(سوال نمبر 6048)
آئی پی ایل میچ کھیلنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے کہ
آئی پی ایل میچ کھیلنا صحیح ہے یا نہیں یا اس کی تیاری کرنا کیسا ؟
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل:-محمد اختر رضا مقام بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مروجہ کرکٹ کھیلنا دیکھنا جائز نہیں ہے اس میں کیا کچھ ہوتا ہے کسی پتا نہیں ہے البتہ بدون شرط اپنے طور پر ورزش کے کھیلا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ورنہ نہیں۔
کرکٹ جس کا جنون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ نوجوانوں کی غالب اکثریت اپنی زندگی کے قیمتی اوقات اور اصل سرمایہ اسی میں ضائع کرتی جارہی ہے انہیں سود وزیاں کا کوئی احساس نہیں نفع ونقصان کا کوئی شعور نہیں روشن مستقبل کے لیے کوئی تیاری نہیں کچھ افراد ریڈیو پر کمنٹری سننے میں مصروف ہیں کچھ اپنے موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس جاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بعض تو ٹی وی پر لائیو کرکٹ میچ دیکھنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بے شمار مُنکَرات و مفاسد اور برائیوں پر مشتمل ہے (۱) نیم عُریاں عورتوں کا اسکرین پر دکھائی دینا۔ (۲) اُس میں مشغولیت کی وجہ سے نماز باجماعت کا فوت یا قضا ہوجانا۔ (۳) ملازمین کے فرائض وواجبات میں کوتاہی وخلل کا واقع ہونا۔ (۴) مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں طلبا کی تعلیم کا متأثر ہونا۔ (۵) نیز مدارس و مساجد جو پڑھنے لکھنے اور عبادت کی جگہیں ہیں، اُن میں اِسی عنوان پر گُفت وشُنید، بحث ومُباحَثہ اور تذکِرہ وتبصِرہ کا ہونا وغیرہ یہ سب ناجائز اُمور ہیں اور ہر ایسا کھیل کھیلنا و دیکھنا، جو انسان کو اُس پر واجب حقوق خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد سے غافل کردے یا منکرات ومنہیاتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں، ناجائز وحرام ہے۔
شریعت میں صرف تین کھیل کے علاوہ تمام کھیل کو جسے صرف بطور کھیل کھیلا یا دیکھا جائے ناجائز و حرام ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
قال رسول الله صلى الله علیه الصلوٰۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثة ملاعبتة باھله وتادیبه لفرسه و مناضلته بقوسه اھ ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا : مسلمان کے لئے ہرکھیل حرام ہے سوائے تین کے (یعنی مسلمان کے لئے سوائے تین کے باقی ہر کھیل حرام اور ممنوع ہے اور جو تین کھیل مباح ہیں وہ یہ ہیں خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا دل لگی کرنا، اپنے گھوڑے سے کھیلنا اس کی تربیت اور سکھلائی کرنا اور اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اھ ۔
فتاوی بحر العلوم میں ہے
کھیل کی غرض سے جو افعال کیے جائیں شریعت میں حرام و ناجائز ہیں، بالخصوص آج کل کا کرکٹ کا کھیل جو بے شمار برائیوں کا ذریعہ ہے، اس کھیل کے عادیوں کے پیچھے نماز ضرور مکروہ ہے، چاہے کھیلنے والے ہوں یا دیکھنے والے ہوں (فتاویٰ بحر العلوم ،ج 5، ص 579)
کیوں کہ آج کچھ پڑھا لکھا جاہل مولوی ایسے کھیل کے عادی ہیں کچھ دیکھنے میں اور کچھ کھیلنے میں لہذا اُن کے پیچھے نماز ناجائز و مکروہ ۔
ہاں! کشتی کھیلنے کے متعلق اہل شرع فرماتے ہیں کہ اگر صرف کھیل کود کی غرض سے نہ کھیلے بلکہ اس نیت سے کہ اس کے ذریعے طاقت و قوت میں اضافہ ہو اور مخالفین اسلام سے مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو تو جائز ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
حدیث میں باہم کشتی کرنے کی اجازت موجود ہے یعنی جنگ و جہاد کے لئے قوت حاصل کرنے کے لیے نہ کہ کھیل کود کے لیے کیونکہ محض کھیل کود تو مکروہ ہے۔ نیز اسی کے آگے در مختار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں
درمختار میں ہے
کہ باہم کشتی کرنا بدعت نہیں مگر یہ کہ محض کھیل کود کے لئے نہ ہو (فتاویٰ رضویہ: ج 23،ص 279 ملخصاً)
کرکٹ کھیلنا، کھلانا، میدان یا ٹی وی پر دیکھنا دکھانا، نیز ریڈیو پر اس کی کمنٹری سننا سنانا، اسی طرح موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس منگوانا، اور اس پر بحث ومباحثہ کرنا، یہ سب معصیت اور گناہ ہے اور شرعاً ناجائز و حرام لہذا بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غورکریں کہ اسلام میں کھیل کی حیثیت کیا ہے، اس کے جواز کے کیا اصول ہیں، کس قسم کا کھیل اسلام میں جائز ہے اور کون کون سے کھیل ناجائز ہیں ؟
مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد وقار الدین علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیاکہ کرکٹ کھیلنا اور دیکھنا کیسا ہے ـ؟ تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: '' حدیث مبارکہ میں ہے: کل ما یلھو بہ المرء السملم باطل إلا رمیہ بقوسہ و تأدیبہ فرسہ وملاعبتہ امرأتہ فإنھن من الحق. یعنی ہر وہ شے جس سے کوئی مسلمان غفلت میں پڑجائے باطل ہے مگر کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سکھانا، اور اپنی بیوی سے ملاعبت ( کھیل کود) کرنا یہ تین کام حق ہیں۔ ''( سنن ابن ماجہ، ص202 مطبوعہ :کراچی)
حدیث میں واضح طور پر بتادیاکہ مؤمن کی زندگی لہو و لعب کیلئے نہیں ہے۔ لہٰذا تندرستی کیلئے ٹہلنا یا ورزش کے لئے تھوڑا کھیلنا تو جائز ہے مگر کرکٹ وغیرہ کھیل جس طرح کھیلے جاتے ہیں اس میں کوئی مقصدِ صحیح نہیں بلکہ قوم اور ملک کا بہت بڑا نقصان ہے اس میں قوم کے مال کی بربادی اور وقت کو ضائع کرنا ہے اور دین کے نقصان کا تو عالم یہ ہے کہ ہزاروں آدمی بیٹھے دن بھر کھیل دیکھتے رہتے ہیں نہ نماز کی پرواہ نہ اپنا وقت ضائع ہونے کی پرواہ بہر صورت یہ کھیل کھیلنا ناجائز و حرام ہے اور ان کو دیکھنے اور سننے میں وقت ضائع کرنا بھی ناجائز ہے۔(ملخصاً از وقار الفتاوی، ج3 ،ص436۔437، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
آئی پی ایل میچ کھیلنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے کہ
آئی پی ایل میچ کھیلنا صحیح ہے یا نہیں یا اس کی تیاری کرنا کیسا ؟
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل:-محمد اختر رضا مقام بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مروجہ کرکٹ کھیلنا دیکھنا جائز نہیں ہے اس میں کیا کچھ ہوتا ہے کسی پتا نہیں ہے البتہ بدون شرط اپنے طور پر ورزش کے کھیلا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ورنہ نہیں۔
کرکٹ جس کا جنون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ نوجوانوں کی غالب اکثریت اپنی زندگی کے قیمتی اوقات اور اصل سرمایہ اسی میں ضائع کرتی جارہی ہے انہیں سود وزیاں کا کوئی احساس نہیں نفع ونقصان کا کوئی شعور نہیں روشن مستقبل کے لیے کوئی تیاری نہیں کچھ افراد ریڈیو پر کمنٹری سننے میں مصروف ہیں کچھ اپنے موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس جاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بعض تو ٹی وی پر لائیو کرکٹ میچ دیکھنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بے شمار مُنکَرات و مفاسد اور برائیوں پر مشتمل ہے (۱) نیم عُریاں عورتوں کا اسکرین پر دکھائی دینا۔ (۲) اُس میں مشغولیت کی وجہ سے نماز باجماعت کا فوت یا قضا ہوجانا۔ (۳) ملازمین کے فرائض وواجبات میں کوتاہی وخلل کا واقع ہونا۔ (۴) مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں طلبا کی تعلیم کا متأثر ہونا۔ (۵) نیز مدارس و مساجد جو پڑھنے لکھنے اور عبادت کی جگہیں ہیں، اُن میں اِسی عنوان پر گُفت وشُنید، بحث ومُباحَثہ اور تذکِرہ وتبصِرہ کا ہونا وغیرہ یہ سب ناجائز اُمور ہیں اور ہر ایسا کھیل کھیلنا و دیکھنا، جو انسان کو اُس پر واجب حقوق خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد سے غافل کردے یا منکرات ومنہیاتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں، ناجائز وحرام ہے۔
شریعت میں صرف تین کھیل کے علاوہ تمام کھیل کو جسے صرف بطور کھیل کھیلا یا دیکھا جائے ناجائز و حرام ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
قال رسول الله صلى الله علیه الصلوٰۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثة ملاعبتة باھله وتادیبه لفرسه و مناضلته بقوسه اھ ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا : مسلمان کے لئے ہرکھیل حرام ہے سوائے تین کے (یعنی مسلمان کے لئے سوائے تین کے باقی ہر کھیل حرام اور ممنوع ہے اور جو تین کھیل مباح ہیں وہ یہ ہیں خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا دل لگی کرنا، اپنے گھوڑے سے کھیلنا اس کی تربیت اور سکھلائی کرنا اور اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اھ ۔
فتاوی بحر العلوم میں ہے
کھیل کی غرض سے جو افعال کیے جائیں شریعت میں حرام و ناجائز ہیں، بالخصوص آج کل کا کرکٹ کا کھیل جو بے شمار برائیوں کا ذریعہ ہے، اس کھیل کے عادیوں کے پیچھے نماز ضرور مکروہ ہے، چاہے کھیلنے والے ہوں یا دیکھنے والے ہوں (فتاویٰ بحر العلوم ،ج 5، ص 579)
کیوں کہ آج کچھ پڑھا لکھا جاہل مولوی ایسے کھیل کے عادی ہیں کچھ دیکھنے میں اور کچھ کھیلنے میں لہذا اُن کے پیچھے نماز ناجائز و مکروہ ۔
ہاں! کشتی کھیلنے کے متعلق اہل شرع فرماتے ہیں کہ اگر صرف کھیل کود کی غرض سے نہ کھیلے بلکہ اس نیت سے کہ اس کے ذریعے طاقت و قوت میں اضافہ ہو اور مخالفین اسلام سے مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو تو جائز ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
حدیث میں باہم کشتی کرنے کی اجازت موجود ہے یعنی جنگ و جہاد کے لئے قوت حاصل کرنے کے لیے نہ کہ کھیل کود کے لیے کیونکہ محض کھیل کود تو مکروہ ہے۔ نیز اسی کے آگے در مختار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں
درمختار میں ہے
کہ باہم کشتی کرنا بدعت نہیں مگر یہ کہ محض کھیل کود کے لئے نہ ہو (فتاویٰ رضویہ: ج 23،ص 279 ملخصاً)
کرکٹ کھیلنا، کھلانا، میدان یا ٹی وی پر دیکھنا دکھانا، نیز ریڈیو پر اس کی کمنٹری سننا سنانا، اسی طرح موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس منگوانا، اور اس پر بحث ومباحثہ کرنا، یہ سب معصیت اور گناہ ہے اور شرعاً ناجائز و حرام لہذا بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غورکریں کہ اسلام میں کھیل کی حیثیت کیا ہے، اس کے جواز کے کیا اصول ہیں، کس قسم کا کھیل اسلام میں جائز ہے اور کون کون سے کھیل ناجائز ہیں ؟
مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد وقار الدین علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیاکہ کرکٹ کھیلنا اور دیکھنا کیسا ہے ـ؟ تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: '' حدیث مبارکہ میں ہے: کل ما یلھو بہ المرء السملم باطل إلا رمیہ بقوسہ و تأدیبہ فرسہ وملاعبتہ امرأتہ فإنھن من الحق. یعنی ہر وہ شے جس سے کوئی مسلمان غفلت میں پڑجائے باطل ہے مگر کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سکھانا، اور اپنی بیوی سے ملاعبت ( کھیل کود) کرنا یہ تین کام حق ہیں۔ ''( سنن ابن ماجہ، ص202 مطبوعہ :کراچی)
حدیث میں واضح طور پر بتادیاکہ مؤمن کی زندگی لہو و لعب کیلئے نہیں ہے۔ لہٰذا تندرستی کیلئے ٹہلنا یا ورزش کے لئے تھوڑا کھیلنا تو جائز ہے مگر کرکٹ وغیرہ کھیل جس طرح کھیلے جاتے ہیں اس میں کوئی مقصدِ صحیح نہیں بلکہ قوم اور ملک کا بہت بڑا نقصان ہے اس میں قوم کے مال کی بربادی اور وقت کو ضائع کرنا ہے اور دین کے نقصان کا تو عالم یہ ہے کہ ہزاروں آدمی بیٹھے دن بھر کھیل دیکھتے رہتے ہیں نہ نماز کی پرواہ نہ اپنا وقت ضائع ہونے کی پرواہ بہر صورت یہ کھیل کھیلنا ناجائز و حرام ہے اور ان کو دیکھنے اور سننے میں وقت ضائع کرنا بھی ناجائز ہے۔(ملخصاً از وقار الفتاوی، ج3 ،ص436۔437، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال31/07/2023