Type Here to Get Search Results !

ایک گائے اور 5 بکریاں پر زکوٰۃ ؟

 (سوال نمبر 7097)
ایک گائے اور 5 بکریاں پر زکوٰۃ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں زکوة ادا کرنا چاہتا ہوں۔
1۔میرے پاس ساڑھے تین ایکر رقبہ زرعی ہے۔ایک ایکر کی قیمت 16 لاکھ ہے۔
2۔میرے پاس 10 مرلے کا پلاٹ ہے زرعی۔پلاٹ کی قیمت 15 لاکھ ہے۔تقریباً
3۔میرے پاس سونا 40 ہزار روپے کا ہے۔ 4۔میرے پاس مال مویشی 1 گاۓ پانچ بکریاں۔گاۓ کی قیمت 80 ہزار اور بکریوں کی قیمت 70 ہزار ہیں۔5۔گھر میں برتن ہے 40 ہزار کے ہے جو استعمال میں نہیں ہے رہنمائی فرمادیں۔کہ میں زکوة کا اہل ہو کہ نہیں۔ 
سائل:- کامران گجرات پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عزوجل 

١/ کاشت کاری زرعی زمین ہے اس پر زکات نہیں عشر ہے۔
٢/ جو پلاٹ ہے اگر اسے بیچنے کے لیے منافع حاصل کرنے کے طور پر خریدا ہے اور حاجت اصلیہ سے زیادہ ہے پھر سال گزرنے پر جو قیمت اس وقت بنتی ہے اڑھائی فی صد زکوت ہے۔
یاد رہے مذکورہ شخص قرضدار نھی نہ ہو ورنہ قرض منہا کرکے باقی میں زکات ہے۔
 ٣/ سونا اگر ساڑھے سات تولہ ہے پھر اس پر زکات ہے ورنہ نہیں۔
٤/ ایک گائے 5 بکری پر زکات نہیں یہ ضرورت ہے 
چالیس ۴۰ سے کم بکریاں ہوں تو زکاۃ واجب نہیں اور چالیس ۴۰ ہوں تو ایک بکری اور یہی حکم ایک سو بیس ۱۲۰ تک ہے
یعنی ان میں بھی وہی ایک بکری ہے اور ایک سو اکیس ۱۲۱ میں دو اور دو سو ایک۰۱ ۲ میں تین ۳ اور چار سو ۴۰۰ میں چار ۴ پھر ہر سو پر ایک۔
تیس سے کم گائیں ہوں تو زکاۃ واجب نہیں، جب تیس ۳۰ پوری ہوں تو ان کی زکاۃ ایک تبیع یعنی سال بھر کا بچھڑا یا تبیعہ یعنی سال بھر کی بچھیا ہے اور چالیس ۴۰ ہوں تو ایک مسن یعنی دو سال کا بچھڑا یا مُسِنّہ یعنی دو سال کی بچھیا، انسٹھ ۵۹ تک یہی حکم ہے۔ پھر ساٹھ ۶۰ میں دو تبیع یا تبیعہ پھر ہر تیس ۳۰ میں ایک تبیع یا تبیعہ اور ہر چالیس ۴۰ میں ایک مُسِنّ یا مُسِنّہ، مثلاً ستّر ۷۰ میں ایک تبیع اور ایک مُسِنّ اور اسّی ۸۰ میں دو مُسِنّ وعلیٰ ہذا القیاس (کتبہ فقہ عامہ)
٥/ جو برتن کام میں نہیں اور سال بھر استعمال نہیں اگر ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے قیمت کو پہچ جائے پھر اس قیمت میں اڑھائی فی صد زکات واجب ہے۔
نیز کچھ سونا کچھ چاندی کچھ رقم سب ملا کر اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے پھر اس مجموعہ قیمت میں زکات ہے۔
یعنی اگر سونے کے ساتھ ساتھ کسی شخص کی ملکیت میں حاجتِ اصلیہ اور قرض سے زائد دیگر اموالِ زکوٰۃ (چاندی، کرنسی، مالِ تجارت) میں سے کوئی مال بھی موجود ہو، تو اب ساڑھے سات تولہ سونے کے بجائے ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا اعتبار ہوگا یعنی کہ اگر یہ تمام اموالِ زکوٰۃ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچتے ہوں، تو اس صورت میں زکوۃ کے نصاب کا ہجری سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
صرف سونا ہونے کی صورت میں اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے۔ 
موطأ الامام مالك میں ہے
ليس فيما دون عشرين دينارا عينا الزكاة وليس في مائتي درهم ناقصة بينة النقصان زكاة ۔
بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونے) سے کم میں زکوٰۃ نہیں، یونہی دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی)سے کم میں زکوٰۃ نہیں (موطأ الإمام مالك، ج01،ص246، دار إحياء التراث، مصر)
تحفۃ الفقہاء میں ہے
اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون مثقالا ففیہ نصف مثقال و ان کان اقل من ذلک فلا زکاۃ فیہ۔
صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے، تب اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ) سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔ (تحفۃ الفقھاء، ج01، ص266 ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
وقار الفتاوی میں ہے 
سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے اور چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولے ہے۔جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ پیسہ ، چاندی اور مالِ تجارت بالکل نہیں ، اس پر سوا سات تولے تک سونے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی ہے ، سونا ، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب ساڑھے باون تولہ پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔لیکن اگر چاندی اور سونا دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ پیسہ مالِ تجارت بھی ہے، اسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا، لہٰذا سونا چاندی ، نقد روپیہ اور مالِ تجارت سب کو ملا کر ، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے (وقار الفتاوی، ج02،ص 385-384 ،بزم وقار الدین، کراچی)
فتاوٰی اہلسنت میں ہے
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے پاس صرف یہی سونا ہے، اس کے علاوہ سونا ، چاندی، تجارت کا سامان اور رقم وغیرہ نہیں، تو زکوٰۃ جس نصاب پر فرض ہوتی ہے ، اس اعتبار سے آپ صاحبِ نصاب نہیں ہیں کہ صرف سونا ہو، تو فرضیتِ زکوٰۃ کے لیے اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، لہٰذا اس حالت میں سال پورا ہونے پر آپ پر زکوٰۃ بھی فرض نہیں ہو گی اور اگر سونے کے ساتھ کچھ چاندی ، اگرچہ ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو یا سامانِ تجارت یا رقم ضرورت سے زائد ہو ، تو زکوٰۃ کا نصاب تو بن جائے گا، اس لیے کہ اب سونے کے نصاب کا اعتبار نہ ہو گا، بلکہ چاندی کے نصاب سے موازنہ کیا جائے گا اور وہ ساڑھے باون تولہ چاندی ہے ، لیکن آپ پر اتنا قرض بھی ہے کہ اس قرض کو آپ کے مال سے نکالیں تو نصاب باقی نہیں رہے گا، اس لیے اس طرح بھی آپ پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔(فتاوٰی اھلسنت احکامِ زکوٰۃ ص110،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17_08/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area