________(❤️)_________
سوال نمبر 4204)
جوا کو صحیح کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال نمبر 4204)
جوا کو صحیح کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید ایک جوا بہت کھیلتا ہے اگر کوئی منع کرے تو کہتا ہے ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں جو ہم کرتے ہیں سب صحیح ہے ایسے شخص پر شریعت کا کیا حکم ہے اور جوا کھیلنےکے حوالے سے کوئی حدیث ہے جس میں کچھ ذکر ہو با حوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل:- رئیس احمد انصاری شراوستی یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں ایسا کہنا سخت گناہ ہے زید توبہ و استغفار کرے جوا کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ اور جہم میں لےجانے والا کام ہے
جوئے کے بارے میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
(ترجمہ کنزالایمان)
اے ایمان والو!شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔(سورۃ المائدۃ،پارہ07، آیت 90)
یاد رہے جوا کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے اگر زید جوا کو صحیح اور حلال سمجھتا ہے پھر خارج از اسلام ہے تجدید ایمان و نکاح نئے مہر و گواہ کے ساتھ لازم ہے اور تجدید بیعت بھی ۔اور اگر حرام سمجھ کر کھیلتا ہے پھر سچی توبہ کرے
احکام القرآن للجصاص میں ہے
و لاخلاف بین اھل العلم فی تحریم القمار قمار(یعنی جوئے )کے حرام ہونے میں اہل علم کاکوئی اختلاف نہیں ہے ۔(احکام القرآن للجصاص،ج 2،ص 11،داراحیاء التراث العربی بیروت)
احادیث مبارکہ میں جوئے کی سخت مذمت فرمائی گئی ہےچنانچہ المعجم الکبیر میں ہے
من لعب بالمیسر، ثم قام یصلی فمثلہ کمثل الذی یتوضأ بالقیح ودم الخنزیر ، فتقول اللہ یقبل لہ صلاۃ
یعنی جو جوا کھیلے پھر نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور خنزیر کے خون سے وضو کرتا ہے تو تُو یہ کہے گا کہ اللہ عزجل اس بندے کی نماز قبول فرمائے گا ۔(یعنی جس طرح دوسرے بندے کی نماز قبول نہیں ، اسی طرح جوا کھیلنے والے کی بھی قبول نہیں ۔) (المعجم الکبیرللطبرانی،مسند من یعرف بالکنی،جلد 22،ص 292، مطبوعہ القاهرہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إن اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام
ﷲتعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیا ہے اور فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔ (السنن الکبری للبیهقی،ج 10،ص 360،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے
القمارمشتق من القمر الذی یزداد وینقص سمی القمار قماراً لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذهب مالہ الی صاحبہ ویستفیدمال صاحبہ فیزداد مال کل واحد منهما مرۃ وینتقص اخری فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً والقمار حرام ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر وانہ لا یجوز
قمارقمر سےمشتق (نکلا) ہے قمروہ ہوتاہے جوبڑھتا اور گھٹتا رہتاہے اسے قمار اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ مقامرین (جواکھیلنےوالوں)
میں سے ہر ایک کوشش کرتاہے کہ اپنے صاحب کامال لے جائے اوردوسرے کے مال سے فائدہ حاصل کرے پس ان میں سے ہرایک کاکبھی مال بڑھ جاتاہے اورکبھی کم ہوجاتاہے ،پس جب مال جانبین سے مشروط ہو، تواسے قمار کہا جاتا ہے اور قمارحرام ہے اوراس لئے کہ اس میں مال کوحاصل کرنے میں خطرے پرمعلق کرناپایاجاتاہے اوریہ ناجائز ہے ۔(المحیط البرهانی فی الفقہ النعمانی ،ج 5،ص 323،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے
اگر دونوں جانب سے مال کی شرط ہو مثلاً تم آگے ہوگئے تو میں اتنا دوں گا اور میں آگے ہوگیا تومیں اتنا لوں گا یہ صورت جوا اور حرام ہے۔ (بهارشریعت،ج 3،حص16 ص607- 08 مکتبۃ المدینہ، کراچی)(ایسا ہی فتاوی اہلسنت میں ہے )
والله ورسوله اعلم بالصواب
سائل:- رئیس احمد انصاری شراوستی یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں ایسا کہنا سخت گناہ ہے زید توبہ و استغفار کرے جوا کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ اور جہم میں لےجانے والا کام ہے
جوئے کے بارے میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
(ترجمہ کنزالایمان)
اے ایمان والو!شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔(سورۃ المائدۃ،پارہ07، آیت 90)
یاد رہے جوا کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے اگر زید جوا کو صحیح اور حلال سمجھتا ہے پھر خارج از اسلام ہے تجدید ایمان و نکاح نئے مہر و گواہ کے ساتھ لازم ہے اور تجدید بیعت بھی ۔اور اگر حرام سمجھ کر کھیلتا ہے پھر سچی توبہ کرے
احکام القرآن للجصاص میں ہے
و لاخلاف بین اھل العلم فی تحریم القمار قمار(یعنی جوئے )کے حرام ہونے میں اہل علم کاکوئی اختلاف نہیں ہے ۔(احکام القرآن للجصاص،ج 2،ص 11،داراحیاء التراث العربی بیروت)
احادیث مبارکہ میں جوئے کی سخت مذمت فرمائی گئی ہےچنانچہ المعجم الکبیر میں ہے
من لعب بالمیسر، ثم قام یصلی فمثلہ کمثل الذی یتوضأ بالقیح ودم الخنزیر ، فتقول اللہ یقبل لہ صلاۃ
یعنی جو جوا کھیلے پھر نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور خنزیر کے خون سے وضو کرتا ہے تو تُو یہ کہے گا کہ اللہ عزجل اس بندے کی نماز قبول فرمائے گا ۔(یعنی جس طرح دوسرے بندے کی نماز قبول نہیں ، اسی طرح جوا کھیلنے والے کی بھی قبول نہیں ۔) (المعجم الکبیرللطبرانی،مسند من یعرف بالکنی،جلد 22،ص 292، مطبوعہ القاهرہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إن اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام
ﷲتعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیا ہے اور فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔ (السنن الکبری للبیهقی،ج 10،ص 360،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے
القمارمشتق من القمر الذی یزداد وینقص سمی القمار قماراً لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذهب مالہ الی صاحبہ ویستفیدمال صاحبہ فیزداد مال کل واحد منهما مرۃ وینتقص اخری فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً والقمار حرام ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر وانہ لا یجوز
قمارقمر سےمشتق (نکلا) ہے قمروہ ہوتاہے جوبڑھتا اور گھٹتا رہتاہے اسے قمار اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ مقامرین (جواکھیلنےوالوں)
میں سے ہر ایک کوشش کرتاہے کہ اپنے صاحب کامال لے جائے اوردوسرے کے مال سے فائدہ حاصل کرے پس ان میں سے ہرایک کاکبھی مال بڑھ جاتاہے اورکبھی کم ہوجاتاہے ،پس جب مال جانبین سے مشروط ہو، تواسے قمار کہا جاتا ہے اور قمارحرام ہے اوراس لئے کہ اس میں مال کوحاصل کرنے میں خطرے پرمعلق کرناپایاجاتاہے اوریہ ناجائز ہے ۔(المحیط البرهانی فی الفقہ النعمانی ،ج 5،ص 323،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے
اگر دونوں جانب سے مال کی شرط ہو مثلاً تم آگے ہوگئے تو میں اتنا دوں گا اور میں آگے ہوگیا تومیں اتنا لوں گا یہ صورت جوا اور حرام ہے۔ (بهارشریعت،ج 3،حص16 ص607- 08 مکتبۃ المدینہ، کراچی)(ایسا ہی فتاوی اہلسنت میں ہے )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/08/2023
27/08/2023