(سوال نمبر 6079)
جب نماز ہوگئی تو واجب الاعادہ کیوں؟
_________(❤️)_________
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عام نمازی نکھ بند کرکے نماز پڑھتے ہیں تو کیا یہ درست ہے کیا انکھ بند کرکے نمازپڑھ سکتے ہیں؟ ٢/ نماز میں واجب چھوٹ گیا اور سجدہ سہو نہیں کیا تو اسکی نماز ہوئی یانہیں
ایک ادمی کا کہنا ہے نماز ہوگی مگر واجب الاعادہ ہے جب نماز ہوگی تو پھر واجب الاعادہ کیوں؟مدلل حوالہ مع نام کتاب جلد جواب مرحمت فرمائیں
سائل:- مُحَمَّد عالم نوری سیتا مڑھی بہار انڈیا
_________(❤️)_________
جب نماز ہوگئی تو واجب الاعادہ کیوں؟
_________(❤️)_________
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عام نمازی نکھ بند کرکے نماز پڑھتے ہیں تو کیا یہ درست ہے کیا انکھ بند کرکے نمازپڑھ سکتے ہیں؟ ٢/ نماز میں واجب چھوٹ گیا اور سجدہ سہو نہیں کیا تو اسکی نماز ہوئی یانہیں
ایک ادمی کا کہنا ہے نماز ہوگی مگر واجب الاعادہ ہے جب نماز ہوگی تو پھر واجب الاعادہ کیوں؟مدلل حوالہ مع نام کتاب جلد جواب مرحمت فرمائیں
سائل:- مُحَمَّد عالم نوری سیتا مڑھی بہار انڈیا
_________(❤️)_________
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
(1) اگر آنکھ بند کر کے نماز پڑھنے میں خشوع و خضوع ہے تو کوئی بھی آنکھ بند کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے لیکن اگر آنکھیں کھلی رہنے میں خشوع خضوع نہ ہوتا ہو اور توجہ اِدھر اُدھر بٹتی ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں بلکہ بند کرنا ہی بہتر ہے۔
بہار شریعت میں ہے
نماز میں آنکھ بند کرنا مکروہ ہے مگر جب کھلی رہنے میں خشوع نہ ہوتا ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں بلکہ بہتر ہے۔ (بہار شریعت مطبوعہ دعوت اسلامی، ج ۱ ح ۳ص۶۳۴)
(2) بھول کر واجب رہ جانے اور سجدہ سہو بھی بھول کر نہ کرے تو چونکہ فرض نقصان کے ساتھ ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے اور اس ترکِ واجب کے نقصان کے ازالہ کے لیے نماز دہرائی جاتی ہے اس لئے وقت میں اعادہ واجب وقت گزرنے پر مستحب پر گنہگار۔
اب تفصیل ملاحظہ فرمائیں
١/ اگر کسی نے نماز پڑھی اور نماز میں کوئی واجب رہ گیا اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا تو وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ واجب ۔ اور وقت کے گزر جانے پر وجوب اعادہ ساقط
ہاں توبہ و استغفار۔اور اس نماز کا اعادہ کرنا مستحب ہو گا
٢/ اگركوئي فرض نماز ميں ره جائے نماز کا دہرانا ہر حال میں فرض ہے
اور اگر کوئی واجب جان بوجھ كر چھوڑ ديا تو اس كا دهرانا وقت ميں اور وقت کے بعد دونوں صوررتوں واجب هے۔
٣/ اگر فرض نماز کسی فرض کے چھوٹ جانے کی وجہ سے دوبارہ ادا کی جارہی ہو تو اس میں نئے آنے والے نمازیوں کی شرکت درست ہوگی
البتہ اگر پہلی نماز ترکِ واجب کی وجہ سے دوہرائی جارہی ہو تو اس صورت میں چوں کہ فرض نقصان کے ساتھ ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے اور اس ترکِ واجب کے نقصان کے ازالہ کے لیے نماز دہرائی جا رہی ہوتی ہے اس لیے اس نماز میں نئے آنے والے نمازی کی شرکت درست نہیں۔
حاصل کلام فرض رہ جانے کی وجہ سے تو نماز فاسد ہو جائے گی البتہ بھول سے واجب رہ جانے کی صورت میں اگر کوئی آخر میں سجدہ سہو نہ کرے تو نماز فاسد نہ ہوگی لیکن واجب جان بوجھ کر چھوڑ دینے کی صورت میں واجب الاعادہ ہوگی
٤/ كسي بھي صورت ميں اگر سجدہ سہو واجب ہو یا نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہو اور اخر میں سجدہ سہو نہ کرے تو اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب وقت گزرنے کے بعد اس کو لوٹانے کی تاکید کم ہے پھر بھی لوٹا لینا چاہیے تاکہ نماز کسی کمی کوتاہی کے بغیر صحیح ادا ہوجائے
اور اگر کوئی فرض نماز میں رہ جائے تو اعادہ ہر حال میں فرض ہے اور اگر واجب جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ نماز ہی نہیں ہوئی اس کا دہرانا وقت میں یا بعد میں دونوں صورتوں میں واجب ہے۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے
والمختار أن المعادة؛ لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لا يتكرر، كما في الدر وغيره". (١/ ٢٤٨،ط:دار الكتب العلمية بيروت)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے
وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة.(ص: 247،ط:دار الكتب العلمية بيروت)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے
كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب ۔
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فتاوی شامی میں ہے
[تنبيه] يؤخذ من لفظ الإعادة ومن تعريفها بما مر أنه ينوي بالثانية الفرض؛ لأن ما فعل أولاً هو الفرض فإعادته فعله ثانياً؛ أما على القول بأن الفرض يسقط بالثانية فظاهر؛ وأما على القول الآخر فلأن المقصود من تكريرها ثانياً جبر نقصان الأولى، فالأولى فرض ناقص، والثانية فرض كامل مثل الأولى ذاتاً مع زيادة وصف الكمال، ولو كانت الثانية نفلاً لزم أن تجب القراءة في ركعاتها الأربع، وأن لا تشرع الجماعة فيها ولم يذكروه، ولا يلزم من كونها فرضاً عدم سقوط الفرض بالأولى؛ لأن المراد أنها تكون فرضاً بعد الوقوع، أما قبله فالفرض هو الأولى (فتاوی شامی/ 65) ط: سعید
و فیہ ایضا (ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا. رد المحتار ط الحلبي (1/ 456)
و فیہ ایضا فيجوز بناء النفل على النفل وعلى الفرض وإن كره.
(قوله وإن كره) يعني أنه مع صحته مكروه لأن فيه تأخير السلام وعدم كون النفل بتحريمة مبتدأة. (رد المحتار ط: الحلبي (1/ 442)
الجواب بعونه تعالي عزوجل
(1) اگر آنکھ بند کر کے نماز پڑھنے میں خشوع و خضوع ہے تو کوئی بھی آنکھ بند کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے لیکن اگر آنکھیں کھلی رہنے میں خشوع خضوع نہ ہوتا ہو اور توجہ اِدھر اُدھر بٹتی ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں بلکہ بند کرنا ہی بہتر ہے۔
بہار شریعت میں ہے
نماز میں آنکھ بند کرنا مکروہ ہے مگر جب کھلی رہنے میں خشوع نہ ہوتا ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں بلکہ بہتر ہے۔ (بہار شریعت مطبوعہ دعوت اسلامی، ج ۱ ح ۳ص۶۳۴)
(2) بھول کر واجب رہ جانے اور سجدہ سہو بھی بھول کر نہ کرے تو چونکہ فرض نقصان کے ساتھ ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے اور اس ترکِ واجب کے نقصان کے ازالہ کے لیے نماز دہرائی جاتی ہے اس لئے وقت میں اعادہ واجب وقت گزرنے پر مستحب پر گنہگار۔
اب تفصیل ملاحظہ فرمائیں
١/ اگر کسی نے نماز پڑھی اور نماز میں کوئی واجب رہ گیا اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا تو وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ واجب ۔ اور وقت کے گزر جانے پر وجوب اعادہ ساقط
ہاں توبہ و استغفار۔اور اس نماز کا اعادہ کرنا مستحب ہو گا
٢/ اگركوئي فرض نماز ميں ره جائے نماز کا دہرانا ہر حال میں فرض ہے
اور اگر کوئی واجب جان بوجھ كر چھوڑ ديا تو اس كا دهرانا وقت ميں اور وقت کے بعد دونوں صوررتوں واجب هے۔
٣/ اگر فرض نماز کسی فرض کے چھوٹ جانے کی وجہ سے دوبارہ ادا کی جارہی ہو تو اس میں نئے آنے والے نمازیوں کی شرکت درست ہوگی
البتہ اگر پہلی نماز ترکِ واجب کی وجہ سے دوہرائی جارہی ہو تو اس صورت میں چوں کہ فرض نقصان کے ساتھ ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے اور اس ترکِ واجب کے نقصان کے ازالہ کے لیے نماز دہرائی جا رہی ہوتی ہے اس لیے اس نماز میں نئے آنے والے نمازی کی شرکت درست نہیں۔
حاصل کلام فرض رہ جانے کی وجہ سے تو نماز فاسد ہو جائے گی البتہ بھول سے واجب رہ جانے کی صورت میں اگر کوئی آخر میں سجدہ سہو نہ کرے تو نماز فاسد نہ ہوگی لیکن واجب جان بوجھ کر چھوڑ دینے کی صورت میں واجب الاعادہ ہوگی
٤/ كسي بھي صورت ميں اگر سجدہ سہو واجب ہو یا نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہو اور اخر میں سجدہ سہو نہ کرے تو اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب وقت گزرنے کے بعد اس کو لوٹانے کی تاکید کم ہے پھر بھی لوٹا لینا چاہیے تاکہ نماز کسی کمی کوتاہی کے بغیر صحیح ادا ہوجائے
اور اگر کوئی فرض نماز میں رہ جائے تو اعادہ ہر حال میں فرض ہے اور اگر واجب جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ نماز ہی نہیں ہوئی اس کا دہرانا وقت میں یا بعد میں دونوں صورتوں میں واجب ہے۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے
والمختار أن المعادة؛ لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لا يتكرر، كما في الدر وغيره". (١/ ٢٤٨،ط:دار الكتب العلمية بيروت)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے
وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة.(ص: 247،ط:دار الكتب العلمية بيروت)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے
كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب ۔
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فتاوی شامی میں ہے
[تنبيه] يؤخذ من لفظ الإعادة ومن تعريفها بما مر أنه ينوي بالثانية الفرض؛ لأن ما فعل أولاً هو الفرض فإعادته فعله ثانياً؛ أما على القول بأن الفرض يسقط بالثانية فظاهر؛ وأما على القول الآخر فلأن المقصود من تكريرها ثانياً جبر نقصان الأولى، فالأولى فرض ناقص، والثانية فرض كامل مثل الأولى ذاتاً مع زيادة وصف الكمال، ولو كانت الثانية نفلاً لزم أن تجب القراءة في ركعاتها الأربع، وأن لا تشرع الجماعة فيها ولم يذكروه، ولا يلزم من كونها فرضاً عدم سقوط الفرض بالأولى؛ لأن المراد أنها تكون فرضاً بعد الوقوع، أما قبله فالفرض هو الأولى (فتاوی شامی/ 65) ط: سعید
و فیہ ایضا (ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا. رد المحتار ط الحلبي (1/ 456)
و فیہ ایضا فيجوز بناء النفل على النفل وعلى الفرض وإن كره.
(قوله وإن كره) يعني أنه مع صحته مكروه لأن فيه تأخير السلام وعدم كون النفل بتحريمة مبتدأة. (رد المحتار ط: الحلبي (1/ 442)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
05/08/2023