(سوال نمبر 4136)
حج فرض ہونے کے بعد بھی عمرہ کرے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام کہ اگر جس کے اوپر حج فرض ہے حج چھوڑ کر وہ عمرہ کے لیے جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے عمرہ کرنا صحیح ہے؟
سائل:- نیاز احمد انصاری بنارس انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام و رحمتہ الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جن پر حج فرض ہے ضروری ہے کہ وہ حج ادا کرے اب چونکہ شرع نے حج فرض ہونے پر کوئی وقت متعین نہیں کیا ہے بلکہ زندگی میں کبھی بھی کر سکتا ہے اس لئے عمرہ کرنے سے عمرہ تو ادا ہوجائے گا پر بلا وجہ تاخیر کرنے نہ کریں جتنی جلد ہو حج کرے بلاوجہ تاخیر گناہ ہے
حضرت ابن عباس ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حج یعنی فرض حج کی ادائیگی میں جلدی کرو، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے (مسنداحمد)
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے پس تم حج کرو ۔ ایک آدمی نے کہا: کیا ہر سال اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ آپ ﷺ خاموش ہو گئے، حتیٰ کہ اس نے یہ کلمہ تین بار کہا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے (مسلم کتاب الحج،باب فرض الحج مرۃ فی العمر)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صاحب استطاعت پر عمر میں ایک بار حج فرض ہے جس آدمی کے پاس سامان سفر اور سواری کا انتظام موجود ہو اس پر حج فرض ہے اور جو آدمی طاقت کے باوجود حج نہ کرے، وہ ایک فرض کا تارک ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے جو شخص صاحب حیثیت ہوتے ہوئے حج فرض ادا نہ کرے اور اس کا کوئی عذر بھی نہ ہو اب اس کی مرضی چاہے یہودی ہو کر مرے چاہے نصرانی ہوکر۔ (مشکوٰۃ المصابیح، بحوالہ سنن دارمی ص؛222)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں (جامع ترمذی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
حج فرض ہونے کے بعد بھی عمرہ کرے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام کہ اگر جس کے اوپر حج فرض ہے حج چھوڑ کر وہ عمرہ کے لیے جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے عمرہ کرنا صحیح ہے؟
سائل:- نیاز احمد انصاری بنارس انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام و رحمتہ الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جن پر حج فرض ہے ضروری ہے کہ وہ حج ادا کرے اب چونکہ شرع نے حج فرض ہونے پر کوئی وقت متعین نہیں کیا ہے بلکہ زندگی میں کبھی بھی کر سکتا ہے اس لئے عمرہ کرنے سے عمرہ تو ادا ہوجائے گا پر بلا وجہ تاخیر کرنے نہ کریں جتنی جلد ہو حج کرے بلاوجہ تاخیر گناہ ہے
حضرت ابن عباس ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حج یعنی فرض حج کی ادائیگی میں جلدی کرو، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے (مسنداحمد)
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے پس تم حج کرو ۔ ایک آدمی نے کہا: کیا ہر سال اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ آپ ﷺ خاموش ہو گئے، حتیٰ کہ اس نے یہ کلمہ تین بار کہا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے (مسلم کتاب الحج،باب فرض الحج مرۃ فی العمر)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صاحب استطاعت پر عمر میں ایک بار حج فرض ہے جس آدمی کے پاس سامان سفر اور سواری کا انتظام موجود ہو اس پر حج فرض ہے اور جو آدمی طاقت کے باوجود حج نہ کرے، وہ ایک فرض کا تارک ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے جو شخص صاحب حیثیت ہوتے ہوئے حج فرض ادا نہ کرے اور اس کا کوئی عذر بھی نہ ہو اب اس کی مرضی چاہے یہودی ہو کر مرے چاہے نصرانی ہوکر۔ (مشکوٰۃ المصابیح، بحوالہ سنن دارمی ص؛222)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں (جامع ترمذی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
22/98/2023
22/98/2023