سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب حاصل ہے یا نہیں؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں
کہ اللہ تبارک و تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار فضائل و مناقب عطا فرمائے، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں۔ دلائل شرعیہ کی روشنی میں تحریر فرمائیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب ہے یا نہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنے کے سلسلہ میں اہل سنت کا کیا خیال ہے نیز علم غیب ذاتی ہے یا عطائی ؟
المستفتی:- محمد نیر القمر اشرفی، پوکھریرا شریف ،سیتا مڑھی بہار ۔
_________(❤️)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللهم هداية الحق والصواب :-
الجواب اللهم هداية الحق والصواب :-
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نبی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَعَلَّمَكَ مَالَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيها (سوره النساء، آیت: ۱۳)
ترجمہ:- اے محبوب اللہ تعالی نے آپ کو وہ تمام چیزیں سکھا دی جو آپ نہیں جانتے تھے اور یہ آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر صاحب جلالین کرتے ہیں:
وعلمك ما لم تكن تعلم من الاحكام والغيب۔(ص٨٧)
ترجمہ:- اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو تمام باتیں یعنی احکام و غیوب سکھا دیں جو آپ نہیں جانتے تھے۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْ تَضی مِنْ رَّسُولٍ (سوره : الجن: ۲۷۳۶)
ترجمہ:- اے محبوب اللہ تعالی نے آپ کو وہ تمام چیزیں سکھا دی جو آپ نہیں جانتے تھے اور یہ آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر صاحب جلالین کرتے ہیں:
وعلمك ما لم تكن تعلم من الاحكام والغيب۔(ص٨٧)
ترجمہ:- اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو تمام باتیں یعنی احکام و غیوب سکھا دیں جو آپ نہیں جانتے تھے۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْ تَضی مِنْ رَّسُولٍ (سوره : الجن: ۲۷۳۶)
ترجمہ:- عالم الغیب اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا مگر جس رسول کو چن لیتا ہے (اسے آگاہ کر دیتا ہے)۔
اسی آیت کریمہ کی تفسیر صاحب جلالین یوں کرتے ہیں:
عالم الغيب ما غابا به عن العباد فلا يظهر يطلع على غيبه أحداً من الناس الا من ارتضى من
رسول فإنه مع اطلاع عه على ما شاء منه اى من الغيب معجزة له (ج: اص: ۱۹۷)
ترجمہ: اللہ تعالٰی عالم الغیب ہے تو اپنے رسولوں میں سے جسے چن لیتا ہے اسے جتنے غیب پر چاہتا ہے بطورمعجزہ مطلع فرماتا ہے۔
اسی آیت کریمہ کی تفسیر صاحب جلالین یوں کرتے ہیں:
عالم الغيب ما غابا به عن العباد فلا يظهر يطلع على غيبه أحداً من الناس الا من ارتضى من
رسول فإنه مع اطلاع عه على ما شاء منه اى من الغيب معجزة له (ج: اص: ۱۹۷)
ترجمہ: اللہ تعالٰی عالم الغیب ہے تو اپنے رسولوں میں سے جسے چن لیتا ہے اسے جتنے غیب پر چاہتا ہے بطورمعجزہ مطلع فرماتا ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
" عن ابي هريرة أن رسول الله ﷺ نعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه (جلالین شریف، ص: ۴۷۷)
ترجمہ : حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن نجاشی کا انتقال ہوا اسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی خبر دی۔
بخاری شریف ہی میں ہے:
" عن أنس ابن مالك قال صلى لنا النبي صلى الله عليه وسلم صلوة ثم رقى المنبر فقال في الصلوة وفي الركوع إلى لا رأكم من وراء كما ارأكم (ج:۱، ص: ۵۹)
ترجمہ: حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف لے گئے ، نماز اور رکوع کے متعلق فرمایا کہ تمہیں پس پشت سے ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسے آگے سے دیکھتا ہوں۔
لہذا مذکورہ آیات مقدسہ اور احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نبی ہیں، لفظ عالم الغیب کا اطلاق اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ خاص ہے کسی دوسرے کو عالم الغیب نہیں کہنا چاہیے اور یہی اہل سنیت کا طریقہ ہے ، سرکار ﷺ کو علم غیب عطائی ہے ذاتی نہیں اور جس کا یہ عقیدہ ہو کہ علم غیب عطائی نہیں بلکہ ذاتی ہے تو وہ کافر خارج از اسلام ہے۔
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَابِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (سورۂ: انعام،آیت،٥٠)
" عن أنس ابن مالك قال صلى لنا النبي صلى الله عليه وسلم صلوة ثم رقى المنبر فقال في الصلوة وفي الركوع إلى لا رأكم من وراء كما ارأكم (ج:۱، ص: ۵۹)
ترجمہ: حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف لے گئے ، نماز اور رکوع کے متعلق فرمایا کہ تمہیں پس پشت سے ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسے آگے سے دیکھتا ہوں۔
لہذا مذکورہ آیات مقدسہ اور احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نبی ہیں، لفظ عالم الغیب کا اطلاق اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ خاص ہے کسی دوسرے کو عالم الغیب نہیں کہنا چاہیے اور یہی اہل سنیت کا طریقہ ہے ، سرکار ﷺ کو علم غیب عطائی ہے ذاتی نہیں اور جس کا یہ عقیدہ ہو کہ علم غیب عطائی نہیں بلکہ ذاتی ہے تو وہ کافر خارج از اسلام ہے۔
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَابِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (سورۂ: انعام،آیت،٥٠)
ترجمہ: اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے محبوب آپ فرما دیجئے کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ غیب جان لیتا ہوں۔ اس آیت کریمہ کے تحت صاحب تفسیر بیضاوی فرماتے ہیں:
" ولا اعلم الغيب ما لم يوح الى ولم ينصب عليه دليل
" ولا اعلم الغيب ما لم يوح الى ولم ينصب عليه دليل
ترجمہ: میں غیب نہیں جانتا جب تک مجھ پر وحی نہ کی جائے یا اس پر کوئی دلیل قائم نہ ہو۔ لہذا معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم غیب عطائی ہے ذاتی نہیں۔
واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلم بالصواب
واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(✍️)_________
کتبہ:- محمد عالم گیر، کٹیہار
الطالب المتدرب علی الإفتاء
بالجامعۃ الصمدیۃ بدار الخیر ففوند الشریفۃ
_________(✅)_________
حضرت علامہ مولانا مفتی انفاس الحسن چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
بانئی تحریک دعوتِ انسانیت