(سوال نمبر 7035)
فجر کی نماز ادا کئے بغیر جمعہ کی نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فجر کی نماز قضا ہوگی اور اس کو ادا کرے بغیر جمعہ کی نماز ادا کرلی تو اس کا جمعہ کی نماز ہوگی یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
المستفتی:- محمد شاداب نوری محلہ رستمٹولہ قصبہ سہسوان ضلع بدایوں شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت جمعہ کی نماز ہوگئی بعد جمعہ اپنی قضا نماز ادا کریں یعنی نمازِ فجر کی عدم ادائیگی کی صورت میں نمازِ جمعہ کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر کسی وجہ سے نمازِ فجر ادا نہ کی گئی ہو تو نمازِ جمعہ اداء کی جا سکتی ہے۔ ہر نماز اپنے مقررہ وقت پر فرض ہے، اور کسی بھی نماز کی ادائیگی کسی دوسری نماز سے مشروط نہیں۔
اگر نمازِ فجر ادا نہیں کی تو بہتر یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے پہلے اس کی قضاء پڑھ لی جائے۔ اگر پہلے قضاء نہ کر سکے تو بھی نمازِ جمعہ کی ادائیگی میں خلل نہیں آئے گا۔ بعد میں قضاء پڑھ لی جائے۔ نمازِ جمعہ کسی بھی طرح نمازِ فجر کی ادائیگی سے مشروط نہیں۔
یاد رہے مذکورہ حکم اس کے لیے ہے جو صاحب ترتیب نہیں ہے
صاحبِ ترتیب جس کے ذمے 5 یا اس سے زیادہ نمازیں بلوغ کے بعد سے باقی نہ ہوں کہ وقتی فرض نمازیں قضاء نمازوں کو لوٹانے سے پہلے صحیح نہیں ہوتیں
جس صاحبِ ترتیب شخص کی فجر کی نماز قضاء ہوئی تھی، اس کے ذمہ فجر کی نماز کی قضاء جمعہ کی نماز سے پہلے لازم تھی چنانچہ اگر اس نے یاد ہونے کے باوجود جمعہ کی نماز فجر کی نماز لوٹانے سے پہلےپڑھی ہے تو اس طرح کرنے کی وجہ سے جمعہ کی نمازصحیح نہیں ہوئی لہذا اس پر فجر کی قضاء پڑھنے کے بعد ظہر کی نماز دوبارہ پڑھنا لازم ہے۔
لیکن اگر اس شخص نے فجر کی نماز لوٹانے سے پہلے جمعہ کی نماز بھولے سے پڑھی ہے، تو پھر اس صورت میں نمازصحیح ہوگئی ہے اب اس کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔
الھندیہ میں ہے
ولو أن مصلي الجمعة تذكر أن عليه الفجر فإن كان بحيث لو قطعها واشتغل بالفجر تفوته الجمعة ولا يفوته الوقت فعند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - يقطع الجمعة ويصلي الفجر ثم يصلي الظهر وعند محمد - رحمه الله تعالى - يتم الجمعة ولو كان بحيث إنه إذا قضى الفجر أدرك الجمعة مع الإمام فإنه يشتغل بالفجر إجماعا وإن كان بحيث إذا قطع الجمعة واشتغل بالفجر يفوته الوقت أتم الجمعة إجماعا ثم يصلي الفجر بعدها، كذا في السراج الوهاج.
ويسقط الترتيب عند ضيق الوقت، كذا في محيط السرخسي ولو قدم الفائتة جاز وأتم، هكذا في النهر الفائق ثم تفسير ضيق الوقت أن يكون الباقي منه ما لا يسع فيه الوقتية والفائتة جميعا حتى لو كان عليه قضاء العشاء مثلا وعلم أنه لو اشتغل بقضائه ثم صلى الفجر تطلع الشمس قبل أن يقعد قدر التشهد صلى الفجر في الوقت وقضى العشاء بعد ارتفاع الشمس، كذا في التبيين (الھندیہ کتاب الصلوہ، باب قضاء الفوائت، 122/1،)
مراقي الفلاح، میں نے
الترتیب بین الفائتة القلیلة وہی مادون ست صلوات، وبین الوقتیة وکذا التّرتیب بین نفس الفوائت القلیلة مستحق أي لازم ․․․․․ والأصل في لزوم الترتیب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من نام عن صلاة أو نسیہا فلم یذکرہا إلاّ وہو یصلّي مع الإمام فلیصلّ الّتي ہو فیہا ثمّ لیقض التي تذکر ثمّ لیعد الّتي صلّی مع الإمام ․․․․․ ویسقط الترتیب بأحد ثلاثة أشیاء: الأوّل: ضیق الوقت المستحبّ في الأصحّ ، والثّاني: النّسیان، والثّالث: إذا صار الفوائت ستّا ۔
فجر کی نماز ادا کئے بغیر جمعہ کی نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فجر کی نماز قضا ہوگی اور اس کو ادا کرے بغیر جمعہ کی نماز ادا کرلی تو اس کا جمعہ کی نماز ہوگی یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
المستفتی:- محمد شاداب نوری محلہ رستمٹولہ قصبہ سہسوان ضلع بدایوں شریف انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
مذکورہ صورت جمعہ کی نماز ہوگئی بعد جمعہ اپنی قضا نماز ادا کریں یعنی نمازِ فجر کی عدم ادائیگی کی صورت میں نمازِ جمعہ کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر کسی وجہ سے نمازِ فجر ادا نہ کی گئی ہو تو نمازِ جمعہ اداء کی جا سکتی ہے۔ ہر نماز اپنے مقررہ وقت پر فرض ہے، اور کسی بھی نماز کی ادائیگی کسی دوسری نماز سے مشروط نہیں۔
اگر نمازِ فجر ادا نہیں کی تو بہتر یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے پہلے اس کی قضاء پڑھ لی جائے۔ اگر پہلے قضاء نہ کر سکے تو بھی نمازِ جمعہ کی ادائیگی میں خلل نہیں آئے گا۔ بعد میں قضاء پڑھ لی جائے۔ نمازِ جمعہ کسی بھی طرح نمازِ فجر کی ادائیگی سے مشروط نہیں۔
یاد رہے مذکورہ حکم اس کے لیے ہے جو صاحب ترتیب نہیں ہے
صاحبِ ترتیب جس کے ذمے 5 یا اس سے زیادہ نمازیں بلوغ کے بعد سے باقی نہ ہوں کہ وقتی فرض نمازیں قضاء نمازوں کو لوٹانے سے پہلے صحیح نہیں ہوتیں
جس صاحبِ ترتیب شخص کی فجر کی نماز قضاء ہوئی تھی، اس کے ذمہ فجر کی نماز کی قضاء جمعہ کی نماز سے پہلے لازم تھی چنانچہ اگر اس نے یاد ہونے کے باوجود جمعہ کی نماز فجر کی نماز لوٹانے سے پہلےپڑھی ہے تو اس طرح کرنے کی وجہ سے جمعہ کی نمازصحیح نہیں ہوئی لہذا اس پر فجر کی قضاء پڑھنے کے بعد ظہر کی نماز دوبارہ پڑھنا لازم ہے۔
لیکن اگر اس شخص نے فجر کی نماز لوٹانے سے پہلے جمعہ کی نماز بھولے سے پڑھی ہے، تو پھر اس صورت میں نمازصحیح ہوگئی ہے اب اس کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔
الھندیہ میں ہے
ولو أن مصلي الجمعة تذكر أن عليه الفجر فإن كان بحيث لو قطعها واشتغل بالفجر تفوته الجمعة ولا يفوته الوقت فعند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - يقطع الجمعة ويصلي الفجر ثم يصلي الظهر وعند محمد - رحمه الله تعالى - يتم الجمعة ولو كان بحيث إنه إذا قضى الفجر أدرك الجمعة مع الإمام فإنه يشتغل بالفجر إجماعا وإن كان بحيث إذا قطع الجمعة واشتغل بالفجر يفوته الوقت أتم الجمعة إجماعا ثم يصلي الفجر بعدها، كذا في السراج الوهاج.
ويسقط الترتيب عند ضيق الوقت، كذا في محيط السرخسي ولو قدم الفائتة جاز وأتم، هكذا في النهر الفائق ثم تفسير ضيق الوقت أن يكون الباقي منه ما لا يسع فيه الوقتية والفائتة جميعا حتى لو كان عليه قضاء العشاء مثلا وعلم أنه لو اشتغل بقضائه ثم صلى الفجر تطلع الشمس قبل أن يقعد قدر التشهد صلى الفجر في الوقت وقضى العشاء بعد ارتفاع الشمس، كذا في التبيين (الھندیہ کتاب الصلوہ، باب قضاء الفوائت، 122/1،)
مراقي الفلاح، میں نے
الترتیب بین الفائتة القلیلة وہی مادون ست صلوات، وبین الوقتیة وکذا التّرتیب بین نفس الفوائت القلیلة مستحق أي لازم ․․․․․ والأصل في لزوم الترتیب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من نام عن صلاة أو نسیہا فلم یذکرہا إلاّ وہو یصلّي مع الإمام فلیصلّ الّتي ہو فیہا ثمّ لیقض التي تذکر ثمّ لیعد الّتي صلّی مع الإمام ․․․․․ ویسقط الترتیب بأحد ثلاثة أشیاء: الأوّل: ضیق الوقت المستحبّ في الأصحّ ، والثّاني: النّسیان، والثّالث: إذا صار الفوائت ستّا ۔
(مراقي الفلاح، کتاب الصّلاة ، باب قضاء الفوائت، ص ۴۴۰تا ۴۴۳،)
بہار شریعت میں ہے
جب چھ نمازیں قضا ہونے کے سبب ترتیب ساقط ہوگئی تو ان میں سے اگربعض پڑھ لی کہ چھ سے کم رہ گئیں تو وہ ترتیب عود نہ کرے گی یعنی ان میں سے اگر دو باقی ہوں تو باوجود یاد کے وقتی نماز ہو جائے گی البتہ اگر سب قضائیں پڑھ لیں تو اب پھر صاحب ترتیب ہوگیا کہ اب اگر کوئی نماز قضا ہوگی تو بشرائط سابق اسے پڑھ کر وقتی پڑھے ورنہ نہ ہوگی۔(بہار شریعت،ج 1ح 4 ص 705 مکتبۃ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
بہار شریعت میں ہے
جب چھ نمازیں قضا ہونے کے سبب ترتیب ساقط ہوگئی تو ان میں سے اگربعض پڑھ لی کہ چھ سے کم رہ گئیں تو وہ ترتیب عود نہ کرے گی یعنی ان میں سے اگر دو باقی ہوں تو باوجود یاد کے وقتی نماز ہو جائے گی البتہ اگر سب قضائیں پڑھ لیں تو اب پھر صاحب ترتیب ہوگیا کہ اب اگر کوئی نماز قضا ہوگی تو بشرائط سابق اسے پڑھ کر وقتی پڑھے ورنہ نہ ہوگی۔(بہار شریعت،ج 1ح 4 ص 705 مکتبۃ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
11/08/2023