Type Here to Get Search Results !

جو کام سرکاری قانونی ہو اس میں رشوت لینا اور دینا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 2025)
جو کام سرکاری قانونی ہو اس میں رشوت لینا اور دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ ﷲ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بیچ کہ میں گورنمنٹ ادارے میں کام کرتا ہوں ۔۔کوئی بھی کام پیسے کے بغیر نہیں ہوتا گورنمنٹ میں ۔۔۔کچھ کام ہم نے جلدی کروانے ہوں تو جب تک پیسے نہ دیں کام نہیں ہوتا ۔۔۔ہم جیسے ہی پیسے دیتے ہیں تو کام ہو جاتا ہے ورنہ نہیں ۔تو کیا یہ رشوت میں آتا ہے؟
کام بھی قانونی ہے پھر بھی پیسے دیے بغیر نہیں ہوتا تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز مہربانی فرما کر رہنمائی فرما دیجیۓ۔ 
سائل:- سلمان اعجاز لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل
 
مذکورہ سوال میں رشوت لینا اور دینا دونوں ہی اصلاً حرام ہیں، لیکن آج کل یہ برائی عام ہے
واضح رہے کہ رشوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی باطل غرض اور ناحق مطالبہ کے پورا کرنے کے لیے کسی ذی اختیار یا کارپرداز شخص کوکچھ دے یا بغیر حقوق کے جبرا کچھ لے ۔
آپ گورنمنٹ ادارے میں جاب کرتے ہیں جو سرکاری فیس ہے اس کے علاوہ آپ کسی سے رقم نہیں لے سکتے ہیں بالخصوص مانگ کر لینا حرام و گناہ ہے سوال میں مذکورہ صورت رشوت میں داخل ہے جب کام قانونی ہے پھر کاہے کی رقم؟
اس بابت آقا علیہ السلام نے فرمایا 
لعن الله الراشی والمرتشی والرائش۔
رشوت لینے والے، دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔(طبرانی، المعجم الکبیر: 1415)
اسی طرح رشوت خوروں کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
أَکَّالُونَ لِلسُّحْت
یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں۔(المائده: 42)
سُحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن کریم نے فرمایا:
فَیُسحتکم بعذاب.
 یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری جڑ، بنیاد ختم کر دی جائے گی۔ قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد رشوت ہے، 
صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کر دیا گیا ہے۔
رشوت لینے اوردینے والے دونوں شخص گناہ و سزا کے مستحق ہیں 
مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ رشوت دینا بلاشبہ لعنت کا سبب ہے۔
اسی طرح رشوت لینے والا شخص بھی وعید کا مصداق اس وقت ہوگا، جب اس نے ایسے حق یاعمل کی انجام دہی پر رشوت لی ہو جو اس کے اوپر ازروئے شریعت واجب ہے، یا وہ کوئی کام ایسا کر رہا ہے، جس کے کرنے کا کوئی جواز نہیں اور دوسرے کا اس سے نقصان ہو رہا ہے، جب تک اس کی مٹھی گرم نہ کی جائے، وہ اپنے اس ناحق عمل سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ ہو، مندرجہ بالاحدیث کی روشنی میں ایساشخص ملعون ہے۔
واضح رہے کہ جو مجبور ہے اس سے تو رشوت مانگی جائے گی اور وہ مجبوراً دے بھی دے گا اس صورت میں مجبورا دینے والا عاصی نہیں کہ وہ اپنا حق اور درست کام کروارہا ہے لیکن یہ رشوت کا مال لینے والے سارے گناہگار ہوں گے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ اس برائی میں حصہ دار نا بنے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔ (الْمَآئِدَة، 5: 2)
البتہ جاب کے وقت کے علاوہ 
 اگر تو آپ کاغذات کی تیاری میں اپنا وقت دیں اور رہنمائی کریں اور اس کی اور مناسب فیس لے لیں پھر جائز ہے، لیکن اگر آپ رشوت کے لین دین میں براہ راست شریک ہوں گے تو رشوت لینے اور دینے والے کے گناہ میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/2/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area