(سوال نمبر 4116)
کیا جس مسجد میں پنجوقتہ باجماعت نماز ہوتی ہو اسی مسجد میں جمعہ جمعہ جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
گاؤں کی ایک مسجد جسمیں کبھی فرض نماذ باجماعت ہوتی ہے اور کبھی ہوتی ہی نہیں اسمیں کیا جمعہ کی باجماعت نماذ ہوسکتی ہے؟ یا ادھر کیا جمعہ کیطرح پانچ وقت کی باجماعت ہونا بھی ضروری ہے؟
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جس مسجد میں پنجوقتہ باجماعت نماز ہوتی ہو اسی مسجد میں جمعہ کی نماز جائز ہے ایسا نہیں کہ یہ شرائط جمعہ نہیں بلکہ جہاں شرائط جمعہ پائی جائے گی وہاں نماز جمعہ فرض ہے مذکورہ مسجد
جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے پنجوقتہ دائمی نہیں ہوتی اگر جمعہ پہلے سے قائم ہے پھر نماز جمعہ بند نہ کی جائے بلکہ اس میں بھی پنجوقتہ نماز با جماعت ادا کرنے کی کوشش کریں ۔اگر فتنہ نہ ہو تو ظہر کی جماعت بھی کریں کہ دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہے
چونکہ جمعہ کی نماز بدون شرط جمعہ قائم نہیں کی جاسکتی البتہ جہاں جاری ہے وہاں جاری رکھیں گے ۔
جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں
١/ شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔
٢/ ظہر کا وقت ہونا۔
٣/ ظہر کے وقت میں نمازِ جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔
٤/ جماعت یعنی امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مردوں کا ہونا
٥ /۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔
كما في بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع
وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت"(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 259)
فقیہ الہند حضرت العلام حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں لیکن عوام اگر پڑھتے ہو تو منع نہ کریں تو شاید اس طرح اللہ اور رسول کا نام لے ان کے لئے ذریعہ نجات ہوجائے اور جب دیہات میں جمع ہی نہیں بلکہ شہر کے جمعہ فرض کی نقل ہے تو اس کے لیے کوئی علٰحیدہ طریقہ نہیں دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے ظہر کی فرض نماز ساقط نہیں ہوتی لہذا دوسرے ایام کے طرح جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے
واضح رہے کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تو قبل الجمعہ اوربعدالجمعہ کی نیت سے سنتیں پڑھنا بھی صحیح نہیں کہ شریعت کے جانب سے قبل الجمعہ اور اور بعد الجمعہ سنتوں کے مطالبہ کاسوال ہی نہیں پیداہوتا اور جب ظہر کی کی نماز ۔ساقط نہیں ہوتی تو اس کی سنتوں کا پڑھنا لازمی ہے جمعہ کےدن بھی ظہر کی سنتوں کے پڑھنے کا مطالبہ بدستور باقی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دیہات میں قبل الجمعہ اور بعد الجمعہ کی نیت سے سنتیں پڑھنا غلط ہے اور ظہر کی فرض کو پڑھنا اور اسکی سنتوں کا پڑھنا ضروری ہے
(فتاویٰ فیض الرسول ج اول ص ۴٠٦)
یاد رہے کہ اہل علم ظہر کی نماز پڑھیں گے با جماعت یا تنہا پر جمعہ کی نماز بعد ترنت ظہر کی جماعت قائم نہیں کریں گے اگر فتنہ و فساد کا خدشہ ہو ۔
جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور نئی مسجد میں جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جمعہ کے لئے نئی مسجد بنالی اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے،
قیام جمعہ کے جواز کے لئے شریعت نے شرائط مقرر کئے ہیں جیسے نماز کے لئے وضو اب جہاں شرائط پائے جائیں گے مشروط بھی پائے جائیں گے جب شرط مفقود تو مشروط بھی مفقود جونکہ جمعہ ہفتے کی عید یے اور جمعہ شعار اسلام سے ہے اور شرائط جمعہ میں سے ایک شرط شہر یا فناء شہر کا ہونا ہے پھر اس میں جامع مسجد کا ہونا ہے تاکہ مسلمان یفتے میں ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے سے لقا و خیریت دریافت ہوسکے اور قومی و سماجی اور دینی مشورہ کیا جا سکے پھر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے کی صورت میں جمعہ کی جامعیت و مقصودیت فوت نظر آتی ہے،
دوسری اہم وجہ جب شریعت کا حکم ہم تک آجائے پھر ہمیں سمجھ میں ائے یا نہ ائے سر تسلیم خم کر کے قبول کرنا ضروری ہے اور یہی اہل ایمان کا تقاضا ہے ۔
حدیث پاک میں ہے
عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي رضي ﷲ عنه لاجمعة ولاتشریق الا في مصر جامع.۔
’حضرت ابو عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا نماز جمعہ وعیدین جامع مصر (شہر) میں ہی جائز ہے
(عبد الرزاق، المصنف، 3: 167، رقم: 5177، المکتب الاسلامي بیروت)
٢/ عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي لاجمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا أصحی الا في مصر جامع أو مدینة عظیمة.
ابوعبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا نماز جمعہ، نماز عیدین و تشریق صرف جامع مصر میں جائز ہے یا بڑے شہر میں۔
(ابن ابي شیبۃ، 1: 439، رقم: 5059)
فقہاء جامع شہر کے بابت فرماتے ہیں
عن أبي حنیفة أنه بلدة کبیرة فیها سکک وأسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحکمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه في الحوادث وهو الأصح.
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: وہ بڑا شہر جس میں گلیاں بازار اور محلے ہوں اور جہاں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا ظالم سے انصاف کر سکے اپنے رعب، اپنے علم یا دوسروں کے علم سے لوگ اپنے گونا گوں مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ صحیح تر تعریف ہے۔(کاساني، بدائع الصنائع، 1: 260، دار الکتاب العربي بیروت)
کما فی الدر المختار
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے‘‘۔
(الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت)
اسی طرح مرغیناني، الہدایۃ میں ہے
عند أبي یوسف رحمه ﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
امام ابو یوسف رحمہ ﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔
(مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے البتہ جہاں پہلے سے قائم ہے تو اسے روکا نہ جانے کہ عوام الناس جس طرح بھی اللہ کا زکر کرے غنیمت ہے اہل علم دیہات میں ظہر کی نماز بدون جماعت پڑھیں گے ۔اگر ظہر کی نماز باجماعت پڑھنے میں فتنہ و فساد نہ ہو تو ظہر کی جماعت سے نماز پڑھیں گے
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہو سکتا ہے، خواہ وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ
مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے، اس ليے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔
(بہار ح 4 ص 769 مکتبہ المدینہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نئی مسجد میں پنجوقتہ نماز با جماعت ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے پر نماز جمعہ جائز نہیں ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا جس مسجد میں پنجوقتہ باجماعت نماز ہوتی ہو اسی مسجد میں جمعہ جمعہ جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
گاؤں کی ایک مسجد جسمیں کبھی فرض نماذ باجماعت ہوتی ہے اور کبھی ہوتی ہی نہیں اسمیں کیا جمعہ کی باجماعت نماذ ہوسکتی ہے؟ یا ادھر کیا جمعہ کیطرح پانچ وقت کی باجماعت ہونا بھی ضروری ہے؟
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جس مسجد میں پنجوقتہ باجماعت نماز ہوتی ہو اسی مسجد میں جمعہ کی نماز جائز ہے ایسا نہیں کہ یہ شرائط جمعہ نہیں بلکہ جہاں شرائط جمعہ پائی جائے گی وہاں نماز جمعہ فرض ہے مذکورہ مسجد
جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے پنجوقتہ دائمی نہیں ہوتی اگر جمعہ پہلے سے قائم ہے پھر نماز جمعہ بند نہ کی جائے بلکہ اس میں بھی پنجوقتہ نماز با جماعت ادا کرنے کی کوشش کریں ۔اگر فتنہ نہ ہو تو ظہر کی جماعت بھی کریں کہ دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہے
چونکہ جمعہ کی نماز بدون شرط جمعہ قائم نہیں کی جاسکتی البتہ جہاں جاری ہے وہاں جاری رکھیں گے ۔
جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں
١/ شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔
٢/ ظہر کا وقت ہونا۔
٣/ ظہر کے وقت میں نمازِ جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔
٤/ جماعت یعنی امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مردوں کا ہونا
٥ /۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔
كما في بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع
وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت"(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 259)
فقیہ الہند حضرت العلام حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں لیکن عوام اگر پڑھتے ہو تو منع نہ کریں تو شاید اس طرح اللہ اور رسول کا نام لے ان کے لئے ذریعہ نجات ہوجائے اور جب دیہات میں جمع ہی نہیں بلکہ شہر کے جمعہ فرض کی نقل ہے تو اس کے لیے کوئی علٰحیدہ طریقہ نہیں دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے ظہر کی فرض نماز ساقط نہیں ہوتی لہذا دوسرے ایام کے طرح جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے
واضح رہے کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تو قبل الجمعہ اوربعدالجمعہ کی نیت سے سنتیں پڑھنا بھی صحیح نہیں کہ شریعت کے جانب سے قبل الجمعہ اور اور بعد الجمعہ سنتوں کے مطالبہ کاسوال ہی نہیں پیداہوتا اور جب ظہر کی کی نماز ۔ساقط نہیں ہوتی تو اس کی سنتوں کا پڑھنا لازمی ہے جمعہ کےدن بھی ظہر کی سنتوں کے پڑھنے کا مطالبہ بدستور باقی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دیہات میں قبل الجمعہ اور بعد الجمعہ کی نیت سے سنتیں پڑھنا غلط ہے اور ظہر کی فرض کو پڑھنا اور اسکی سنتوں کا پڑھنا ضروری ہے
(فتاویٰ فیض الرسول ج اول ص ۴٠٦)
یاد رہے کہ اہل علم ظہر کی نماز پڑھیں گے با جماعت یا تنہا پر جمعہ کی نماز بعد ترنت ظہر کی جماعت قائم نہیں کریں گے اگر فتنہ و فساد کا خدشہ ہو ۔
جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور نئی مسجد میں جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جمعہ کے لئے نئی مسجد بنالی اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے،
قیام جمعہ کے جواز کے لئے شریعت نے شرائط مقرر کئے ہیں جیسے نماز کے لئے وضو اب جہاں شرائط پائے جائیں گے مشروط بھی پائے جائیں گے جب شرط مفقود تو مشروط بھی مفقود جونکہ جمعہ ہفتے کی عید یے اور جمعہ شعار اسلام سے ہے اور شرائط جمعہ میں سے ایک شرط شہر یا فناء شہر کا ہونا ہے پھر اس میں جامع مسجد کا ہونا ہے تاکہ مسلمان یفتے میں ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے سے لقا و خیریت دریافت ہوسکے اور قومی و سماجی اور دینی مشورہ کیا جا سکے پھر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے کی صورت میں جمعہ کی جامعیت و مقصودیت فوت نظر آتی ہے،
دوسری اہم وجہ جب شریعت کا حکم ہم تک آجائے پھر ہمیں سمجھ میں ائے یا نہ ائے سر تسلیم خم کر کے قبول کرنا ضروری ہے اور یہی اہل ایمان کا تقاضا ہے ۔
حدیث پاک میں ہے
عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي رضي ﷲ عنه لاجمعة ولاتشریق الا في مصر جامع.۔
’حضرت ابو عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا نماز جمعہ وعیدین جامع مصر (شہر) میں ہی جائز ہے
(عبد الرزاق، المصنف، 3: 167، رقم: 5177، المکتب الاسلامي بیروت)
٢/ عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي لاجمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا أصحی الا في مصر جامع أو مدینة عظیمة.
ابوعبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا نماز جمعہ، نماز عیدین و تشریق صرف جامع مصر میں جائز ہے یا بڑے شہر میں۔
(ابن ابي شیبۃ، 1: 439، رقم: 5059)
فقہاء جامع شہر کے بابت فرماتے ہیں
عن أبي حنیفة أنه بلدة کبیرة فیها سکک وأسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحکمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه في الحوادث وهو الأصح.
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: وہ بڑا شہر جس میں گلیاں بازار اور محلے ہوں اور جہاں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا ظالم سے انصاف کر سکے اپنے رعب، اپنے علم یا دوسروں کے علم سے لوگ اپنے گونا گوں مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ صحیح تر تعریف ہے۔(کاساني، بدائع الصنائع، 1: 260، دار الکتاب العربي بیروت)
کما فی الدر المختار
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے‘‘۔
(الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت)
اسی طرح مرغیناني، الہدایۃ میں ہے
عند أبي یوسف رحمه ﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
امام ابو یوسف رحمہ ﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔
(مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے البتہ جہاں پہلے سے قائم ہے تو اسے روکا نہ جانے کہ عوام الناس جس طرح بھی اللہ کا زکر کرے غنیمت ہے اہل علم دیہات میں ظہر کی نماز بدون جماعت پڑھیں گے ۔اگر ظہر کی نماز باجماعت پڑھنے میں فتنہ و فساد نہ ہو تو ظہر کی جماعت سے نماز پڑھیں گے
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہو سکتا ہے، خواہ وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ
مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے، اس ليے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔
(بہار ح 4 ص 769 مکتبہ المدینہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نئی مسجد میں پنجوقتہ نماز با جماعت ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے پر نماز جمعہ جائز نہیں ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/08/2023
20/08/2023