Type Here to Get Search Results !

خیمہ اہل بیت میں پانی موجود نہ ہونے پر کیا اعلیٰ حضرت امام اھل سنت رحمہ اللہ نے تواتر سے دلیل پکڑی ہے

 خیمہ اہل بیت میں پانی موجود نہ ہونے پر کیا اعلیٰ حضرت امام اھل سنت رحمہ اللہ نے تواتر سے دلیل پکڑی ہے
_________(❤️)_________
ایک صاحب کی تحریر نگاہ سے گزری جس میں انہوں نے نہ جانے کیسی کم علمی جہالت پر مبنی باتیں کی ہیں، اور پانی موجود ہونے پر بطور دلیل کہا ہے تواتر سے ثابت ہے،،
 جب عقل ماری جاتی ہے اور بات مجاز کے خلاف ہو تو اسی طرح کی احمقانہ باتیں کی جاتی ہیں۔
موصوف نے ہمارے اوپر ایک الزام و بہتان عظیم بھی لگایا ہے کہ ہم نے کہا ہے اعلیٰ حضرت تاریخ نہیں جانتے تھے، 
یہ سراسر جھوٹ ہے، موصوف کو اللہ کے خوف سے ڈرنا چاہے، ہم نے تو یہ کہا تھا تاریخ ان کا موضوع نہ تھا، ہم نے کب کہا تاریخ نہیں جانتے تھے، تاریخ موضوع نہ تھا کا مطلب ہے جس طرح دیگر علوم میں مہارت تامہ و کاملہ حاصل تھی ایسی مہارت تامہ تاریخ میں نہ تھی،
 تایخ میں حرام حلال احکامات پر بحث نہیں ہوتی اس لیۓ فقیہ تاریخ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتا، یہی وجہ ہے تمام تاریخ کی کتب لکھنے والیں فقیہ نہیں ہیں، 
چونکہ ان کا موضوع صرف تاریخ ہی ہے اور ان کو اسی میں مہارت، موصوف نے بات کو توڑ مروڑ کر کہدیا ہم نے کہا کہ تاریخ نہیں جانتے تھے، حالانکہ اس پر ہمارا قرینہ یہ بھی تھا ان حضرات کو فقہ حدیث و دیگر علوم میں مہارت تامہ تھی، عبارت کو محض اسی قرینہ سے سمجھا جا سکتا تھا، اور موصوف نے یہ جو کہا کل کو کوئی بولے گا اعلیٰ حضرت فقیہ تھے اس لیۓ علم حدیث میں ان کی بات مستند نہیں۔، 
اللہ کریم ایسی جہالت اور جاہلانہ باتوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔
 موصوف کو اتنا بھی علم نہیں جو فقیہ ہوگا وہ محدث بھی ہوگا اور جب ایسا ہے تو علم جدیث میں اس کی بات بھی مستند ہوگی، 
اور یہ بات مسلم ہے امام اہلسنت فقیہ ہیں۔ ایسی جہالت پر مبنی تحریر کا میں جواب تو دینا نہیں چاہتا تھا اور اس تحریر پر تفصیلی کلام بھی ہو سکتا ہے،
مگر احباب نے کہا جواب دینا ضروری ہے کچھ تو لکھیں اس لیۓ کچھ لکھدیتا ہوں ائنہ دکھانا ضروری ہے۔
موصوف کے اوپر پانی موجود نہ ہونے والی بات کا تواتر سے ثابت کرنے کا بھوت ایسا سوار ہوا ہے ۔
کہ موصوف نے بار بار تواتر کا رٹٹا لگایا ہوا ہے، گویہ معلوم ہوتا ہے تواتر کا صرف رٹٹا لگایا ہے تواتر کو سمجھا نہیں،
، موصوف کو یہ وہم ہوا ہے اور کہا ہے پانی موجود ہونے کی دلیل تواتر ہے، جبکہ موصوف کا یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہے اور تواتر کے بارے میں لا علم ہونے کی دلیل ہے۔ موصوف خود نہیں سمجھے کہ کیا لکھوں یا جو لکھ بھی رہا ہوں اس تحریر میں تضاد تو نہیں، موصوف نے مصلوب والے مسئلہ کا ذکر کیا ہے اور کہا چار گواہ تھے اس لیۓ یہ تواتر نہیں، حد ہو گئ جہالت کی، جب ابتدا چار گواہ موجود تھے اس کے باوجود یہ تواتر نہیں کہلایا گیا، تو پانی موجود نہ ہونے پر کتنے راوی ہیں کتنے گواہ ہیں ؟ 
بلکہ اس روایت کا کئ سال تک کوئی راوی ہی نہیں ہے تو تواتر کہاں سے ہوگیا،
 تحریر میں اتنی جہالت کی امید نہ تھی، اسی طرح یہود اور دگیر عبارتوں پر تفصیلی کلام ہو سکتا ہے، اب موصوف کو جو وہم ہوا ہے تواتر کا اس وہم کو دور کرتا ہوں۔
1 اول تو یہ کہ واقعہ کربلا ایک مدت تک روایت نہ کیا گیا اس کو ابو مخنف نے روایت کیا ہے جس کی وفات 157 ھ میں ہوئی 
اور مقتل ابو مخنف میں جو کچھ لکھا ہے اس میں تضاد بہت ہے اس کے چار نسخے ہیں اور چاروں میں تضاد ہے۔
 اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کتنے سالوں تک یہ واقعہ روایت نہ کیا گیا، جب ابتدا میں اس کے کوئی راوی ہی نہیں ہیں تو تواتر کیسا؟ 
جب کہ موصوف مسٔلہ مصلوب میں خود فرما چکے کہ ابتدا چار گواہ کی وجہ سے وہ تواتر نہیں، اور یہاں تو چار کیا ابتدا ایک بھی گواہ نہیں تو تواتر کیسا، موصوف نے پہلے بنیاد بنائی نہیں ڈائریکٹ عمارت بنانا چاہی ،ظاہر ہے بنا بنیاد کے عمارت گرے گی ہی۔،
2 ابو مخنف متروک الحدیث کذاب راوی ہے، تو تواتر کیسا ؟
3 واقعہ کربلا میں جو حضرات موجود تھے ان حضرات سے پانی موجود نہ ہونے کی کوئی روایت نہیں۔ تو تواتر کیسا ؟
4 ۔روایت میں جب کوئی راوی زندیق آجاۓ تو وہ تواتر معتبر نہیں ہوتا، تو پھر تواتر کیسا۔
5 اہلبیت نے واقعہ کربلا اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کے باوجود ان سے پانی موجود نہ ہونے کی کوئی روایت نہیں، اور ان سے اس بارے میں روایت نہ ہونا شبہ پیدا کرتا ہے کہ جن حضرات نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے یا جن پر وہ وقت گزرا ہے وہ خود اس کے راوی نہیں تو یہ خبر کذب پر مبنی ہو سکتی ہے، تو تواتر کیسا ؟
6 واقعہ کربلا کا وقت ابو مخنف کی وفات تک کا تقریبا 97 سال کا ہے اور اس بیچ کوئی راوی موجود نہیں، اتنا وقت خالی گزر گیا تو تواتر کیسا،۔
7 ہو سکتا ہے موصوف کو اب یہ وہم ہو بعد میں مسلمانوں میں یہی عام ہو گیا تو اس کو مانا جاۓ گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے موصوف کا یہ وہم بھی غلط ہے چونکہ جو روایت پانی پر موجود ہیں وہ زمانہ قدیم کی ہیں، اور متعدد روایات موجود ہیں، اور زمانہ قدیم میں فتنے فسادات و کذاب لوگوں کی کثرت اس قدر نہ تھی جس قدر بعد میں ہوئی کذاب بھی زیادہ اور فتنے بھی زیادہ جس سے شبہ ہوتا ہے جو خبر بعد میں مشہور ہوئی ہے وہ خبر غیر معتبر ہے، زمانہ قدیم میں اس کے خلاف نقل ملتی ہے، اور ہمارے پاس اس بات کا علم حاصل کرنے کے لیۓ زمانہ قدیم کی نقل کے علاوہ کچھ موجود نہیں، اس لیۓ انہیں روایات کو قبول کرنا لازم وہ ضروری ہے۔
8 ہو سکتا ہے موصوف کو اب یہ وہم ہو کے اس بات کا علم کشف سے ہوا ہے، تو موصوف کا یہ وہم بھی غلط ہے۔ امام اہلسنت نے فرمایا ہے، جب مدار سند پر ہوگا تو مسئلہ علوم ظاہرہ پر آۓ گا اور سند درکار ہوگی۔۔ جب سند درکار ہوگی تو حکم اسی پر ہوگا، اور کشف حجت نہ ہوگا تو تواتر کیسا۔
9 میدان کربلا کی زمین کھودنے پر پانی نکل اتا تھا، جس کے دلائل ہم نے اپنی کتاب و تحریر میں دیۓ ہیں۔ جب ایسا ہے تو پانی موجود نہ ہونے کی روایت عقل و ظاہر کے خلاف ہے، اور جب تواتر عقل و ظاہر کے خلاف ہو تو اس کو رد کر دیا جاتا ہے، تو تواتر کیسا۔
یہ چند باتیں میں نے ذکر کی ہیں امید ہے تواتر سے ثابت کرنے کا جو جنون موصوف پر تھا وہ اتر جاۓ گا۔ موصوف کی تحریر پر اگر تفصیلی کلام کیا جاۓ تو موصوف کو دن میں تارے رات میں سورج نظر آجاۓ گا اور یہ کتنا عظیم جرم ہے جو چیز ثابت ہی نہیں یعنی تواتر تو اعلیٰ حضرت کی طرف اسکی نسبت کی جاۓ، اور یہ کہا جاۓ اس وجہ سے حوالہ نہ دیا۔، موصوف حوالہ کا تو انکار کر گۓ کہ اعلیٰ حضرت امام اھلسنت نے اس لیۓ حوالہ نہ دیا، اور تواتر ثابت کر نہیں پاۓ، اب موصوف کے قول سے یہ لازم آتا ہے
نہ تواتر نہ حوالہ اس کا مطلب امام اہلسنت نے خود سے یہ بات کہی۔، معاذ اللہ
احباب کے حکم پر لکھنا تو بہت کچھ چاہتا تھا کہ موصوف کی ایک ایک عبارت پر تفصیلی کلام ہو
 مگر مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتی اس لیۓ احباب کے حکم پر عمل کرتے ہوۓ تھوڑا بہت لکھ دیا 
_________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال
16 محرم الحرام سنہ ھجری 1445 مطابق 4 اگست بروز جمعہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area