(سوال نمبر 294)
انسان کا پیشاب کیا ہے نجاست غلیظہ یا خفیہ ؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی سب سے افضل ہے مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا پیشاب نجاست غلیظ ہے جبکہ انسان اچھی اچھی غذائیں کھاتا ہے اور بکری جو ایک جانور ہے اور ادھر ادھر گھومتی پھرتی ہے اور گھاس وغیرہ کھاتی ہے تو اس کا پیشاب نجاست خفیفہ ہے ۔
جب کہ انسان بکری سے افضل ہے اسکی وجہ کیا ہے جواب عنایت فرمائیں بھت مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد شاہد رضا خان بھنگاشراوستی یوپی انڈیا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی سب سے افضل ہے مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا پیشاب نجاست غلیظ ہے جبکہ انسان اچھی اچھی غذائیں کھاتا ہے اور بکری جو ایک جانور ہے اور ادھر ادھر گھومتی پھرتی ہے اور گھاس وغیرہ کھاتی ہے تو اس کا پیشاب نجاست خفیفہ ہے ۔
جب کہ انسان بکری سے افضل ہے اسکی وجہ کیا ہے جواب عنایت فرمائیں بھت مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد شاہد رضا خان بھنگاشراوستی یوپی انڈیا
_________(❤️)_________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعونه تعالى عز وجل
شریعت میں عقل کی کوئی دخل نہیں ہے ایک مسلمان کے لئے اتنا کافی ہے کہ قرآن و سنت نے فلاں اشیاء کو حلال قرار دیا ہے اور فلاں کو حرام ۔
ہمارے عقل میں ائے یا نہ ائے ۔
اور اسی کا نام ایمان ہے
انسان کے فضلہ کے ناپاک ہونے کی صراحت قرآن و سنت میں موجود ہے کوئی نص اس کے ناپاکی کے خلاف موجود نہیں ہے یعنی اس کے ناپاک ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے تمام دلائل سے اس کا ناپاک ہونا ہی ثابت ہے اس لئے آدمی کا فضلہ کا حکم سخت ہے ۔
اور بکری کی نجاست کہ اس کا نجس ہونا یقینی نہیں ہے کسی دلیل سے اس کے ناپاک ہونے اور کسی دلیل سے پاک ہونے کا شبہ ہے اسی لئے اس کا حکم خفیف ہے ۔
جیسا کہ ایک خاص قوم کے لئے بخاری اور مسلم کی حدیث میں اونٹ کا پیشاب پینے کے بابت ذکر ملتا ہے
امام ِاعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وبرکاتہ کے نزدیک نجاستِ غلیظہ ہر ایسی نجاست کو کہتے ہیں جس پر دلائل متفق ہوں ۔صاحبین رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک نجاستِ غلیظہ ہر ایسی نجاست کو کہتے ہیں جس کی نجاست پر علماء ِکرام کا اتفاق ہواور اس میں عموم بلویٰ نہ ہو۔ اور نجاست خفیفہ اس کے برعکس ہے
أَنَّ الْمُغَلَّظَ مِنْ النَّجَاسَةِ عِنْدَ الْإِمَامِ مَا وَرَدَ فِيهِ نَصٌّ لَمْ يُعَارَضْ بِنَصٍّ آخَرَ، فَإِنْ عُورِضَ بِنَصٍّ آخَرَ فَمُخَفَّفٌ كَبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، فَإِنَّ حَدِيثَ «اسْتَنْزِهُوا الْبَوْلَ» يَدُلُّ عَلَى نَجَاسَتِهِ وَحَدِيثَ الْعُرَنِيِّينَ يَدُلُّ عَلَى طَهَارَتِهِ. وَعِنْدَهُمَا مَا اخْتَلَفَ الْأَئِمَّةُ فِي نَجَاسَتِهِ فَهُوَ مُخَفَّفٌ، فَالرَّوْثُ مُغَلَّظٌ عِنْدَهُ؛ لِأَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – سَمَّاهُ رِكْسًا وَلَمْ يُعَارِضْهُ نَصٌّ آخَرُ. وَعِنْدَهُمَا مُخَفَّفٌ، لِقَوْلِ مَالِكٍ بِطَهَارَتِهِ لِعُمُومِ الْبَلْوَى۔شامی 1/318،باب الانجاس،ط:سعید کراچی
وَذَكَرَ الْكَرْخِيُّ أَنَّ النَّجَاسَةَ الْغَلِيظَةَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ: مَا وَرَدَ نَصٌّ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَلَمْ يَرِدْ نَصٌّ عَلَى طَهَارَتِهِ، مُعَارِضًا لَهُ وَإِنْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيهِ وَالْخَفِيفَةُ مَا تَعَارَضَ نَصَّانِ فِي طَهَارَتِهِ وَنَجَاسَتِهِ، وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ الْغَلِيظَةُ: مَا وَقَعَ الِاتِّفَاقُ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَالْخَفِيفَةُ: مَا اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي نَجَاسَتِهِ وَطَهَارَتِهِ۔ (بدائع 1/80 فصل فی الانجاس،ط:سعید کراچی)
أَنَّ كُلَّ مَا يَخْرُجُ مِنْ بَدَنِ الْإِنْسَانِ مِمَّا يُوجِبُ خُرُوجُهُ الْوُضُوءَ أَوْ الْغُسْلَ فَهُوَ مُغَلَّظٌ كَالْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَالْمَنِيِّ وَالْمَذْيِ وَالْوَدْيِ وَالْقَيْحِ وَالصَّدِيدِ وَالْقَيْءِ إذَا مَلَأَ الْفَمَ، أَمَّا مَا دُونَهُ فَطَاهِرٌ عَلَى الصَّحِيحِ وَقَيَّدَ بِالْخَمْرِ؛ لِأَنَّ بَقِيَّةَ الْأَشْرِبَةِ الْمُحَرَّمَةِ كَالطِّلَاءِ وَالسُّكَّرِ وَنَقِيعِ الزَّبِيبِ فِيهَا ثَلَاثَةُ رِوَايَاتٍ فِي رِوَايَةٍ مُغَلَّظَةٌ وَفِي أُخْرَى مُخَفَّفَةٌ وَفِي أُخْرَى طَاهِرَةٌ ذَكَرَهَا فِي الْبَدَائِعِ بِخِلَافِ الْخَمْرِ فَإِنَّهُ مُغَلَّظٌ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ؛ لِأَنَّ حُرْمَتَهَا قَطْعِيَّةٌ وَحُرْمَةُ غَيْرِ الْخَمْرِ لَيْسَتْ قَطْعِيَّةً،كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
وَكَذَا دَمُ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ وَالِاسْتِحَاضَةِ هَكَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ وَكَذَلِكَ بَوْلُ الصَّغِيرِ وَالصَّغِيرَةِ أَكَلَا أَوْ لَا. كَذَا فِي الِاخْتِيَارِ شَرْحِ الْمُخْتَارِ وَكَذَلِكَ الْخَمْرُ وَالدَّمُ الْمَسْفُوحُ وَلَحْمُ الْمَيْتَةِ وَبَوْلُ مَا لَا يُؤْكَلُ وَالرَّوْثُ وَأَخْثَاءُ الْبَقَرِ وَالْعَذِرَةِ وَنَجْوُ الْكَلْبِ وَخُرْءُ الدَّجَاجِ وَالْبَطِّ وَالْإِوَزِّ نَجِسٌ نَجَاسَةً غَلِيظَةً هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 223/4257)
والله ورسوله اعلم بالصواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعونه تعالى عز وجل
شریعت میں عقل کی کوئی دخل نہیں ہے ایک مسلمان کے لئے اتنا کافی ہے کہ قرآن و سنت نے فلاں اشیاء کو حلال قرار دیا ہے اور فلاں کو حرام ۔
ہمارے عقل میں ائے یا نہ ائے ۔
اور اسی کا نام ایمان ہے
انسان کے فضلہ کے ناپاک ہونے کی صراحت قرآن و سنت میں موجود ہے کوئی نص اس کے ناپاکی کے خلاف موجود نہیں ہے یعنی اس کے ناپاک ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے تمام دلائل سے اس کا ناپاک ہونا ہی ثابت ہے اس لئے آدمی کا فضلہ کا حکم سخت ہے ۔
اور بکری کی نجاست کہ اس کا نجس ہونا یقینی نہیں ہے کسی دلیل سے اس کے ناپاک ہونے اور کسی دلیل سے پاک ہونے کا شبہ ہے اسی لئے اس کا حکم خفیف ہے ۔
جیسا کہ ایک خاص قوم کے لئے بخاری اور مسلم کی حدیث میں اونٹ کا پیشاب پینے کے بابت ذکر ملتا ہے
امام ِاعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وبرکاتہ کے نزدیک نجاستِ غلیظہ ہر ایسی نجاست کو کہتے ہیں جس پر دلائل متفق ہوں ۔صاحبین رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک نجاستِ غلیظہ ہر ایسی نجاست کو کہتے ہیں جس کی نجاست پر علماء ِکرام کا اتفاق ہواور اس میں عموم بلویٰ نہ ہو۔ اور نجاست خفیفہ اس کے برعکس ہے
أَنَّ الْمُغَلَّظَ مِنْ النَّجَاسَةِ عِنْدَ الْإِمَامِ مَا وَرَدَ فِيهِ نَصٌّ لَمْ يُعَارَضْ بِنَصٍّ آخَرَ، فَإِنْ عُورِضَ بِنَصٍّ آخَرَ فَمُخَفَّفٌ كَبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، فَإِنَّ حَدِيثَ «اسْتَنْزِهُوا الْبَوْلَ» يَدُلُّ عَلَى نَجَاسَتِهِ وَحَدِيثَ الْعُرَنِيِّينَ يَدُلُّ عَلَى طَهَارَتِهِ. وَعِنْدَهُمَا مَا اخْتَلَفَ الْأَئِمَّةُ فِي نَجَاسَتِهِ فَهُوَ مُخَفَّفٌ، فَالرَّوْثُ مُغَلَّظٌ عِنْدَهُ؛ لِأَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – سَمَّاهُ رِكْسًا وَلَمْ يُعَارِضْهُ نَصٌّ آخَرُ. وَعِنْدَهُمَا مُخَفَّفٌ، لِقَوْلِ مَالِكٍ بِطَهَارَتِهِ لِعُمُومِ الْبَلْوَى۔شامی 1/318،باب الانجاس،ط:سعید کراچی
وَذَكَرَ الْكَرْخِيُّ أَنَّ النَّجَاسَةَ الْغَلِيظَةَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ: مَا وَرَدَ نَصٌّ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَلَمْ يَرِدْ نَصٌّ عَلَى طَهَارَتِهِ، مُعَارِضًا لَهُ وَإِنْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيهِ وَالْخَفِيفَةُ مَا تَعَارَضَ نَصَّانِ فِي طَهَارَتِهِ وَنَجَاسَتِهِ، وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ الْغَلِيظَةُ: مَا وَقَعَ الِاتِّفَاقُ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَالْخَفِيفَةُ: مَا اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي نَجَاسَتِهِ وَطَهَارَتِهِ۔ (بدائع 1/80 فصل فی الانجاس،ط:سعید کراچی)
أَنَّ كُلَّ مَا يَخْرُجُ مِنْ بَدَنِ الْإِنْسَانِ مِمَّا يُوجِبُ خُرُوجُهُ الْوُضُوءَ أَوْ الْغُسْلَ فَهُوَ مُغَلَّظٌ كَالْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَالْمَنِيِّ وَالْمَذْيِ وَالْوَدْيِ وَالْقَيْحِ وَالصَّدِيدِ وَالْقَيْءِ إذَا مَلَأَ الْفَمَ، أَمَّا مَا دُونَهُ فَطَاهِرٌ عَلَى الصَّحِيحِ وَقَيَّدَ بِالْخَمْرِ؛ لِأَنَّ بَقِيَّةَ الْأَشْرِبَةِ الْمُحَرَّمَةِ كَالطِّلَاءِ وَالسُّكَّرِ وَنَقِيعِ الزَّبِيبِ فِيهَا ثَلَاثَةُ رِوَايَاتٍ فِي رِوَايَةٍ مُغَلَّظَةٌ وَفِي أُخْرَى مُخَفَّفَةٌ وَفِي أُخْرَى طَاهِرَةٌ ذَكَرَهَا فِي الْبَدَائِعِ بِخِلَافِ الْخَمْرِ فَإِنَّهُ مُغَلَّظٌ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ؛ لِأَنَّ حُرْمَتَهَا قَطْعِيَّةٌ وَحُرْمَةُ غَيْرِ الْخَمْرِ لَيْسَتْ قَطْعِيَّةً،كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
وَكَذَا دَمُ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ وَالِاسْتِحَاضَةِ هَكَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ وَكَذَلِكَ بَوْلُ الصَّغِيرِ وَالصَّغِيرَةِ أَكَلَا أَوْ لَا. كَذَا فِي الِاخْتِيَارِ شَرْحِ الْمُخْتَارِ وَكَذَلِكَ الْخَمْرُ وَالدَّمُ الْمَسْفُوحُ وَلَحْمُ الْمَيْتَةِ وَبَوْلُ مَا لَا يُؤْكَلُ وَالرَّوْثُ وَأَخْثَاءُ الْبَقَرِ وَالْعَذِرَةِ وَنَجْوُ الْكَلْبِ وَخُرْءُ الدَّجَاجِ وَالْبَطِّ وَالْإِوَزِّ نَجِسٌ نَجَاسَةً غَلِيظَةً هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 223/4257)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
11/1/2021