98 فیصد ہی خالص ہوتا ہے شاید
سوال یہ ہے کہ جو ساڑھے سات سونے کی مقدار لکھی گئی ہے کیا وہ خالص سونے کی مقدار ہوگی یا اس اگر سونے کی ساتھ دیگر دھاتیں بھی مکس ہیں وہ بھی سونا ہی شمار ہوں گی۔
کیا مروجہ سونے چاندی پر زکوٰۃ صرف خالص پر ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کہ متعلق کہ
صاحب نصاب ہونے کے لیے سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے سونا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سونا کبھی بھی خالص نہیں ہوتا ۔یعنی آپ نے سنا ہو گا 18 کیرٹ 20 کیرٹ سونا۔ یعنی 18 کیرٹ سونے کا مطلب 75 فیصد خالص سونا اور 25 فیصد دوسری دھاتوں کی ملاوٹ۔ اسی طرح 12 کیرٹ کا ملطب 50 فیصد سونا۔ جبکہ 24 فیصد سونے کو خالص سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ بھی 98 فیصد ہی خالص ہوتا ہے شاید
سوال یہ ہے کہ جو ساڑھے سات سونے کی مقدار لکھی گئی ہے کیا وہ خالص سونے کی مقدار ہوگی یا اس اگر سونے کی ساتھ دیگر دھاتیں بھی مکس ہیں وہ بھی سونا ہی شمار ہوں گی۔
سائلہ:- بنت مقبول شہر فیصل آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جب سونا کبھی بھی خالص نہیں ہوتا تو کیا ہوا
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جب سونا کبھی بھی خالص نہیں ہوتا تو کیا ہوا
اور نہ مروجہ مارکیٹ میں خالص سونا ملے گا تو کیا سونے پر اس ملاوت کی وجہ سے زکات ہی نہ ہو ؟
ایسا نہیں ہے بلکہ اصل میں جو ملاوٹ ہے اسی اصل کا بھائو
ملاوٹ پر بھی ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لیس فیما دون مائتی درھم شئ و لا فیما دون عشرین مثقالا ذھبا شئ دو سو
درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے اور بیس مثقال (ساڑھے سات تولہ سونے) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے۔(الاموال لابن زنجویہ، ج3،ص987، مطبوعہ السعودیۃ)
تحفۃ الفقہاء میں ہے
اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون مثقالا ففیہ نصف مثقال و ان کان اقل من ذلک فلا زکاۃ فیہ
صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے، تب اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ ) سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔ (تحفۃ الفقھاء، ج1، ص266 ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
اگر سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہواور اس کےساتھ مالِ زکوۃ میں سے کسی اور جنس کا کوئی بھی مال( مثلاً چاندی، روپیہ پیسہ، مالِ تجارت، پرائز بانڈ وغیرہ ) موجود ہو، تو اس صورت میں وجوبِ زکوۃ کا نصاب ساڑھے52 تولے چاندی کی مالیت‘‘ہے۔تبیین الحقائق میں ہے تضم قیمۃ العروض الی الذھب و الفضۃ و یضم الذھب الی الفضۃ بالقیمۃ فیکمل بہ النصاب لان الکل من جنس واحد“ سامان کی قیمت کو سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا اور سونے کو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب مکمل ہو جائے ، کیونکہ یہ سب ایک ہی جنس سے ہیں۔
ایسا نہیں ہے بلکہ اصل میں جو ملاوٹ ہے اسی اصل کا بھائو
ملاوٹ پر بھی ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لیس فیما دون مائتی درھم شئ و لا فیما دون عشرین مثقالا ذھبا شئ دو سو
درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے اور بیس مثقال (ساڑھے سات تولہ سونے) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے۔(الاموال لابن زنجویہ، ج3،ص987، مطبوعہ السعودیۃ)
تحفۃ الفقہاء میں ہے
اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون مثقالا ففیہ نصف مثقال و ان کان اقل من ذلک فلا زکاۃ فیہ
صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے، تب اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ ) سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔ (تحفۃ الفقھاء، ج1، ص266 ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
اگر سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہواور اس کےساتھ مالِ زکوۃ میں سے کسی اور جنس کا کوئی بھی مال( مثلاً چاندی، روپیہ پیسہ، مالِ تجارت، پرائز بانڈ وغیرہ ) موجود ہو، تو اس صورت میں وجوبِ زکوۃ کا نصاب ساڑھے52 تولے چاندی کی مالیت‘‘ہے۔تبیین الحقائق میں ہے تضم قیمۃ العروض الی الذھب و الفضۃ و یضم الذھب الی الفضۃ بالقیمۃ فیکمل بہ النصاب لان الکل من جنس واحد“ سامان کی قیمت کو سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا اور سونے کو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب مکمل ہو جائے ، کیونکہ یہ سب ایک ہی جنس سے ہیں۔
(تبیین الحقائق، ج1،ص281، مطبوعہ ملتان)
وقار الفتاوی میں ہے
سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے اور چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولے ہے۔جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ پیسہ چاندی اور مالِ تجارت بالکل نہیں ، اس پر سوا سات تولے تک سونے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی ہے ، سونا ، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب ساڑھے باون تولہ پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔لیکن اگر چاندی اور سونا دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ پیسہ ، مالِ تجارت بھی ہے، اسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا، لہٰذا سونا چاندی نقد روپیہ اور مالِ تجارت سب کو ملا کر اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے (وقار الفتاوی، ج2،ص384 تا385،بزم وقار الدین ، کراچی)
حاصل کلام یہ ہے کہ مروجہ ملاوٹی سونا چاندی پر جتنے تولہ ہو جساب میں سب لیں گے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
وقار الفتاوی میں ہے
سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے اور چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولے ہے۔جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ پیسہ چاندی اور مالِ تجارت بالکل نہیں ، اس پر سوا سات تولے تک سونے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی ہے ، سونا ، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب ساڑھے باون تولہ پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔لیکن اگر چاندی اور سونا دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ پیسہ ، مالِ تجارت بھی ہے، اسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا، لہٰذا سونا چاندی نقد روپیہ اور مالِ تجارت سب کو ملا کر اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے (وقار الفتاوی، ج2،ص384 تا385،بزم وقار الدین ، کراچی)
حاصل کلام یہ ہے کہ مروجہ ملاوٹی سونا چاندی پر جتنے تولہ ہو جساب میں سب لیں گے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/08/2023
24/08/2023